یوسفی: کون لفظوں کو سکھائے گا تبسم خیزیاں
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
پیدائش جے پور کی تھی، درس گاہ علی گڑھ یونیورسٹی رہی۔ تعلیم فلسفے کی حاصل کی۔ لگے ہاتھوں ایل ایل بی بھی کر لیا۔ پہلی ملازمت ڈپٹی کمشنری ٹھہری، روزگار بینکاری کے شعبے سے پایا، پاکستان کے چار بڑے بینکوں کے صدر رہے اور پھر بینکنگ کونسل کے چیئرمین بھی بنے۔ جثہ دھان پان سا، قد ساڑھے پانچ فٹ سے بھی نکلتا ہوا اور رنگت ایسی کہ کبھی خود پر فخر کی نوبت نہیں آئی۔ فارغ البال تھے لہٰذا منہ دھونے میں بہت وقت اور رقبہ صرف ہوتا تھا۔ آواز ایسی کہ خود کو بھی سرگوشی معلوم پڑتی تھی۔ لہجہ لیکن ایسا تیکھا کہ کاٹ دور تک جاتی تھی۔
یہ ہے حضرت یوسفی کی ذات گرامی کا خلاصہ۔ اس سوانح عمری کو پڑھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص مزاح کا ایسا شہسوار نکلے گا کہ جس پر اردو فکاہیہ ادب پر کیا موقوف سارا اردو ادب ہمیشہ ناز کرے گا۔
یہ بات پرانی ہوگئی کہ ’ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں‘ اب محاورہ کچھ یوں درست بیٹھتا ہے کہ ’اردو ادب یوسفی کے آغوش میں جی رہا تھا‘۔
جس محنت سے یوسفی نے مزاحیہ نثر کی پرداخت کی، اس محنت سے تو آج کل کوئی اولاد کی پرورش نہیں کرتا۔ ایک ایک لفظ موتیوں میں پرویا ہوا، گلابوں میں سمویا ہوا، آب زم زم سے دھویا ہوا۔ یوسفی نے ترکے میں پانچ کتابیں چھوڑی ہیں۔ یہی ترکہ ورثہ ہے اردو کا، یہی پانچ کتابیں آبرو ہیں اس زبان کی۔
یوسفی اپنے فن میں اتنے غرق تھے کہ انہیں اپنے آپ پر فخر کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ جہاں موقع دیکھتے اپنی ہی بھد اڑاتے، خود پر طنز کے تیر چلاتے، جی بھر کر اپنا مذاق اڑاتے۔
یوسفی کی تحریروں میں اصلاحی پیغامات کی شدت سے کمی ہے، ناصح کے بہروپ کی طرف ان کی طبیعت ہی نہیں آتی۔ قوم کو راہِ راست پر لانے کا بیڑا انہوں نے کبھی نہیں اٹھایا، صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کی بھی کوئی روایت نہیں ملتی۔ وہ تو کہتے ہیں کہ ’اگر برا کام بھی میانہ روی سے کرنا ہے تو اس سے بہتر ہے آدمی کوئی نیکی کر لے‘۔
یوسفی کے ترکش میں جو تیر تھے وہ طنز کے زہر میں بجھے ہوئے تھے، شگفتگی کی کمان پر تنے ہوئے تھے، مزاح کی مچان پر ڈٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اصلاح احوال کے روایتی نسخے پیش کرنے سے بہتر اس بات کو جانا کہ ہنسا جائے، خوب ہنسا جائے، اپنے آپ پر ہنسا جائے، اپنے جذبات پر ہنسا جائے، اپنے حالات پر ہنسا جائے۔
لفظ کو برتنے کا جو ہنر یوسفی کو تفویض ہوا تھا اس کے پیچھے محنت شاقہ کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ برکت تو ودیعت ہوتی ہے، اس میں کمال کسب نہیں ہوتا یہ جمال یار کی عطا ہوتی ہے۔
اردو فکاہیہ نثر پر نظر ڈالیں تو کیا، کیا ستارے نظر آتے ہیں، شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، پطرس بخاری اور ابن انشا کی کہکشاں میں یوسفی چاند کی مانند تھے۔ سب ستارے ان کی کشش میں ان کے گرد گردش کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان کے ہاں شفیق الرحمٰن کا بانکپن بھی تھا، کرنل محمد خان کی ذہانت بھی، پطرس کی کاٹ بھی اور ابن انشا کی برجستگی بھی۔ یوسفی سی مکمل تحریر کب کسی اور کا نصیب ہوئی۔
