ماہرین کا چیٹ جی پی ٹی اور دیگر سے متعلق ہوشربا انکشاف!
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس سے منطقی اور معقول سوال پوچھنا دیگر اقسام کے سوالات کے مقابلے میں زیادہ کاربن اخراج کا سبب بنتا ہے۔
جرمنی کی ہوکشولا میونخ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کے محققین نے بتایا کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے لارج لینگوئج ماڈل میں لکھے گئے ہر سوال کے جواب کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے جس سے نتیجتاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے۔ اخراج کی مقدار چیٹ بوٹ، صارف اور مدعے پر منحصر ہوتی ہے۔
جرنل فرنٹیئر میں شائع ہونے والی تحقیق میں 14 اے آئی ماڈلز کا موازنہ کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ جن سوالات کے جوابات میں پیچیدہ عقلیات کی ضرورت ہوتی ہے وہ سادہ جوابات کے مقابلے میں زیادہ کاربن اخراج کا سبب بنتے ہیں۔
وہ سوالات جس میں جدید الجبرا یا فلسفے جیسے تفصیلی جوابات پوچھے جاتے ہیں وہ سادہ عنوان کے مقابلے میں چھ گُنا زیادہ اخراج کا سبب بنتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایران کے جوہری سائنس دان خفیہ مقامات پر منتقل، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار
تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران اور اسرائیل کے درمیان جون میں ہونے والی بارہ روزہ خونریز جھڑپوں کے بعد ایک نیا اور سنسنی خیز مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ عرب میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں درجنوں ایرانی جوہری ماہرین کی ہلاکت کے بعد تہران نے اپنے باقی ماندہ سائنس دانوں کو فوراً منظر عام سے غائب کر کے انتہائی محفوظ اور خفیہ مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ مقامات یا تو تہران کے سخت سکیورٹی والے علاقے ہیں یا پھر شمالی ایران کے ساحلی شہروں میں ایسے محفوظ ٹھکانے جہاں عام لوگوں کا داخلہ ممکن نہیں۔ متعدد سائنس دان اچانک اپنے گھروں اور یونیورسٹیوں سے غائب ہو گئے ہیں، اور ان کی جگہ ایسے افراد تعینات کیے گئے ہیں جن کا جوہری پروگرام سے کوئی تعلق نہیں، تاکہ ممکنہ دشمن کو کوئی سراغ نہ مل سکے۔
برطانوی اخبار کے مطابق، اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران نے نئی نسل کے جوہری سائنس دان تیار کر لیے ہیں جو مارے جانے والے ماہرین کا کام سنبھال سکتے ہیں۔ ان افراد کو 24 گھنٹے سکیورٹی، بکتر بند گاڑیاں اور خفیہ رہائش فراہم کی جا رہی ہے، مگر اس کے باوجود وہ اسرائیلی نشانے سے محفوظ نہیں سمجھے جا رہے۔
ایرانی حکمتِ عملی کے تحت، ہر اہم سائنس دان کے ساتھ کم از کم ایک نائب موجود ہے، اور ماہرین دو یا تین کے گروپ میں کام کرتے ہیں تاکہ کسی ایک کے ہدف بننے کی صورت میں دوسرا فوراً اس کی جگہ لے سکے۔
اسرائیلی دفاعی انٹیلی جنس کے سابق عہدیدار دانی سیترینووچ کے مطابق، یہ ماہرین اب دو ہی راستوں پر ہیں: یا تو ایران کو جوہری ہتھیار کے قریب لے جائیں گے، یا پھر اسرائیل کے اگلے نشانے پر ہوں گے۔ ان کے بقول، جو کوئی بھی اس منصوبے کا حصہ بنے گا، اس کے سامنے موت یا موت کی دھمکی کے سوا کوئی اور انجام نہیں۔
یاد رہے کہ جون میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران اسرائیل نے ایرانی فوجی اور جوہری مراکز پر بڑے حملے کیے تھے، جن میں درجنوں سائنس دان اور اعلیٰ فوجی افسر مارے گئے تھے۔ امریکا نے بھی بعض تنصیبات پر تباہ کن کارروائیاں کیں، اور اب ایران اپنے باقی ماندہ جوہری دماغوں کو محفوظ رکھنے کی دوڑ میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ سے بچ پائیں گے؟
Post Views: 6