عمر ایوب و دیگر کا پنشن پر ٹیکس لگانے پر تحفظات کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب سمیت بعض ارکان نے پنشن پر ٹیکس لگانے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کمیٹی نے سالانہ 1 کروڑ سے زائد پنشن لینے والوں پر ٹیکس لگانے کی منظوری دے دی۔
دوران اجلاس چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا کہ ایک کروڑ سے زیادہ آمدن پر 5 فیصد انکم ٹیکس لیا جائے گا۔
انہوں نےمزید کہا کہ سالانہ ایک کروڑ روپے پنشن پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بھی پنشن پر ٹیکس عائد ہے۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد لنگڑیال نے کہا ہے کہ بینکوں کی آمدن پر 53 فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے۔
کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ ساڑھے 8 لاکھ ماہانہ پنشن لینے والوں کو ٹیکس میں حصہ ڈالنا چاہیے۔
دوران اجلاس عمر ایوب سمیت بعض کمیٹی ممبران نے پنشن پر ٹیکس لگانے پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پھر ایف بی آر کو بھی دنیا کے اصولوں پر چلائیں۔
کمیٹی رکن محمد جاوید نے کہا کہ کل کو 1 لاکھ روپے پنشن پر بھی ٹیکس لگ جائے گا، ججز کے سوا کسی کی پنشن 1 کروڑ روپے سے زیادہ نہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پر ٹیکس لگانے پنشن پر ٹیکس ایف بی ا
پڑھیں:
ہم معصوم لوگ ہیں کاشتکاروں پر ٹیکس تو صوبوں نے لگایا ہے، چیئرمین ایف بی آر
اسلام آباد:فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے واضح کیا ہے کہ کاشت کاروں پر ٹیکس ایف بی آر نے نہیں بلکہ صوبوں نے لگایا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی شریک ہوئے۔
چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے چیئرمین ایف بی آر سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر طرف سے کاشتکاروں کو ماررہے ہیں۔ اس پر چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے جواب دیا کہ کاشتکاروں کو ہم نے نہیں مارا بلکہ ہم تو معصوم لوگ ہیں، یہ ٹیکس صوبے لگا رہے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کے شرکا کو بریفنگ میں بتایا کہ ٹیچرز کا ری بیٹ بحال رکھنے کیلئے آئی ایم ایف کو دوبارہ خط لکھ دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پٹرول،ڈیزل اور فرنس آئل پر پہلے سال اڑھائی روپے جبکہ دوسرے سال پانچ روپے فی لیٹرکاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے، لیوی سے اربوں روپے کا فائدہ وفاق کو ہوگا تاہم اگر یہ ٹیکس ہوتا تو صوبوں کو بھی اس کا حصہ ملتا۔
نوید قمر نے کہا کہ آپ فرنس آئل کی مارکیٹ ختم کرتے جارہے ہیں اور اس کو مہنگا کررہے ہیں، پہلے ہی فرنس آئل پر بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے، اگر اس کو ختم کردیا تو ماسوائے ایک دو کے باقی ساری ریفائنریز بند ہوجائیں گی۔
وزارت توانائی کے حکام نے چیئرمین کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری پاورپلانٹس میں فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار بند کردی ہے، کچھ آئی پی پیز فرنس آئل سے بجلی پیدا کررہی ہیں۔
پاور ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ کاربن لیوی سے حاصل ہونیوالے ریونیو سے الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کیلئے وزارت صنعت و پیداوار کیلئے دس ارب روپے مختص کر دیئے گئے ہیں۔
وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ الیکٹرک گاڑیوں پر سبسڈیز،چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کو فروغ دینے سمیت گرین اور کلین انرجی کے حوالے سے یہ فنڈز خرچ ہونگے۔
کمیٹی نے پٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز مشروط طور پرمنظور کرلی، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی بجائے ٹیکس کی صورت ہونا چاہیے تاکہ حاصل کردہ ریونیو قابل تقسیم محاصل پول میں جائے۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی بجائے ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے۔ لہذا پٹرولیم مصنوعات پر لیوی لگانا ہے یا ٹیکس اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کررہے اس پر بات کریں گے۔
وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ کاربن لیوی سے 45 ارب روپے کی آمدن ہوگی، جس پر چیئرمین کمیٹی نے دریافت کیا کہ اگر یہ کاربن ٹیکس بن جائے تو مرکز کو کتنا ٹیکس ملے گا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ نے بتایا کہ اگر لیوی کو ٹیکس میں تبدیل کردیا جائے تو سالانہ 18 ارب روپے مرکز کو ملیں گے۔
نان فائلرز
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے نان فائلرز کے تعین سے متعلق سوال کیا تو چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ کچھ لوگ انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں مگر سیلز ٹیکس میں رجسٹر نہیں ہوتے، ایسے لوگوں کے نام پر انڈسٹریل میٹر نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نان فائلر کے بینک اکاؤنٹ فوری طور پر بلاک نہیں کریں گے بلکہ اُسے پہلے نوٹس بھیجا جائے گا۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے وہ لوگ ہیں کاروبار کر رہے ہیں مگر دستاویزات میں نظر نہیں آتے، ایسے لوگ جب رجسٹریشن کروا لیں گے تو انکے اکاؤنٹس کو بحال کر دیا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ بڑے تاجروں یا اہم کمرشل جگہوں پر کام کرنے والے تاجروں کیلئے استعمال ہو گا۔
رکن کمیٹی جاوید حنیف نے کہا کہ بنیادی اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو آدمی غیر قانونی کام کررہا اس کو رجسٹر کیا جائے جبکہ مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ ہمیں ٹیکس نیٹ میں وسعت پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر جو اختیارات مانگے جا رہے ہیں وہ کافی سخت ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ جو اختیارات مانگے جارہے ہیں اُن کا اطلاق چھوٹے تاجروں پر نہیں ہوگا،ہماری حد 80 لاکھ روپے کے ٹرن اوور والے تاجر سے شروع ہوتی ہے، سب سے اہم مسئلہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ریٹ زیادہ ہے اور لوگ رجسٹر نہیں ہوتے جبکہ جو رجسٹر ہیں وہ ٹیکس کم دیتے ہیں۔ رکن کمیٹی شرمیلا فاروقی نے تجویز دی کہ فنانس بل میں سخت اقدامات کیے کئے گئے ہیں لوگوں کو رعایت دے کر رجسٹرڈ کریں۔