فیلڈمارشل،ٹرمپ ملاقات کئی ماہ کی کوششوں کانتیجہ،غیرروایتی چینلزمتحرک رہے
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد(ویب ڈیسک)فیلڈمارشل سیدعاصم منیر اورامریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے درمیان روایتی سفارتی ذرائع سے طے نہیں پائی بلکہ کچھ مشیروں، کاروباری شخصیات اور بااثر افراد کی غیرروایتی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ایک قومی انگریزی روزنامے کی ر پورٹ کے مطابق فیلڈمارشل اور امریکی صدرکی ملاقات واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق د ن ایک بجے شروع ہوئی اور دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اس سے چند گھنٹے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دعوے پر ردعمل دیا تھا کہ امریکا نے رواں سال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ماضی میں پاکستان کے فوجی حکمران — جیسے فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف — امریکی صدور سے صرف اس وقت ملے جب وہ ملک کے سربراہ بن چکے تھے، سابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی ایک ملاقات کے دوران مختصر طور پر شرکت کی تھی، تاہم وہ ملاقات بھی باضابطہ نہیں تھی۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران اس ملاقات سے متعلق سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ آج ان (فیلڈ مارشل منیر) سے ملاقات ہوئی۔ ایران اسرائیل تنازع پر گفتگو سے متعلق سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ (پاکستانی) ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، اکثر ممالک سے بہتر، اور وہ کسی بھی معاملے سے خوش نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کے اسرائیل سے تعلقات خراب ہیں۔ وہ دونوں کو جانتے ہیں، مگر ایران کو زیادہ قریب سے۔انہوں نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل منیر مجھ سے متفق تھے۔ ان سے ملاقات کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ میں انہیں اس بات پر شکریہ کہنا چاہتا تھا کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں گئے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان انا کیلی نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایاکہ فیلڈ مارشل منیر نے صدر ٹرمپ کو ایٹمی جنگ روکنے پر نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی اپیل کی تھی، جس کے بعد صدر نے انہیں مدعو کیا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات روایتی سفارتی ذرائع سے طے نہیں پائی بلکہ کچھ مشیروں، کاروباری شخصیات اور بااثر افراد کی غیرروایتی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر کئی مہینے سے خاموشی سے کام ہو رہا تھا، جسے اس وقت تک خفیہ رکھا گیا جب تک وائٹ ہاؤس نے منگل کو صدر ٹرمپ کا شیڈول جاری نہ کیا۔ انسداد دہشت گردی کے شعبے میں گہرا تعاون، کرپٹو سے منسلک اثرورسوخ رکھنے والے نیٹ ورکس سے روابط اور ری پبلکن پارٹی سے منسلک لابنگ فرمز کے ذریعے کی گئی سفارتی کوششوں کی بدولت پاکستان اس ملاقات کو ممکن بنا سکا۔ ورکنگ لنچ میں دونوں طرف سے سینئر مشیروں نے شرکت کی۔ باخبر حلقوں کے مطابق اس ملاقات کو ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے، جو شاید امریکہ-پاکستان تعلقات کے ایک نئے دور کی نوید ہو۔ جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ-منیر ملاقات کو صرف ایران،اسرائیل جنگ کے تناظر میں دیکھنا درست نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا امریکہ اور پاکستان کے درمیان قیمتی معدنیات، کرپٹو اور انسداد دہشت گردی جیسے معاملات پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ ٹرمپ ان تمام شعبوں میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں، اور منیر کو ان سب پر بات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ساتھ ہی کشمیر بھی زیر بحث آیا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل امریکی صدر کے مطابق
پڑھیں:
امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔
کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔
اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