آیت اللہ خامنہ ای کو دھمکی دینا ناقابل قبول ہے: ایرانی سفیر رضا امیری مقدم
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایرانی سفیر رضا امیری مقام نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کو دھمکی دینا ناقابل قبول ہے۔
ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نےنجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا، اسرائیل سنجیدہ بات چیت چاہتے ہیں تو پہلے جنگ ختم کریں، ایران نے کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے۔
رضا امیری مقدم نے کہا کہ اسرائیل کمزور اور بے بس ہو چکا ہے، اسرائیل جنگ میں امریکا کو گھسیٹنا چاہتا ہے، اگر کوئی ملک اس جنگ میں شامل ہوا تو ایران جواب دے گا، امریکا دانشمندی سے کام لے اور نیتن یاہو کے ہاتھوں میں نہ کھیلے۔
ایرانی سفیرکا مزید کہنا تھا کہ ایٹمی تنصیبات پر حملہ عالمی ماحول اور خطے کیلئے شدید خطرناک ہوگا، ایٹمی ایجنسی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہوگا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
حزب اللہ کی سعودی عرب کو تمام اختلافات بھلا کر نئے باب کے آغاز کی دعوت
آج اپنے ایک ٹی وی خطاب میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ خطے کی طاقتوں کو حزب اللہ کو نہیں بلکہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا چاہیئے، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ حزب اللہ کے ہتھیار صرف اسرائیل کی طرف ہیں، نہ کہ لبنان، سعودی عرب یا دنیا کے کسی اور ملک یا ادارے کی طرف۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ شیخ نعیم قاسم نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ ایک نئے باب کا آغاز کرے اور پرانے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دے۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے 2016ء میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، حالیہ مہینوں میں سعودی عرب نے واشنگٹن اور لبنان میں حزب اللہ مخالف گروپوں کے ساتھ مل کر لبنانی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرے۔ شیخ نعیم قاسم نے آج ایک ٹی وی خطاب میں کہا کہ خطے کی طاقتوں کو حزب اللہ کو نہیں بلکہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا چاہیئے، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ حزب اللہ کے ہتھیار صرف اسرائیل کی طرف ہیں، نہ کہ لبنان، سعودی عرب یا دنیا کے کسی اور ملک یا ادارے کی طرف۔
انہوں نے کہا کہ بات چیت کے ذریعے ماضی کے اختلافات کو کم از کم اس غیر معمولی مرحلے میں منجمد کیا جا سکتا ہے، تاکہ اسرائیل کا سامنا کیا جاسکے اور اس کے عزائم کو روکا جاسکے۔ ان کے مطابق حزب اللہ پر دباؤ ڈالنا براہِ راست اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہے۔ خیال رہے کہ سعودی عرب ماضی میں لبنان کو امداد دے چکا ہے اور 2006ء کی حزب اللہ اور اسرائیل جنگ کے بعد جنوبی لبنان کی تعمیر نو میں مدد دی تھی۔ تاہم سعودی عرب اور لبنان کے تعلقات 2021ء میں اس وقت بگڑ گئے، جب سعودی عرب نے لبنانی سفیر کو ملک بدر کر دیا، اپنا سفیر واپس بلا لیا اور لبنانی مصنوعات پر پابندی لگا دی۔ اس وقت سعودی سرکاری میڈیا کی جانب سے کہا گیا کہ حزب اللہ لبنان کی ریاستی پالیسیوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ حزب اللہ کے اُس وقت کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو "دہشت گرد" قرار دیا تھا اور یمن میں سعودی کردار کو بارہا تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