عام زندگی میں یوسفی اپنی تحریر سے مختلف تھے۔ بات بات پر جملہ نہیں کہتے تھے۔ ملاحت سے بات کرتے، حلم سے جواب دیتے، مخاطب کو توجہ دیتے اور انکسار سے ملتے تھے۔ لیکن یہ کیفیت ابتدائی ہوتی تھی۔ ذرا معاملات بے تکلفی کی جانب بڑھے تو اچانک ایک پھلجھڑی سی چلتی اور محفل قہقہوں سے روشن ہو جاتی۔
سنجیدہ بات جلدی سے کرتے اور اس پر غور و فکر کو موقع بھی نہ دیتے۔ بس اس لمحے سے برق رفتاری سے آگے گزر جاتے تھے۔ شاید اس لیے کہ آگے مزاح کے توشہ دان میں کہیں نعمتیں تقسیم کرنے کو دھری ہوتیں۔ وہ کب اپنے مہمانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتے تھے۔
میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہی دنوں ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا اور یوسفی صاحب نے گھر سے نکلنا ترک کر دیا تھا۔ نصف صدی کا ساتھ تھا۔ بات محبت کی تھی۔ احترام لازم تھا۔
کہنے لگے ’جب سے میری اہلیہ کا انتقال ہوا ہے اب میں بستر پر نہیں سوتا، زمین پر لیٹتا ہوں۔ اب زیادہ دوری برداشت نہیں ہوتی‘۔
جملہ ایسا تھا کہ محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔ قہقہے سناٹے میں تبدیل ہوگئے۔ یہ کیفیت یوسفی کو برداشت نہیں تھی۔ غیر متبسم چہرے انہیں گوارا نہیں تھے۔ اسی جملے کی روانی میں کہنے لگے ’اب لوگ کہتے ہیں گھر سے نکلا کریں۔ جو مجھے یہ کہتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہاں جاؤں؟ کوئی پتا بھی بتا دیں اور ہاں، فون نمبر بھی دے دیں تو عنایت ہو گی‘۔ بات پھر قہقہے پر ہی ختم ہوئی۔ یوں لگتا یوسفی اپنے غم کا ’دف‘ بھی اپنے آپ پر کسے جملے ہی سے مارتے تھے۔
اسلام آباد کی ایک تقریب میں یوسفی صاحب مہمان خصوصی تھے۔ مہمان خصوصی کے استقبال کے لیے ایک سابق پولیس آفیسر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ پولیس آفیسر شاید یوسفی کو بہت سینیئر آفیسر سمجھے۔ انہوں تعریف کے ضمن میں تمام حدیں پار کر لیں۔ مبالغہ اور غلو اس قدر عروج پر تھا کہ عشاق یوسفی بھی جھینپ جھینپ ہنسی دباتے رہے۔
اس خطبہ استقبالیہ کے بعد جب یوسفی کو اسٹیج پر دعوت دی گئی تو نہایت انکسار سے گویا ہوئے ’بھیا ہمارے ہاں زندہ افراد کی اتنی تعریف کی روایت نہیں البتہ مجھے آپ کی جلد بازی پر حیرت ضرور ہے‘۔
اپنی بڑائی کے قصے، اپنی عظمت کی کہانیاں، اپنی ذہانت کے ثبوت یوسفی نے نہ کبھی گفتگو میں پیش کیے نہ ان کی تحریر میں کہیں ایسا شائبہ ملتا ہے۔ انکسار ان کی شخصیت کا بنیادی وصف تھا اور یہی کیفیت ان کی تحریر میں بھی نمایاں نظر آتی تھی۔ ان کے کردار بھی سپر مین بننے سے اجتناب کرتے تھے۔ عام سے لوگ تھے، عام سی زندگی گزارتے تھے، مگر یوسفی عام آدمی کی کجیوں، کمیوں، لاپروائیوں اور آوارہ گردیوں سے ایسے ایسے مزاح پارے تراشتے تھے کہ قاری کتاب کے اور صاحب کتاب کےعشق میں مبتلا ہو جاتا تھا۔
اردو سے محبت کرنے والا جو ایک دفعہ عشق یوسفی میں گرفتار ہوا وہ اس کے سحر میں تمام عمر مبتلا رہتا ہے۔ اس کے کرداروں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے مکالموں پر تنہائی میں بھی ہنستا ہے۔ قہقہوں کی دنیا میں حیات کو جاوداں کرتا ہے۔
فنکار کا کمال یہ ہے کہ اپنے فن میں خوب محنت کرے مگر جب وہ فن قاری / ناظر کے سامنے پیش ہو تو اس میں محنت تو نظر آئے مگر یبوست کی کیفیت نہ ملے، مشقت نہ نظرآئے۔ یہی یوسفی کا کمال ہے۔ اپنی تحریر میں جابجا اردو، فارسی، عربی، انگلش اور فرنچ ادب کا تڑکا لگاتے ہوئے بھی ان کی تحریر کی برجستگی قائم رہتی ہے۔ جملہ کاٹ رکھتا ہے۔ مفہوم بھی ادا ہو جاتا ہے اور قہقہہ بھی قضا نہیں ہوتا۔
