برطانیہ میں زہریلی ہوا خاموش قاتل بن گئی، 30 ہزار جانیں خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن:برطانیہ کے ماہرین صحت نے ایک خطرناک انتباہ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 2025 میں فضائی آلودگی ملک میں تقریباً 30 ہزار اموات کا باعث بن سکتی ہے، جن میں سے 99 فیصد اموات کی بنیادی وجہ زہریلی ہوا میں سانس لینا ہوگی۔
رائل کالج آف فزیشنز کی جانب سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی اب صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے، جس کے مضر اثرات جسم کے تقریباً ہر عضو تک پہنچتے ہیں۔
رپورٹ میں اس تلخ حقیقت کو اجاگر کیا گیا کہ اگرچہ ماضی کی دہائیوں میں کاربن کے اخراج میں کمی لائی گئی ہے، تاہم ماحولیاتی زہریلے ذرات کی معمولی مقدار بھی انسانی جسم میں گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی نہ صرف ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ دل کے امراض، فالج، ذہنی بیماریوں اور حتیٰ کہ ڈیمینشیا جیسی پیچیدہ حالتوں کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ برطانوی صحت نظام پر اس ماحولیاتی بحران کا مالی بوجھ بھی بہت بھاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف فضائی آلودگی کے باعث نیشنل ہیلتھ سروس پر سالانہ 27 ارب پاؤنڈز کا خرچ آتا ہے۔ اگر اس میں ڈیمینشیا سے متعلق اخراجات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ لاگت 50 ارب پاؤنڈز تک جا پہنچتی ہے۔
یہ رپورٹ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی آلودگی کے مقابلے میں برطانیہ کی صورتحال خاصی سنگین ہوتی جا رہی ہے، جہاں شہری آبادی کو اکثر و بیشتر خاموشی سے زہریلی فضا نگل رہی ہے، جس کا شعور عوامی سطح پر تاحال مطلوبہ حد تک نہیں۔
ماہرین صحت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فضائی آلودگی کے خلاف ٹھوس اور فوری اقدامات کیے جائیں، کیونکہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو زہریلی ہوا صرف سانسیں ہی نہیں چھینے گی، بلکہ پورے نظامِ صحت کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فضائی آلودگی
پڑھیں:
ناسا نے بڑا سائنسی اعلان کردیا: 6000 سے زائد نئے سیاروں کی تصدیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن : ناسا نے ایک اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ہمارے شمسی نظام سے باہر موجود سیاروں، جنہیں ایکسپوپلینٹس کہا جاتا ہے، کی تصدیق شدہ تعداد 6000 سے تجاوز کر گئی ہے۔
یہ اعلان رواں ماہ کیا گیاہے، جس کے مطابق دنیا بھر کے سائنس دانوں نے مختلف سائنسی طریقوں سے ان دریافتوں کی باضابطہ توثیق کی ہے۔ اس کے علاوہ مزید ہزاروں ایسے ممکنہ سیارے موجود ہیں جن کی تصدیق ابھی باقی ہے۔
ناسا کے مطابق یہ صرف حالیہ دریافت کا نتیجہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر اب تک ہونے والی تصدیق شدہ دریافتوں کا مجموعہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مشاہدات اور تحقیق کے ذریعے سامنے آیا۔
ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ کائنات میں ستاروں کے گرد سیاروں کا نظام عام ہے اور ہماری زمین جیسی دنیا کہیں اور بھی موجود ہو سکتی ہے۔
سائنس دانوں نے ان سیاروں کی دریافت کے لیے کئی طریقے استعمال کیے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ کارآمد ٹرانزٹ میتھڈ ہے، جس میں کسی سیارے کے اپنے ستارے کے سامنے سے گزرنے کے دوران روشنی میں کمی نوٹ کی جاتی ہے۔
دوسرا طریقہ ریڈیل ویلاسٹی ہے، جس میں ستارے کی روشنی میں آنے والی معمولی تبدیلیوں کو پرکھا جاتا ہے جو سیاروں کی حرکات کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر جدید سائنسی طریقے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں جو اس تصدیق کو مزید قابلِ اعتماد بناتے ہیں۔
یہ پیش رفت صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں بلکہ اس نے سائنسی برادری کو ایک نئے جوش و ولولے سے بھر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافتیں اس بات کی عملی دلیل ہیں کہ کائنات میں ہماری زمین جیسی دنیاوں کے ہونے کے امکانات نہ صرف زیادہ ہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں دور زندگی کی کسی شکل کا وجود ہو۔
اس سنگِ میل کے ساتھ انسان کا کائنات کو سمجھنے کا سفر ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ مستقبل میں ناسا اور دیگر تحقیقی ادارے مزید مشاہدات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان میں سے کتنے سیارے زندگی کے لیے موزوں حالات رکھتے ہیں۔