ٹرمپ نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری کی خبرکو مستردکر دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 19 June, 2025 سب نیوز

واشنگٹن (آئی پی ایس )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری کی خبر کو مسترد کر دیا۔
اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر جاری بیان میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی اخبار کو آئیڈیا نہیں کہ میں ایران کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوں۔ خیال رہے کہ امریکی اوربرطانوی اخبارات نے خبردی تھی کہ ٹرمپ نے ایران پر حملے کی منظوری دیدی ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا تھا کہ ٹرمپ نے منگل کی رات سینئر مشیروں کو بتایا کہ انہوں نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے لیکن فی الحال حتمی حکم نہیں دیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ آیا ایران اپنا جوہری پروگرام ترک کرتا ہے یا نہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرصدرِ مملکت کی کولیشن جوائنٹ کمیٹی کی فعال سفارتی کوششوں کی تعریف صدرِ مملکت کی کولیشن جوائنٹ کمیٹی کی فعال سفارتی کوششوں کی تعریف ایران پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف امریکا میں احتجاج، مظاہرین کا ٹرمپ سے جنگ میں نہ الجھنے کا مطالبہ مریم نواز خود کو اور پاپا کو زبردستی ہیرو بنانیکی ناکام کوشش کر رہی ہیں، بیرسٹر سیف وفاقی بجٹ کی راہ ہموار، حکومت نے پیپلز پارٹی کے چار بڑے مطالبات مان لیے اسرائیلی وزیر دفاع کی ہسپتال پر حملے کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کی دھمکی وزیرِاعظم شہباز شریف نے چینی کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ روکنے کیلئے کریک ڈاون کی منظوری دے دی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری ٹرمپ نے ایران پر حملے

پڑھیں:

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ

اسلام ٹائمز: ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کسی خاص شخصیت یا ایک مخصوص ریاست سے نہیں ہے بلکہ یہ تصادم عالمی نقطہ نظر، اقدار، اسٹریٹجک مفادات اور عالمی نظام کی شناخت اور جہان بینی میں تصادم کی بدولت ہے۔ جب تک امریکہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے، ایران کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے اصولوں پر مبنی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور جب تک اسلامی جمہوریہ آزادی، مزاحمت اور انصاف کے حصول جیسے اصولوں پر اصرار کرتا رہے گا، یہ اختلاف باقی رہے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کا لب لباب بھی یہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

یوم طلبہ اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 3 نومبر 2025ء کی صبح ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس اور اسی طرح مسلط کردہ بارہ روزہ جنگ کے کچھ شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں ایران کے ساتھ تعاون میں دلچسپی کے بعض امریکی عہدیداروں کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ تعاون، ملعون صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے تعاون اور مدد سے میل نہیں کھاتا۔ انھوں نے عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت سے نفرت اور اس کی مذمت کے باوجود امریکا کی جانب سے اس حکومت کی مدد، پشت پناہی اور حمایت جاری رہنے کے بعد بھی ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست کو لایعنی اور ناقابل قبول قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ اگر امریکا صیہونی حکومت کی پشت پناہی پوری طرح سے چھوڑ دے، خطے سے اپنے فوجی اڈوں کو ختم کر دے اور اس علاقے میں اپنی مداخلت بند کر دے تو اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت اور مستقبل قریب میں نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کے ماضی اور اسی طرح 4 نومبر 1979ء کو امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جوانوں کے ہاتھوں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے کا تاریخی اور ماہیتی پہلو سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تاریخی پہلو سے اسٹوڈنٹس کے اس شجاعانہ اقدام کو ایرانی قوم کے فخر اور فتح کا دن قرار دیا اور کہا کہ ایران کی تاریخ میں، فتح کے دن بھی ہیں اور کمزوری کے بھی اور دونوں کو قومی حافظے میں محفوظ رہنا چاہیئے۔ انھوں نے اس بڑے واقعے کے ماہیتی پہلو کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے پر قبضے نے امریکی حکومت کی ماہیت اور اسی طرح اسلامی انقلاب کی حقیقی ماہیت کو عیاں کر دیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے آپ کو برتر سمجھنے کے معنی میں قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ "استکبار" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں برطانیہ جیسی اور آج کل امریکا جیسی کوئی حکومت اس بات کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ اقوام کے حیاتی مفادات کو لوٹ کر ان پر حکم چلائے یا کسی ایسے ملک میں جہاں مضبوط حکومت اور ہوشیار عوام نہیں ہیں، اپنے فوجی اڈے قائم کرے اور اقوام کے تیل اور دیگر ذخائر کو لوٹے اور یہ وہی استکبار یا سامراج ہے، جس کے ہم دشمن ہیں اور جس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ انھوں نے ایران میں دسیوں سال پہلے مصدق کی حکومت کو گرانے کے لیے برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، برطانیہ سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنے میں ان کی سادہ لوحی اور غفلت کی یاد دہانی کرائی اور کہا کہ امریکیوں نے مصدق کو بھروسہ دلایا، لیکن ان کی پس پشت انھوں نے انگریزوں سے ہاتھ ملا کر بغاوت کرائی اور ایران کی قومی حکومت کو گرا کر ملک سے فرار ہوچکے شاہ کو ایران میں واپس لوٹایا۔