اب یو سفی نہیں رہے۔ اردو ادب کا ایک باب ختم ہوا۔ افتخار اردو رخصت ہوا۔ فکاہیہ نثر کا دروازہ بند ہوا۔ ان سا لکھنے والا نہ تخت اردو پر پہلے کوئی براجمان ہوا ہے نہ پھر کسی کو یہ سعادت نصیب ہو گی۔
اب سمجھ نہیں آتی کہ ان کے انتقال پر ہنسا جائے کہ رویا جائے۔ ہنسا اس لیے نہیں جا سکتا کہ اب اردو میں ایسا مزاح نگار کوئی اور نہ ہوگا۔ فکاہیہ ادب کا ایک قرینہ دفن ہوا۔ ایسے حال پر کیسے کوئی ہنس سکتا ہے اور مرگِ یوسفی پہ رویا اس لیے نہیں جا سکتا کہ چشمِ نم کی یوسفی کے ہاں ممانعت ہے۔ آنسوؤں کو قہقہوں میں بدلنے کی ہمیشہ تلقین کی ہے۔ ماتم کی کیفیت سے انکار ہے۔ الم کے اظہار کی مناہی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں عشق یوسفی میں مبتلا لوگ اس مرحلے میں کہاں جائیں۔ روئیں یا پھر قہقہے لگاتے، لگاتے مر جائیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
جے پور علیگڑھ یونیورسٹی مشتاق احمد یوسفی یوسفی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جے پور مشتاق احمد یوسفی یوسفی مشتاق احمد یوسفی یوسفی کو کی تحریر اس لیے تی تھی نہیں ا
پڑھیں:
’’ہر بات کا مقصد تنقید نہیں ہوتا‘‘؛ عتیقہ اوڈھو اپنے متنازع بیانات کے دفاع میں بول اٹھیں
پاکستان ٹی وی اور فلم انڈسٹری کی سینئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں اپنے کچھ متنازع بیانات کا کھل کر دفاع کیا ہے۔
حال ہی میں ایک یوٹیوب چینل پر عتیقہ اوڈھو نے اپنے شو ’’کیا ڈرامہ ہے‘‘ کے دوران وائرل ہونے والے متنازع بیانات پر بات کی جس میں ارینج میرج اور اداکار علی رضا کے سینے کے بالوں سے متعلق بیانات شامل تھے۔
عتیقہ اوڈھو نے وضاحت کی کہ ’’یہ بات میں نے شو ’کیا ڈرامہ ہے‘ میں کہی تھی، جہاں میں نے سوال اٹھایا تھا کہ دو اجنبی لوگ جب شادی کرتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟ اس پر مجھے انسٹاگرام پر بہت سے لوگوں نے پیغامات بھیجے اور اپنی مشکلات شیئر کیں۔ میں نے یہ بات کسی منفی تناظر میں نہیں کہی، بلکہ صرف ایک انسانی تجسس کے تحت کی تھی کہ ایک رات قبل جو ایک دوسرے کےلیے اجنبی تھے، اگلے دن میاں بیوی کیسے بن جاتے ہیں؟‘‘
علی رضا کے سینے کے بالوں پر تبصرے کی وضاحت کرتے ہوئے عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ ’’ہم اپنے شو میں تکنیکی اور فنّی باتیں کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات کچھ اور چیزیں وائرل ہوجاتی ہیں۔ جیسے میرا علی رضا کے سینے کے بالوں پر بیان ٹرینڈ کر رہا ہے، جس میں، میں نے کہا تھا کہ ٹی وی پر مردوں کے بال دار سینے کو دکھانا مناسب نہیں لگتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نئے اداکاروں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’ہم سینئرز ان نوجوان فنکاروں کےلیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ علی رضا اور دیگر نئے اداکار ہمارے لیے بچوں جیسے ہیں، اگر ہم کچھ کہتے ہیں تو وہ اصلاح کی نیت سے ہوتا ہے۔ افسوس کہ سوشل میڈیا ہر بات کو تماشا بنا دیتا ہے۔‘‘
عتیقہ اوڈھو کا اندازِ گفتگو صاف، براہِ راست اور نکھرا ہوا رہا، جس میں انہوں نے اپنے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے میڈیا پر غیر ضروری ردعمل پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