تربیت یافتہ دائیوں کی مدد سے لاکھوں جانیں بچانا ممکن، ڈبلیو ایچ او
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 جون 2025ء) 2023 میں زچہ بچہ کی اموات اور مردہ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 45 لاکھ تھی جن میں سے 37 لاکھ اموات قابل انسداد اسباب سے ہوئیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اگر دنیا بھر میں ہر جگہ تربیت یافتہ دائیوں کی خدمات میسر ہوں تو ہر سال بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
دائیاں دنیا بھر میں خواتین کو طبی نگہداشت فراہم کرنے کے لیے مسلسل تندہی سے کام کرتی ہیں جس میں انہیں جنسی و تولیدی صحت، دوران حمل نگہداشت اور زچگی و بعد از زچگی مدد کی فراہمی شامل ہے۔
ان کی موجودگی دیہی علاقوں یا مسلح تنازعات سے متاثرہ جگہوں پر خواتین کے لیے خاص طور پر مفید ہوتی ہے جہاں ہسپتالوں تک رسائی کا فقدان ہوتا ہے۔ Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' میں زچہ بچہ اور نوعمر افراد کی صحت سے معتلق شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انشو بینرجی نے کہا ہے کہ دائیوں کی تربیت اور ان کی تعداد کو بڑھانا دنیا بھر میں زچہ بچہ کی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کی موثر ترین حکمت عملی ہے۔
(جاری ہے)
'ڈبلیو ایچ او' کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی برادری کی مدد سے رکن ممالک ایسے اقدامات اور پالیسیاں شروع کر سکتے ہیں جس سے دائیوں اور ان کے کام کو وسعت دینے اور بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
فطری اور انسان دوست زچگی'ڈبلیو ایچ او' میں حاملہ اور زچہ بچہ خواتین کی صحت اور دائیوں کے کام کی ماہر الریکا رینسٹروم نے کہا ہےکہ تربیت یافتہ دائیاں خواتین کو اپنے جسم اور صلاحیتوں پر اعتماد بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔
ان کی بدولت خواتین کو اپنی صحت کے حوالے سے فیصلہ سازی اور ضروری معلومات تک رسائی میں مدد ملتی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ بچے کی پیدائش کے عمل میں ہسپتالوں پر انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے تو دائیوں کے ذریعے حاملہ خواتین اور زچہ بچہ کی نگہداشت کہیں اہمیت اختیار کر گئی ہے کیونکہ وہ سادہ و مستند طریقوں سے اپنا کام کرتی ہیں۔
دائیوں کی بین الاقوامی تنطیم کی چیف ایگزیکٹو اینا اگلس کا کہنا ہے کہ دائیاں زچگی کا عمل غیرضروری طبی مداخلت کے بجائے فطری اور انسان دوست انداز میں انجام دیتی ہیں جس میں اس کام کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس طرح خواتین خود کو محفوظ اور بااختیار محسوس کرتی ہیں۔
10 لاکھ دائیوں کی ضرورتاینا اگلس نے کہا ہے کہ دائیوں کا کام اہم ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے۔
دنیا بھر میں تقریباً 10 لاکھ دائیوں کی کمی ہے جسے پورا کرنے کے لیے مرتکز اور مختلف شعبوں کے باہم مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دائیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے تعلیم و صحت سمیت کئی شعبوں میں پالیسی سازی کرنا ہو گی اور عوامی آگاہی کے لیے مہمات چلانا ہوں گی۔
مراکش میں دائیوں کی تنظیم نے ایسی ہی ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت لوگوں میں معلوماتی مواد تقسیم کرنے کے علاوہ خواتین اور سول سوسائٹی کے اداروں کی شراکتیں قائم کی جاتی ہیں۔
اسی مہم کے نتیجے میں 2016 میں قانون سازی کے ذریعے دائیوں کے کام کی باقاعدہ تعریف متعین کی گئی۔مراکش جیسے مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ پالیسی سازی، اس پر عملدرآمد اور لوگوں کے لیے آگاہی کے اقدامات بیک وقت اٹھائے جانا ضروری ہیں اور ہر ملک کو اپنے مخصوص حالات کے مطابق طریقے اختیار کرنا چاہئیں۔
