data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک رات مالک بن دینارؒ کے گھر میں چور گھس آیا۔ اس نے وہاں کچھ نہیں پایا، بوسیدہ سی چٹائی اور پرانے سے لوٹے کے سوا وہاں کچھ نہ تھا، وہ نکلنے لگا تو مالکؒ نے آواز دی اور سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیا، مالکؒ نے کہا: تمھیں یہاں دنیا تو ملی نہیں، تو کیا آخرت کا کچھ سامان پسند کروگے، اس کے دل میں بات اتر گئی، اور اس نے کہا: ہاں، انھوں نے کہا، لوٹے میں پانی ہے وضو کرو، دو رکعت نماز پڑھو اور اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرو۔ دو رکعت کے بعد اس نے رات بھر عبادت کرنے کی اجازت مانگی، اور پھر یہ ہوا کہ دونوں نے رات بھر ایک ساتھ تہجد پڑھی۔ صبح مالکؒ مسجد کے لیے نکلے تو وہ بھی ساتھ تھا، ان کے شاگردوں نے پوچھا یہ کون ہے آپ کے ساتھ؟ انھوں نے کہا: یہ ہمیں چرانے آیا تھا ہم نے اسے ہی چرا لیا۔ (یہ قصہ امام ذہبی اور دیگر شخصیت نگاروں نے ذکر کیا ہے)
اصلاح کا مشن پارساؤں کو جمع کرلینے کا کام نہیں، بلکہ گناہ گاروں کو توبہ کے راستے اپنا بنالینے کا کام ہے۔
اگر آپ اپنی اصلاح کے لیے فکر مند ہوگئے ہیں، تو جان لیں کہ سب سے پہلے آپ کو توبہ کے طہارت بخش چشمے میں نہانا ہے، اور پھر آخر دم تک توبہ کی پاکیزہ کیفیت اور حالت کو ساتھ رکھنا ہے۔ توبہ جتنی سچی اور خالص ہوگی اصلاح اتنی ہی گہری اور ہمہ گیر ہوگی۔ اگر آپ دوسروں کی اصلاح کا مشن لے کر اٹھے ہیں تو آپ کو سب سے زیادہ قوت کے ساتھ توبہ کا صحیح تصور اور سچی رغبت پیدا کرنی ہے۔ دنیا کا کوئی اصلاحی مشن توبہ کے صحیح، تسلی بخش اور امید افزا تصور کے بغیر کامیاب ہوہی نہیں سکتا ہے۔
اگر صالحین اور مصلحین کی ایک جماعت تشکیل پاتی ہے تو اس جماعت کا حقیقی اثاثہ وہ تائبین ہوں گے جو غفلت اور کوتاہی کی اپنی پچھلی روش پر توبہ کرکے اس جماعت میں شامل ہوں گے۔ توبہ کے تجربے سے گزرے بغیر اس جماعت میں جو شامل ہوگا، یا جو اس جماعت میں شامل ہونے کے بعد توبہ کے تجربے سے نہیں گزرے گا، وہ اس جماعت کا ایک بے روح پرزہ ہوگا۔ قرآن مجید میں تمام مومنوں کو توبہ کرنے کی تلقین کی گئی: ’’اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔ (النور: 31) معلوم ہوا کہ فرد اور جماعت دونوں کی کامیابی کا راستہ توبہ سے ہوکر گزرتا ہے۔
توبہ کا ایک ناقص طریقہ جزوی توبہ کا طریقہ ہے، یعنی صرف کچھ گناہوں سے توبہ کرنا، یہ طریقہ بہت عام ہے، کسی تذکیر یا تنبیہ کی وجہ سے آدمی کا دھیان اپنے کسی ایک گناہ کی طرف جاتا ہے، اسے اس پر ندامت ہوتی ہے، وہ اس سے توبہ کرتا ہے، اللہ سے معافی مانگتا ہے، اسے دوبارہ نہیں کرنے کا عہد کرتا ہے، اور اس عہد پر قائم بھی رہتا ہے۔ لیکن اپنی توبہ کو وہ صرف اس ایک گناہ یا ایسے کچھ گناہوں تک محدود رکھتا ہے۔ باقی کتنے گناہوں نے اس کی زندگی میں گہرے بِل بنا رکھے ہیں، اور لگا تار انڈے بچے کررہے ہیں، اس کا خیال اسے نہیں ستاتا ہے۔ قرآن مجید پوری اور مکمل توبہ کا طریقہ سکھاتا ہے کہ آدمی ایسی توبہ کرے کہ اپنی زندگی کے ہر گناہ سے تائب ہوجائے، وہ ایک گناہ سے پاک ہونے ہی کا عہد نہیں کرے، بلکہ پوری زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزارنے کا عہد کرے۔ اور اس عہد پر زندگی بھر قائم رہنے کی کوشش کرے۔ اس دوران جب جب کوئی گناہ سرزد ہوجائے اس سے سچی توبہ کرتا رہے۔ غرض توبہ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کسی ایک گناہ کے لیے بھی مسکن نہیں بنے۔ اگر کوئی چھوٹا سا گناہ بھی زندگی میں بل بناکر رہنے لگتا ہے، تو انڈے بچے ضرور کرتا ہے۔ اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ چھوٹے گناہ کے پیٹ سے بڑے سے بڑے گناہ بھی جنم لے لیتے ہیں۔
گناہوں کو قسطوں میں چھوڑنے کا تصور غلط ہے، یہ وہ منصوبہ ہے جو کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتا ہے۔ توبہ یک بارگی منتقلی کا تقاضا کرتی ہے، گناہوں والی زندگی سے توبہ والی زندگی میں منتقل ہوجانا توبہ ہے۔ ایک ہی جست میں گندگی اور غلاظت بھرے کھڈ سے باہر نکل کر اچھی طرح نہا دھو کر پاکیزہ مقام پر چلے جانا ہی پاک ہونا ہوتا ہے۔ ہاں جب کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے گندی سے پوری نجات ممکن ہی نہیں ہو تو جتنا ممکن ہو اس قدر ضرور پاک صاف ہوجائے، اور پورے طور پر نکلنے کی کوشش جاری رکھے۔ لیکن پوری پاکی ممکن ہو مگر پھر بھی آدمی کچھ پاکی پر قناعت کرلے، یہ توبہ کی روح کے خلاف ہے۔
