تاریخ کا سب سے بڑا ڈیٹا لیک، 16 ارب سے زائد پاس ورڈز افشا، اب کیا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
سائبر سیکیورٹی کی دنیا میں ایک سنگین خطرہ سامنے آ گیا ہے، جہاں حالیہ رپورٹ کے مطابق تقریباً 16 ارب آن لائن اکاؤنٹس کے پاس ورڈز اور یوزر نیم انٹرنیٹ پر لیک ہو چکے ہیں۔
یہ انکشاف سائبر سیکیورٹی کمپنی ’ Cybernews ‘ کی جانب سے سامنے آیا، جس نے بتایا کہ لیک ہونے والا ڈیٹا صرف پرانا نہیں بلکہ تازہ، مؤثر اور ہیکنگ کے لیے کارآمد ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایسے 10 پاسورڈز جو آسانی سے ہیک ہوسکتے ہیں
ماہرین کے مطابق، یہ ڈیٹا مختلف ’ Infostealer ‘ نامی مالویئرز کے ذریعے اکٹھا کیا گیا ہے، جو متاثرہ کمپیوٹرز اور موبائل ڈیوائسز سے صارفین کے پاس ورڈز، ای میلز اور لاگ ان تفصیلات چوری کرتے ہیں۔
یہ مالویئر نہ صرف ویب براؤزرز بلکہ مختلف ایپس اور سسٹمز سے بھی ڈیٹا چرا لیتے ہیں۔
لیک ہونے والے ڈیٹا میں دنیا کی بڑی آن لائن سروسز جیسے Apple، Google، Facebook، GitHub، Telegram اور یہاں تک کہ سرکاری اداروں کے لاگ انز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، یہ صرف ایک عام ڈیٹا لیک نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بند طریقے سے اکٹھا کیا گیا ایسا ڈیٹا ہے جسے کسی بھی وقت بڑے سائبر حملوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:18 کروڑ سے زیادہ صارفین کے پاسورڈ اور حساس معلومات چوری، فوری کیا اقدامات کرنے چاہییں؟
سائبر ماہرین نے صارفین کو خبردار کیا ہے کہ یہ ڈیٹا ہیکرز کے لیے ایک ’روڈ میپ‘ کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی مدد سے وہ فشنگ حملے، شناخت کی چوری، اور اکاؤنٹ ہائی جیکنگ جیسے سنگین جرائم انجام دے سکتے ہیں۔
ماہرین کی جانب سے عام صارفین کو درج ذیل حفاظتی اقدامات کی فوری ہدایت دی گئی ہے:
۔ اپنے تمام اہم آن لائن اکاؤنٹس کے پاس ورڈز فوری تبدیل کریں۔
۔ ہر سروس کے لیے علیحدہ اور مضبوط پاس ورڈ استعمال کریں، ترجیحاً پاس ورڈ مینیجر کے ذریعے۔
۔ ملٹی فیکٹر آتھنٹیکیشن یا پاس کیز جیسے جدید حفاظتی طریقے استعمال کریں۔
۔ اپنے کمپیوٹر یا موبائل کو اینٹی وائرس سے اسکین کریں تاکہ ممکنہ مالویئر کا پتا چلایا جا سکے۔
۔ مشکوک ای میلز، SMS یا لنکس سے اجتناب کریں، کیونکہ فشنگ حملوں کا خطرہ شدید ہو چکا ہے۔
یہ لیک دنیا کے سب سے بڑے اور سنگین سائبر سیکیورٹی خطرات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے، جس نے دنیا بھر کے آن لائن صارفین کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری احتیاطی تدابیر اپنانا ہی اس خطرے سے بچاؤ کا واحد راستہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آن لائن اکاؤنٹس پاسورڈ ڈیٹا لیک سائبر سیکیورٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آن لائن اکاؤنٹس پاسورڈ ڈیٹا لیک سائبر سیکیورٹی سائبر سیکیورٹی پاس ورڈز آن لائن کے پاس کے لیے
پڑھیں:
نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہر سال مختلف کمپنیوں کی جانب سے درجنوں نئے اینڈرائیڈ فونز متعارف کرائے جاتے ہیں جن میں قیمت اور خصوصیات کی بنیاد پر نمایاں فرق موجود ہوتا ہے، تاہم ایک عام صارف جب نیا فون خریدنے جاتا ہے تو اکثر چند بنیادی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جو آگے چل کر پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق صارفین کی بڑی تعداد اپنے فون کی اسٹوریج کی ضرورت کا درست اندازہ نہیں لگاتی۔ آج کل ایپس، تصاویر اور ویڈیوز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث زیادہ اسٹوریج کی اہمیت واضح ہے۔ بہت سے افراد کم اسٹوریج والے فون خرید لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد بار بار ڈیٹا اور ایپس کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح صارفین سافٹ ویئر سپورٹ کے معاملے کو بھی عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں۔ متعدد اینڈرائیڈ فونز ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپریٹنگ سسٹم کے نئے ورژنز بہت محدود عرصے تک یا پھر بالکل نہیں ملتے۔ اس وجہ سے نہ صرف سیکیورٹی خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ جدید ایپس کے اہم فیچرز بھی استعمال کرنے میں رکاوٹ آتی ہے۔ مارکیٹ میں موجود چند معروف برانڈز 4 سے 7 سال تک اپ ڈیٹس فراہم کرتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں صرف ایک سے دو سال تک اپ ڈیٹ دیتی ہیں، اس لیے ماہرین کے مطابق نئے فون کا انتخاب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کمپنی کی اپ ڈیٹ پالیسی کتنی مضبوط ہے۔
دوسری جانب بہت سے صارفین فون کی خصوصیات کے نمبرز کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور کمپنی کے بتائے گئے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 108 میگا پکسل کیمرا ضروری نہیں کہ 48 میگا پکسل یا 12 میگا پکسل سے بہتر ہو، اسی طرح زیادہ mAh والی بیٹری لازمی نہیں کہ زیادہ دیر تک ہی چلے۔ اصل فرق سافٹ ویئر آپٹمائزیشن اور برانڈ کی انجینئرنگ میں ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ فون خریدنے سے پہلے ریویوز کو دیکھا جائے اور ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کی رائے ضرور لی جائے جو وہ فون پہلے سے استعمال کر رہا ہو۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صارفین اکثر اپنی حقیقی ضرورت اور بجٹ کے بجائے مارکیٹ میں مقبولیت کی بنیاد پر فون منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کام درمیانی قیمت والے فون بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں، اس لیے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ فون کا بنیادی استعمال کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بہت سے افراد جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور فون کے لانچ ہوتے ہی فوراً خریداری کر لیتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر اینڈرائیڈ فونز چند ہفتوں بعد ہی رعایتی قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خریدار کچھ وقت انتظار کرے تاکہ بہتر قیمت میں بہتر فون حاصل کر سکے۔