ٹرمپ دو ہفتوں میں ایران کے خلاف امریکی کارروائی سے متعلق فیصلہ کریں گے، وائٹ ہاؤس
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
WASINGTON:
وائٹ ہاؤس نے بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو ہفتوں میں فیصلہ کریں گے کہ امریکا کی اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازع میں براہ راست کارروائی کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے پریس بریفنگ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مستقبل قریب میں ایران سے مذاکرات کے امکانات کے حقائق کی بنیاد پر کارروائی کے حوالے سے دو ہفتوں کے اندر میں اپنا فیصلہ کروں گا۔
ترجمان نے بتایا کہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ سفارتی حل نکالا جائے لیکن ان کی اولین ترجیح یقینی بنانا ہے کہ ایرانی جوہری ہتھیار نہ بنائے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدہ تہران کو یورینیم افزودگی سے روکنے اور ایران کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت کو روکنے کے لیے ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ ہمیشہ سفارتی حل پر دلچسپی رکھتے ہیں، وہ پیس میکر ہیں، وہ امن کے ذریعے مضبوط صدر ہیں، اگر سفارت کاری کے لیے کوئی موقع ہے تو پھر صدر اس کو موقعے کو حاصل کریں گے لیکن وہ طاقت کے استعمال سے بھی کبھی خوف زدہ نہیں ہوں گے۔
ایران پر حملے کے لیے کانگریس اجازت سے متعلق سوال پر لیویٹ نے کہا کہ واشنگٹن نے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب نہیں رہا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ ٹرمپ کو اسرائیل کے حملوں کے بارے میں بریفنگ کیا جاتا ہے اور ایران کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اگر وہ جوہری ہتھیاروں پر جاری اپنا کام نہیں روکتے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سلامتی کونسل: کیا ایران پر آج دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران کے جوہری پروگرام پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی طرف ایک اور قدم اٹھا سکتی ہے۔ اس حوالے سے جمعہ کے روز نیویارک میں ووٹنگ شیڈول ہے۔ کونسل میں یہ ووٹنگ مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے ہو گی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسودہ قرارداد کو موجودہ صورتِ حال برقرار رکھنے کے لیے درکار نو ووٹ نہیں ملیں گے، جس کے تحت پابندیاں معطل رہتیں، اور اس طرح ایران پر دوبارہ سزائیں (پابندیاں) عائد کر دی جائیں گی۔
روس اور چین، جو پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی مخالفت کرتے ہیں، کو 15 رکنی کونسل میں نو ووٹ درکار ہوں گے، جو سفارتی ذرائع کے مطابق تقریباً ناممکن ہے۔
(جاری ہے)
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے جمعرات کو ایک اسرائیلی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ انہیں توقع ہے کہ رواں ماہ کے آخر تک ایران پر بین الاقوامی پابندیاں بحال ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا، ’’ایران کی طرف سے ملنے والی تازہ ترین معلومات سنجیدہ نہیں ہیں۔‘‘ پابندیاں کیوں بحال کی جارہی ہیں؟برطانیہ، فرانس اور جرمنی، جو جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن کے فریق ہیں جس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا تھا، کا الزام ہے کہ ایران نے 2015 کے اس معاہدے کے تحت کیے گئے وعدے توڑ دیے ہیں۔
’یورپی تین‘ یا ’ای تھری‘ کے نام سے معروف برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اگست کے وسط میں اقوام متحدہ کو ارسال کردہ ایک خط میں الزام لگایا کہ ایران نے جوہری معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں یورینیم کا ذخیرہ مقررہ سطح سے 40 گنا زیادہ بڑھانا بھی شامل ہے۔
اس معاملے پر یورپی طاقتوں اور ایران کے درمیان سفارتی بات چیت کے باوجود مغربی اتحاد کا اصرار ہے کہ کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار رچرڈ گوان کے مطابق، ’’الجزائر اور پاکستان ممکنہ طور پر روس اور چین کی حمایت کریں گے، لیکن میرا خیال ہے کہ دیگر اراکین مخالفت یا غیر حاضری اختیار کریں گے، لہٰذا یورپی ممالک اور امریکہ کو ویٹو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اگر ایران اور یورپی ممالک آخری وقت پر کوئی سمجھوتہ کر لیں تو کونسل کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ایک اور قرارداد منظور کرے جس کے ذریعے پابندیوں کی معطلی میں توسیع ہو سکتی ہے۔
‘‘دریں اثنا ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعرات کو کہا کہ انہوں نے ’’ایک معقول اور عملی منصوبہ‘‘ یورپی تین اور یورپی یونین کے ہم منصبوں کے سامنے رکھا ہے تاکہ ’’آنے والے دنوں میں غیر ضروری اور قابلِ اجتناب بحران‘‘ سے بچا جا سکے۔
عراقچی نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ یہ تجویز ’’حقیقی خدشات کو دور کرتی ہے‘‘ اور اسے باہمی طور پر فائدہ مند قرار دیا، تاہم اس کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
آخری لمحے کی کوشش؟سن دو ہزار پندرہ کا مشکل سے طے پایا جوہری معاہدہ اس وقت سے غیر مؤثر ہو چکا ہے جب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اسے یک طرفہ طور پر خیرباد کہہ کر ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔
مغربی طاقتیں اور اسرائیل طویل عرصے سے ایران پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ایران اس کی تردید کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایران نے بتدریج اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کیا اور جوہری سرگرمیاں تیز کر دیں، جبکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جون میں 12 روزہ لڑائی کے بعد کشیدگی مزید بڑھ گئی۔
اس لڑائی نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کو بھی پٹڑی سے اتار دیا اور ایران نے عالمی جوہری ادارے، آئی اے ای اے، کے ساتھ تعاون معطل کر دیا۔ ویانا میں قائم اقوام متحدہ کے اس ادارے کے معائنہ کار جنگ کے بعد ایران سے واپس لوٹ آئے۔
اس دورن ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر پابندیوں کا خودکار نظام (اسنیپ بیک) فعال ہوا تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا۔
ادارت: صلاح الدین زین