توبہ کے سلسلے میں ایک ناقص تصور یہ ہے کہ توبہ کو محض معافی کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے، معافی کا عام مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے جرم یا مجرمانہ زندگی کو ترک کردے، اور عام انسانوں جیسی زندگی گزارنے لگے۔ لیکن توبہ کا مطلب اس سے بہت اعلٰی ہوتا ہے، توبہ کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی گناہوں والی زندگی ترک کردے، اور پھر اللہ والی زندگی گزارنے لگے۔ توبہ بہت عالی شان لفظ ہے، قرآن مجید میں لفظ توبہ کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا، اللہ کی طرف لوٹ جانا، اور اللہ کا ہوجانا۔
جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے اس وقت اس کی توجہ اللہ کی طرف سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے، وہ اللہ سے اتنا زیادہ غافل ہوجاتا ہے گویا وہ ایمان ہی سے دور ہوگیا ہو۔ حدیث پاک میں اس کی بڑی صاف وضاحت کی گئی ہے:
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: بندہ جب زنا کرتا ہے، اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے، جب چوری کرتا ہے، اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے، جب شراب پیتا ہے اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے۔ ابن عباسؓ سے ان کے شاگرد عکرمہ نے پوچھا: ایمان کیسے اس سے چھین لیا جاتا ہے، انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ڈال کر پھر الگ کرلیا اور کہا اس طرح، پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ڈال لیا اور کہا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس اس طرح لوٹ آتا ہے۔ (صحیح بخاری)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نہیں ہوتا ہے والی زندگی وہ ایمان ایمان کی ایک گناہ نہیں ہو توبہ کا توبہ کر کرتا ہے توبہ کے سے توبہ نے کہا کی طرف
پڑھیں:
چیٹ جی پی ٹی دماغی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے، ایم آئی ٹی کی تحقیق کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کیلیفورنیا: آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) ٹیکنالوجی پر مبنی مقبول چیٹ بوٹ ’چیٹ جی پی ٹی‘ روزانہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد استعمال کرتے ہیں، مگر اب ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کا مسلسل استعمال انسانی دماغی کارکردگی پر اثر ڈال سکتا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق یہ تحقیق معروف امریکی تعلیمی ادارے ماساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے میڈیا لیب میں کی گئی، جس میں 18 سے 39 سال کی عمر کے 54 رضاکار شامل کیے گئے، تحقیقی ٹیم نے ان افراد کو تین گروپوں میں تقسیم کیا تاکہ مختلف طریقۂ کار سے تحریری کام لینے کے اثرات کا موازنہ کیا جا سکے۔
پہلے گروپ کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے مضامین چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے تیار کریں، دوسرے گروپ کو گوگل سرچ انجن کے ذریعے تحقیق کر کے لکھنے کی اجازت دی گئی، جب کہ تیسرے گروپ کو بغیر کسی ڈیجیٹل مدد کے اپنی علمی و ذہنی صلاحیت سے مضامین تحریر کرنے کو کہا گیا۔
تحقیق کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ جدید اے آئی ٹولز دماغی محنت، تخلیقی عمل اور سوچنے کی صلاحیت پر کیا اثر ڈالتے ہیں، ابتدائی نتائج کے مطابق، چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والے افراد نے سب سے کم وقت میں سب سے زیادہ مواد تیار کیا، لیکن ان کے تحریری کام میں تخلیقی گہرائی اور تنقیدی سوچ نسبتاً کم پائی گئی۔
ایم آئی ٹی میڈیا لیب کی ٹیم نے دماغی کارکردگی اور ذہنی توانائی کی سطح کا جائزہ لیتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ اے آئی پر انحصار کرنے سے انسانی دماغ کی اپنی سوچنے اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کمزور پڑنے کا خدشہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر اس کا استعمال مسلسل اور بغیر کسی توازن کے کیا جائے۔
دوسری طرف گوگل استعمال کرنے والے گروپ نے بہتر معیار کی تحریریں لکھیں لیکن ان پر وقت زیادہ لگا جبکہ بغیر کسی ٹیکنالوجی کے کام کرنے والے افراد نے سب سے زیادہ محنت کی لیکن ان کی تحریروں میں انفرادی انداز اور تخلیقیت زیادہ نمایاں رہی۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایلن ٹامس نے کہا کہ “چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز ہمارے ذہنوں کو سہولت تو دیتے ہیں، لیکن ان کے زیادہ استعمال سے ہم ذہنی سست روی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز کو صرف رہنمائی یا ابتدائی خاکہ تیار کرنے تک محدود رکھا جائے، مکمل انحصار ذہنی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