وفاقی حکومت کے تعلیمی اخراجات تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت پاکستان کی جانب سے تعلیم کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے بچوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سیو دی چلڈرن تنظیم نے بچوں کی تعلیم سے متعلق تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس میں بتایا گیا ہےکہ وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ برس تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے باوجود تقریبا 2 کروڑ 60 لاکھ بچے یا پھر ہر 3 میں سے ایک بچہ اسکول سے باہر ہے۔
پاکستانی بچوں کا اتنی بڑی تعداد میں اسکولوں سے باہر ہونا دنیا میں سب سے متاثرہ ممالک میں سے ایک کی نشاندہی کرتا ہے۔
حالیہ قومی اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی 2024 سے مارچ 2025 کے دوران تعلیم پر اخراجات میں 29 فیصد تک کمی رپورٹ ہوئی ہے، سال 2018 کے بعد سے تعلیم کے لیے مختص بجٹ جی ڈی پی میں مسلسل کمی کا شکار ہے جو کہ 2 فیصد سے کم ہوتا ہوا اب 0.
اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انچیون ڈیکلیریشن نے حکومتوں کو جی ڈی پی کا 4 سے 6 فیصد تک تعلیم کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔
بین الاقوامی غیرمنافع بخش تنظم ’سیو دی چلڈرن‘ نے مزید بتایا کہ حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر 2 کروڑ 60 لاکھ بچوں کو اسکولز میں لانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
وفاقی حکومت نے 2024 میں سال 2029 تک تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لے جانے کا ہدف ظاہر کیا تھا، حکومت پاکستان بچوں کے ساتھ کیے گئے اس وعدے کو توڑ نہیں سکتی۔
تنظیم کے مطابق پاکستان کے غربت کا شکار علاقوں میں رہائش پذیر بچے اس کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، ان بچوں کو پہلے ہی اپنی تعلیم کو جاری رکھنے میں بے پناہ مشکلات کاسامنا ہے، ایسے میں حکومت کی جانب سے بجٹ میں کٹوتیوں یا پھر رقم مختص ہونے کے باوجود خرچ نہ کرنے سے ان بچوں کو تعلیم کے حصول میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ اسکول سے باہر ان بچوں کو مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ ان بچوں کے لیے کمیونٹیز کو اس طرح سے بنا سکیں جو کہ مستقبل میں ممکنہ موسمیاتی تبدیلوں کا شکار ہو سکتی ہیں۔ تنظیم نے تعلیم کے شعبے اور خاص طور پر پسماندہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ بچوں کے لیے اسٹیک ہولڈرز، حکومت، ڈونرز، اور سول سوسائٹی سے فنڈ کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
سیو دی چلڈرن تنظیم کے مطابق پاکستان میں تعلیم مفت اور 5 سے 16 سال کے بچوں کے لیے لازم قرار دی گئی ہے لیکن 38 فیصد بچے اسکولوں سے اب بھی باہر ہیں، جس میں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے، بلوچستان میں 75 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ برس مئی میں ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نفاذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد اسکولوں میں بچوں کی حاضری کو بڑھانا تھا تاہم ملک میں صرف 60 فیصد لوگ پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسکول کی تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کے کم عمری میں مشقت کرنے اور شادی کے خطرے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
حکومت کے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں 10 سے 14 سال کی عمر کے تقریباً ہر 10 میں سے ایک بچہ کام کر رہا ہے، اور اندازاً 1.9 کروڑ لڑکیاں اپنی اٹھارہویں سالگرہ سے پہلے شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں جو دنیا بھر میں کم عمری کی شادیوں کی چھٹی سب سے بڑی تعداد ہے۔
پاکستان میں اسکول مسلسل بند رہنے سے بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی رہی ہے، بیشتر مواقع پر موسیماتی تبدیلیوں کے باعث اسکولز کو بند کرنا پڑا جس میں 2024 کی ہیٹ اسٹروک سرفہر ست ہے جس کی وجہ سے اسکولز کو بند رکھا گیا، سال 2022 کے بدترین سیلاب کے باعث بھی تقریب 29 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔
سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر خرم گوندل نے کہا کہ ’جب حکومت جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کرے گی تو یہ صرف فنڈز میں کٹوتی نہیں ہے بلکہ یہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بھی برخلاف ہے جو انہوں نے گزشتہ برس ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’تعلیم نسل در نسل غربت کو ختم کرنے کا سب سے موثر طریقہ کار ہے، بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا پاکستان کے مستقبل پر خرچ کرنے کے مترادف ہے‘۔
مزیدپڑھیں:وفاق نے صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگائی تو اسمبلی توڑ دیں گے، علی امین گنڈاپور
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بچوں کی تعلیم تعلیم کے کے مطابق جی ڈی پی فیصد تک کے لیے
پڑھیں:
اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-5
غلام حسین سوہو
یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔
“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔
یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔
’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔
کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔
(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)