انھوں نے امریکی سینیٹ میں ایران کے خلاف پاس ہونے والے معاندانہ بل کو اسلامی انقلاب سے امریکا کا پہلا ٹکراؤ بتایا اور محمد رضا کو امریکا میں آنے دینے پر ایرانی رائے عامہ کے غیظ و غضب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کو محسوس ہوا کہ امریکی اپنے ملک کو شاہ کو بسا کر، ایک بار پھر ایران میں بغاوت کرانا اور شاہ کو واپس لوٹانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ طیش میں سڑکوں پر آگئے اور ان کے اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں کا ایک حصہ، امریکی سفارتخانے پر قبضے پر منتج ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ابتدا میں اسٹوڈنٹس صرف دو تین دن سفارتخانے میں رہنا اور دنیا کے سامنے صرف ایرانی قوم کے غصے کا اظہار کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں سفارتخانے میں ایسے دستاویزات ملے، جن سے پتہ چلا کہ معاملہ تصور سے کہیں آگے کا ہے اور امریکی سفارتخانہ، انقلاب کو ختم کرنے کی سازشوں کا مرکز ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے دنیا میں سفارتخانوں کے معمول کے کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا مسئلہ، معلومات اکٹھا کرنے کا نہیں تھا بلکہ امریکی سازشوں اور چالوں کا ایک مرکز بنا کر انقلاب کے خلاف کارروائی کے لیے شاہ کی حکومت کی باقیات، فوج کے بعض افراد اور کچھ دوسرے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہ رہے تھے اور جب اسٹوڈنٹس کو یہ پتہ چلا تو انھوں نے سفارت خانے کو اپنے قبضے میں باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے امریکی سفارتخانے پر قبضے کو ایران اور امریکا کے درمیان مسائل کی شروعات بتائے جانے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا مسئلہ 4 نومبر 1979ء کو نہیں بلکہ 19 اگست 1956ء کو شروع ہوا تھا، جب برطانیہ اور امریکا نے مصدق کے خلاف بغاوت کرائی تھی۔ اس کے علاوہ امریکی سفارتخانے پر قبضے کی وجہ سے انقلاب کے خلاف بہت گہری سازش اور خطرے کا پتہ چلا اور اسٹوڈنٹس نے یہ اہم کام کرکے اور دستاویزات کو اکٹھا کرکے اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب سے دشمنی اور اس کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کی اصل وجہ، امریکا کے منہ سے ایک شکار کا نکل جانا اور ایران کے ذخائر پر سے امریکا کا تسلط ختم ہو جانا بتایا اور کہا کہ وہ اتنی آسانی سے ایران کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اسی لیے انھوں نے شروع سے ہی نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف بلکہ ایرانی قوم کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں ایرانی قوم کے خلاف امریکا کی لگاتار دشمنی کو امام خمینی کے اس جملے کی حقانیت کی نشانی بتایا کہ "آپ جتنا بھی برا بھلا کہنا چاہتے ہیں، امریکا کو کہیں۔" انھوں نے کہا کہ امریکا کی دشمنی صرف زبانی نہیں تھی بلکہ امریکیوں نے ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے پابندی، سازش، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی مدد، ایران پر حملے کے لیے صدام کو ترغیب دلانے اور اس کی حمایت، تین سو افراد کے ساتھ ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے، پروپیگنڈوں کی جنگ اور براہ راست فوجی حملے جیسا ہر کام کیا، کیونکہ امریکا کی ماہیت، اسلامی انقلاب کی خود مختارانہ ماہیت سے میل نہیں کھاتی اور امریکا اور اسلامی جمہوریہ کا اختلاف کوئی ٹیکٹکل اور جزوی اختلاف نہیں بلکہ بنیادی اور وجودی اختلاف ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے بعض لوگوں کی طرف سے "امریکا مردہ باد" کے نعرے کو ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی وجہ قرار دیے جانے کو تاریخ کو الٹا لکھنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ نعرہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے امریکا ہماری قوم سے ٹکرا جائے، اسلامی جمہوریہ سے امریکا کا اصل مسئلہ، ماہیت کا اختلاف اور مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ انھوں نے بعض لوگوں کے اس سوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے، لیکن کیا ابد تک ہمارے اس سے تعلقات نہیں ہوں گے؟ کہا کہ امریکا کی سامراجی ماہیت، فریق مقابل کے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز کو نہیں مانتی اور یہ چیز سبھی امریکی سربراہان مملکت چاہتے تھے، لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے، تاہم ان کے موجودہ صدر نے یہ بات کھل کر زبان سے کہہ دی اور امریکا کے باطن پر پڑا ہوا پردہ ہٹا دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اتنی زیادہ توانائی، ثروت، فکری و نظریاتی ماضی اور ذہین و پرجوش نوجوان رکھنے والی ایرانی قوم سے سرینڈر ہو جانے کی توقع رکھنے کو فضول بتایا اور کہا کہ مستقبل بعید کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس وقت سبھی جان لیں کہ بہت سے مسائل کا علاج، طاقتور بننا ہے۔ رہبر انقلاب نے اس خطاب میں انقلاب اور امریکہ دشمنی کی ماہیت کو بیان فرمایا ہے اور اس دشمنی کی وجوہات پر موجودہ صورتحال کے تناظر میں روشنی ڈالی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ایران کا اختلاف کیوں اور کس لئے ہے؟ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیے میں، بعض اوقات اختلافات اور محاذ آرائی محض عارضی ہوتی ہے، جو حکمت عملی میں تبدیلی سے حل ہو جاتی ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے درمیان تصادم میں، ہمیں ایک گہرے اور ملٹی ڈائیمینشن (کثیرالجہتی) رجحانات کا سامنا ہے۔ رہبر معظم انقلاب کے بقول بڑا فرق "اندرونی و ماہیتی فرق" ہے۔

