کرپشن کیس میں گرفتار ملزم کو رہا کرنے کا الزام، نیب میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ طلب
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
---فائل فوٹو
قومی احتساب بیورو (نیب) نے سندھ کے اعلیٰ منصب پر فائز ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اقبال میمن کے خلاف تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے 24 جون کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔
نیب کے حکام کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اقبال میمن نے مبینہ طور رشوت کے عوض کرپشن کے کیس میں گرفتار محکمۂ آبپاشی کے انجینئر عمران شیخ کو وزیرِاعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کی اجازت کے بغیر پیرول پر رہا کیا تھا۔
نیب کے حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار انجینئر عمران شیخ انڈر ٹرائل قیدی تھا تاہم اس معاملے پر ڈی جی نیب نے انکوائری کمیٹی بنائی ہے جو ایک ماہ کے اندر معاملے کی انکوائری کر کے رپورٹ مرتب کرے گی۔
نیب حکام کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اقبال میمن کو نیب نے ریکارڈ سمیت کراچی دفتر میں تحقیقات کے لیے طلب کیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
سندھ بجٹ میں صحت، تعلیم کرپشن کی نذر، کراچی کو کچھ نہیں ملا: رکن اسمبلی فاروق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے صوبائی بجٹ 2025-26 پر اپنی تقریر میں بجٹ کو “عوام دشمن اور کراچی دشمن” قرار دیتے ہوئے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی نے بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے ایک بار پھر کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کو نظرانداز کیا، جو سالانہ 3 ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس دیتے ہیں مگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
محمد فاروق نے کہا کہ K-IV منصوبہ جو کراچی کی پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، اسے وفاق کی جانب سے صرف 3.2 ارب روپے دیے گئے جبکہ صوبائی حکومت نے اس منصوبے کے لیے کچھ بھی مختص نہیں کیا۔ ان کے مطابق، واٹر بورڈ کے ناکارہ نظام اور واٹر مافیا کی سرپرستی نے شہریوں کو نلکے کے پانی سے محروم کر دیا ہے، جب کہ ٹینکر مافیا مہنگے داموں پانی فروخت کر رہی ہے۔
انہوں نے بجٹ میں صحت کے شعبے میں اربوں روپے کی این جی اوز کو منتقلی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقم سرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کی بجائے بیوروکریسی کی جیبوں میں جاتی ہے۔
جناح اسپتال اور عباسی شہید اسپتال کی حالت زار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادویات کی شدید قلت اور ایک ہی سرنج سے بچوں کو انجکشن دینے جیسے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔
انہوں نے تعلیم کے شعبے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 613 ارب روپے میں سے 524 ارب صرف تنخواہوں میں چلے جاتے ہیں، جب کہ 80 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور ان کے لیے کوئی عملی منصوبہ موجود نہیں۔
محمد فاروق کا کہنا تھا کہ لوکل گورنمنٹ کے لیے مختص 327 ارب میں سے صرف 123 ارب ترقیاتی کاموں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 140-A پر عمل درآمد نہ ہونے پر بھی انہوں نے سخت اعتراض اٹھایا اور کہا کہ تمام اختیارات سندھ حکومت اور میئر کے پاس مرتکز ہیں، ٹاؤن اور یوسیز کو کچھ نہیں دیا جا رہا۔
ٹرانسپورٹ کے بجٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے جماعت اسلامی رکن سندھ اسمبلی نے کہا کہ کے سی آر جیسے بڑے منصوبے کے لیے پچھلے سال صرف ساڑھے چار لاکھ روپے رکھے گئے تھے، سندھ حکومت کی 18 سالہ کارکردگی میں صرف 300 بسیں شامل کی گئیں جبکہ نعمت اللہ خان نے صرف چار سال میں 375 بسیں چلائیں۔
آئی ٹی بجٹ کے حوالے سے کہا کہ سندھ حکومت نے صرف 1.33 ارب روپے مختص کیے، جب کہ یہ واضح نہیں کہ سندھ آئی ٹی کمپنی کون چلا رہا ہے اور یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے۔
انہوں نے کے الیکٹرک کے خلاف بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت یا تو اسے کنٹرول نہیں کر سکتی یا نہیں کرنا چاہتی۔ سیف سٹی منصوبہ ابھی تک نامکمل ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مختص 224 ارب روپے کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں۔
سب سے زیادہ طنزیہ انداز میں سی ایم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے اخراجات پر بات کرتے ہوئے محمد فاروق نے کہا کہ سی ایم ہاؤس میں چائے بسکٹ کے لیے 1.34 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ گورنر ہاؤس کے لیے بھی 1.18 ارب روپے رکھے گئے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی کو اس کا جائز حق دیا جائے، ترقیاتی فنڈز نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں، اور سندھ کے بجٹ کو کراچی، حیدرآباد اور شہری سندھ کے ساتھ انصاف کے اصولوں پر از سر نو مرتب کیا جائے۔