ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کا حملہ انتہائی خطرناک ہے، روسی صدر
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
بیجنگ :چینی صدر شی جن پھنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت ہوئی جس میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔جمعرات کے روز پیوٹن نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال پر روس کے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کا حملہ انتہائی خطرناک ہے، تنازع کو بڑھانا کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں اور ایرانی جوہری مسئلے کو بات چیت اور مشاورت سے حل کیا جانا چاہیے۔ موجودہ صورتحال بدستور تیزی سے کشیدہ ہو رہی ہے، اور روس چین کے ساتھ قریبی رابطے برقرار رکھنے، کشیدگی میں کمی لانے اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ طور پر مثبت کوششیں کرنے کے لیے تیار ہے۔ شی جن پھنگ نے چین کے اصولی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تنازع مزید بڑھتا ہے تو نہ صرف متحارب فریقوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا بلکہ علاقائی ممالک کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ شی جن پھنگ نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں چار تجاویز پیش کیں۔ اول ، جنگ بندی کو فروغ دینا اور جنگ کو روکنا ناگزیر ہے۔ تنازع کے فریقین، خاص طور پر اسرائیل کو جلد از جلد فائر بندی کرنی چاہیے تاکہ صورت حال کو مزید کشیدہ ہونے سے روکا جا سکے اور جنگ کے مزید پھیلاو سے بچا جا سکے۔ دوسرا، شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔ تنازع کے فریقین کو بین الاقوامی قانون کی سختی سے پاسداری کرنی چاہیے، معصوم شہریوں کو نقصان پہنچانے سے باز رہنا چاہیے، اور دیگر ممالک کے شہریوں کے انخلا میں سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ تیسرا، بات چیت اور مذاکرات کا آغاز بنیادی راستہ ہے۔ پائیدار امن کے حصول کے لیے بات چیت اور مشاورت ہی صحیح راستہ ہے۔ چوتھا، امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششیں ناگزیر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین تمام فریقوں کے ساتھ رابطے اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے، کوششوں کو آگے بڑھانے، انصاف کو برقرار رکھنے اور مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شی جن پھنگ بات چیت کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کی بے بسی بڑھنے لگی، ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے صلاحیتیں ناکافی
اگر امریکا نے ایران پر اسرائیلی حملے میں براہ راست ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو امکان ہے کہ وہ اسرائیل کو ایسے طاقتور بم فراہم کرے گا جو ایران کی زیر زمین ایٹمی تنصیب فرود کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنکر بسٹر بم جنہیں زمین کے اندر گہرائی میں دھماکے کے لیے تیار کیا گیا ہے استعمال کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر امریکی فضائیہ کے پاس موجودGBU-57A/B Massive Ordnance Penetrator نامی بم جو قریباً 13,600 کلوگرام وزنی ہے اور 60 میٹر تک زمین میں گھس کر پھٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ بم صرف B-2 اسٹیلتھ بمبار طیارے سے فائر کیے جا سکتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ صرف امریکا کے پاس اس حملے کی صلاحیت موجود ہے، نہ کہ اسرائیل کے پاس۔
فرود ایٹمی مرکز کیا ہے؟فرود، ایران کا دوسرا سب سے اہم یورینیم افزودگی مرکز ہے جو قم شہر کے قریب پہاڑ کے اندر بنایا گیا ہے۔ یہ تنصیب 2006 میں زیر تعمیر آئی اور 2009 میں فعال ہوئی۔ اسے 80 میٹر موٹی چٹانوں کی تہوں کے نیچے تعمیر کیا گیا ہے، اور ایرانی و روسی میزائل دفاعی نظاموں سے محفوظ بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ’کوئی ثبوت نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے‘، بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی
اب تک اسرائیل کی جانب سے فرود پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ ایران کے میزائل اور ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا اسرائیل کے لیے وجودی خطرہ کے خاتمے کا حصہ ہے، اور فرود کا خاتمہ ان اہداف میں شامل ہے۔
امریکا کے شامل ہونے کے اثراتماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے اسرائیل کو براہ راست فوجی مدد فراہم کی، تو اس سے ایران کے ساتھ صدر ٹرمپ کی مجوزہ ایٹمی مذاکرات کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچے گا۔
امریکا کے اسٹریٹیجک تجزیہ کار مائیکل شو بریج کے مطابق، اسرائیل کے پاس ایسی گہری سرنگوں میں واقع تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اسرائیل کے پاس صرف 2,270 کلوگرام وزنی بم موجود ہیں، جبکہ فرود جیسے ہدف کے لیے 13,600 کلوگرام وزنی بم درکار ہے۔
ایران کا ردعمل اور عالمی خطراتایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا ہے کہ ایران اب اپنے حساس جوہری مواد اور تنصیبات کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے کو مکمل معلومات فراہم نہیں کرے گا۔ ایرانی پارلیمان میں ایک مسودہ قانون بھی زیر غور ہے جس کے تحت ایران عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (NPT) سے نکل سکتا ہے، بالکل ویسا ہی جیسا شمالی کوریا نے کیا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکا جنگ میں شریک ہوا تو ایران و اتحادیوں کا جواب کیسا ہوگا؟
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق، اگر ایران نے آئی اے ای اے سے مزید تعاون روک دیا تو خدشہ ہے کہ ایران کسی خفیہ افزودگی مرکز پر کام کر رہا ہو یا کرسکتا ہے۔
ٹرمپ کا سخت مؤقفصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ایران کے اوپر اب ہماری فضائی برتری مکمل ہے۔ ہم نہ تو شہریوں پر میزائل برداشت کریں گے اور نہ اپنے فوجیوں پر، ہماری صبر کی حد ختم ہو رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی حملے امریکا ایران فرود ایٹمی مرکز