data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) امت مسلمہ کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ ایران پر اسرائیلی حملوں میں برادر مسلم ملک کا عملی ساتھ دے۔ اگر ٹرمپ پاکستان سے فوجی اڈے مانگتا ہے تو اس کو واشگاف الفاظ میں ایبسولیوٹلی ناٹ کہا جائے۔اِن خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں قیامت ڈھانے کے بعد اب اسرائیل کی نظر بد مشرق وسطیٰ اور خلیجِ فارس کے دیگر مسلم ممالک پر ہے۔ لبنان اور شام میں تباہی مچانے کے بعد اب ناجائز صہیونی ریاست امریکا کی مکمل معاونت کے ساتھ ایران پر حملے کر رہی ہے جس میں ایران کا بے پناہ نقصان ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جوابی حملوں میں ایران نے بھی اسرائیل کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ ایران نے ماضی میں بہت غلطیاں کیں اور ایسے اقدامات بھی اٹھائے جن سے دیگر مسلم ممالک کو نقصان پہنچا جس کی مذمت کرنا بنتا ہے لیکن اس کے باوجود اس نازک موقع پر تمام مسلم ممالک کو ایران کا عملی طور پرساتھ دینا ہوگا۔ اگر مسلم ممالک ایران کا ساتھ نہیں دیتے تو گویا وہ یہود اور ان کی ناجائز صہیونی ریاست جو فلسطین پر قبضہ کر کے قائم کی گئی ہے کا ساتھ دے رہے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک جلد از جلد او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کریں جس میں ایران پر حملہ کو تمام مسلم ممالک پر حملہ قرار دیا جائے اور اسرائیل کے خلاف ایک فوجی اتحاد قائم کیا جائے جو صہیونیوں اور ان کے پشت پناہوں اور معاونین کو کسی مزید کاروائی کی صورت میں دندان شکن جواب دیں۔ اسرائیل اپنے توسیعی منصوبے یعنی گریٹر اسرائیل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اگر خدانخواستہ ایران کو بھی زیر کر لیا گیا تو اسرائیل کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا۔ جس کا تذکرہ 1967ءمیں اسرائیل کا پہلا وزیراعظم بن گوریان بھی کر چکا ہے اور چند برس قبل موجودہ وزیراعظم نتن یاہو بھی ایک انٹرویو میں پاکستان کے ایٹمی دانت نکالنے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران فیلڈ مارشل عاصم منیر سے تقاضا کیا گیا ہے کہ پاکستان امریکا کو فوجی اڈے فراہم کرے جس کے بدلے میں اسے لڑاکا طیاروں، دیگر فوجی سازو سامان اور معاشی امداد دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا سچ ہے تو پاکستان کو فوری طور پر امریکی صدر کو واشگاف الفاظ میں ایبسولیوٹلی ناٹ کہا جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ناجائز صہیونی ریاست دیگر مسلم ممالک تمام مسلم ممالک انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک پر مسلم ممالک کو تنظیم اسلامی جس میں ایران اسرائیل کا اسرائیل کی حملوں میں کر چکا ہے کے بعد اب ایران نے کو نقصان ایران کا فوجی اڈے کا اظہار ایران پر کا ساتھ کا عملی ساتھ دے پر حملہ قائم کی ہے اور اور ان

پڑھیں:

ٹرمپ کا تمام مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے پر زور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر جون میں امریکی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے جمعرات کو مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کریں۔

ٹرمپ نے کہا، ’’اب جبکہ ایران کا تیار کردہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، میرے لیے یہ بہت اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوں۔

‘‘

انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مزید لکھا،’’یہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کو یقینی بنائے گا۔ اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ!‘‘

ابراہیمی معاہدے، جو ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں طے پائے تھے، کے تحت چار مسلم اکثریتی ممالک نے امریکی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

(جاری ہے)

ان معاہدوں کو وسعت دینے کی کوششیں غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے پیچیدہ ہو گئی ہیں۔

ٹرمپ نے 2020 میں اسرائیل اور عرب ریاستوں، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش، کے درمیان باضابطہ تعلقات کے متعدد معاہدے طے کرائے تھے، جنہیں ابراہیمی معاہدہ کہا جاتا ہے۔

ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کی راہ میں رکاوٹیں

گزشتہ برسوں میں ابراہیمی معاہدے کو، خاص طور پر سعودی عرب پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے، وسعت دینے کی امریکی کوششیں ناکام رہی ہیں۔

سعودی عرب کے اعلیٰ حکام بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ ریاض 2002 کی عرب امن منصوبے کے موقف پر کاربند ہے، جو فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط رکھتی ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

تاہم اب ٹرمپ نے عرب-اسرائیل تعلقات کو ایران کے جوہری پروگرام اور ایران و اسرائیل کے درمیان بارہ روزہ لڑائی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

اس لڑائی کے دوران امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔

جون میں اسرائیل کے ایران پر حملوں، جن میں ایرانی اعلیٰ فوجی حکام، جوہری سائنسدانوں اور سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت ہوئی، کی عرب ممالک نے شدید مذمت کی تھی۔

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبات میں شدت

یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کی بحالی کی نئی اپیل کیوں کی، لیکن ان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عرب ممالک کی حمایت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی سطح پر نئی مہم شروع ہو چکی ہے، جسے واشنگٹن مسترد کر رہا ہے۔

کینیڈا، فرانس اور برطانیہ نے حالیہ دنوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق، ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان اور کچھ وسطی ایشیائی اتحادیوں کو ابراہیم معاہدوں میں شامل کرنے پر بھی بات چیت کر رہی ہے، تاکہ اسرائیل کے ساتھ ان کے موجودہ تعلقات کو مزید گہرا کیا جا سکے۔

مئی میں خلیجی ممالک کے دورے کے دوران ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کو نسبتاً کم اہمیت دی تھی، اور کہا تھا کہ میرا خواب ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے باضابطہ تعلقات قائم کرے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ فیصلہ وہ اپنے وقت پر کرے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ابراہیمی معاہدے نے اس میں شامل ممالک کے درمیان تجارت اور سکیورٹی کے تعلقات کو فروغ دیا، لیکن یہ اسرائیل-فلسطین تنازعے کو ختم کرنے یا اس میں نرمی لانے میں ناکام رہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • عرب اسلامی وزارتی اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر قبضے کے اعلان کی شدید مذمت
  • اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے بیس مبینہ جاسوس گرفتار، ایران کا سخت انتباہ
  • کئی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے کی مذمت
  • نیتن یاہو کا غزہ پر مکمل فوجی قبضے کا منصوبہ، اسرائیلی آرمی چیف اور اپوزیشن لیڈر نے مخالفت کردی
  • اسرائیلی کابینہ میں غزہ پٹی پر مکمل قبضے کا منصوبہ منظور
  • ٹرمپ کا تمام مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے پر زور
  • ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنیکا مطالبہ
  • میجر طفیل محمد شہید کا 67واں یوم شہادت، پاک فوج کا بھرپور خراج عقیدت
  • ایران کی جوہری صلاحیت ختم کردی، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں؛ ٹرمپ
  • ایران کیجانب سے اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس کے انعقاد کا مطالبہ