رہبر انقلاب کے یہ دانشمندانہ الفاظ امریکہ سے دہائیوں کی کشیدگی اور محاذ آرائی کو سمجھنے کی کلید ہیں۔ لیکن اس اندرونی فرق کا اصل مطلب کیا ہے اور یہ کس سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔؟ 
1۔ دونوں حکومتوں کی فلسفیانہ بنیادوں میں تصادم کی بدولت، یعنی آزادی بمقابلہ تسلط۔
2۔ شناخت اور اقدار میں تصادم کی بدولت، یعنی خالص اسلام بمقابلہ سیکولر لبرل جمہوریت۔
3۔ تزویراتی مفادات میں تصادم کی وجہ سے، یعنی مزاحمت کا خطہ بمقابلہ بالادستی یا تسلط کا نظام۔
4۔ تاریخی واقعات اور گہری جڑوں والا عدم اعتماد، یعنی امریکہ کے ایران مخالف ماضی کے جرائم۔

ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کسی خاص شخصیت یا ایک مخصوص ریاست سے نہیں ہے بلکہ یہ تصادم عالمی نقطہ نظر، اقدار، اسٹریٹجک مفادات اور عالمی نظام کی شناخت اور جہان بینی میں تصادم کی بدولت ہے۔ جب تک امریکہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے، ایران کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے اصولوں پر مبنی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور جب تک اسلامی جمہوریہ آزادی، مزاحمت اور انصاف کے حصول جیسے اصولوں پر اصرار کرتا رہے گا، یہ اختلاف باقی رہے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کا لب لباب بھی یہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ
  • اسرائیل کے غزہ،لبنان میں تازہ حملے ، 7 شہید, کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے‘ نیتن یاہو
  • چین کو تائیوان پر حملے کی صورت میں نتائج کا اندازہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • یوکرین کو کروز میزائل کی فراہمی سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملے گی، روس