کامیاب دایہ گیری کی مثالمغربی کنارے میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی، ناروے کی فلسطینی کمیٹی اور فلسطینی وزارت صحت نے دیہی علاقوں میں حمل اور زچگی کی خدمات تک رسائی میں حائل مسائل پر قابو پانے کے لیے مہم شروع کی۔
اس سلسلے میں ہسپتالوں اور مقامی لوگوں کے مابین ارتباط کے ذریعے 2013 سے 2016 تک دائیوں کی خدمات کو چھ علاقائی ہسپتالوں اور 37 دیہات تک وسعت دی گئی۔ نتیجتاً سی سیکشن کے ذریعے غیرمنصوبہ بند زچگی میں 20 فیصد اور قبل از وقت پیدائش کی شرح میں 21 فیصد تک کمی آئی۔ڈاکٹر بینرجی کا کہنا ہے کہ یہ مختصر مدتی فوائد ہیں اور دائیوں کی خدمات کو وسعت دے کر طویل مدتی فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دائیوں کی بدولت خواتین اور خاندانوں کے طبی نگہداشت سے متعلق تجربے اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور زندگی کے اس اہم مرحلے میں صحت کے لیے بااعتماد شراکتیں قائم ہوتی ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او دنیا بھر میں دائیوں کی کے ذریعے کی خدمات زچہ بچہ کے لیے گیا ہے اور ان
پڑھیں:
برآمدات پر مبنی ترقی صنعتوں کے فروغ سے ممکن ہے، وزیراعظم شہباز شریف
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19جون 2025)وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ برآمدات پر مبنی ترقی صنعتوں کے فروغ سے ممکن ہے، ملکی برآمدات میں صنعت مرکزی حیثیت رکھتی ہے،معاشی ترقی کیلئے ملکی صنعتوں کی ترقی نا گزیر ہے، وزیراعظم کی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو نئی زندگی دینے کیلئے مؤثر صنعتی پالیسی کو جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت، ملکی صنعتوں کے حوالے سے وزیراعظم کی زیر صدارت اہم اجلاس منعقدہ ہوا جس میں وفاقی وزراء ودیگراعلیٰ سرکاری حکام شریک ہوئے۔اجلاس کے دوران وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ نئی صنعتی پالیسی کے تحت مینوفیکچرنگ سیکٹر کو دوبارہ فعال کیا جائے گا۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کو ملکی صنعتوں کی ترقی کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئیں۔(جاری ہے)
بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مؤثر صنعتی پالیسی کے ذریعے ملک کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بحال کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے صنعتی پالیسی کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ٹیرف پالیسی سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ملکی صنعتوں کو عالمی معیار کے مطابق افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ٹیرف ریشنلائزیشن پالیسی کے ذریعے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔غیر یقینی صنعتی پالیسیاں صنعتوں کے فروغ میں حائل رہی ہیں۔ ہم ایک مؤثر پالیسی کی بدولت صنعتی ترقی کو نئی بلندیوں پر لے کر جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات پر مبنی معاشی ترقی صنعتوں کی ترقی سے مشروط ہے۔ ملکی صنعتوں کو جدید ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ افرادی قوت سے لیس کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حالیہ معاشی پالیسیاں ملکی صنعتوں کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی گئی ہیں۔اس موقع پروزیراعظم نے ہدایت کی کہ ٹیرف ریشنلائزیشن پالیسی کو مؤثر انداز میں نافذ کیا جائے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو اور صنعتی شعبہ مستحکم ہو۔وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ صنعتی پیداوار میں اضافے اور صنعتوں کو درپیش مسائل کے پائیدار حل کیلئے صنعتی پالیسی کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