جے کے سی اوکے زیراہتمام مرزا محمد شفیق جرال کے اعزازمیں عشائیہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جدہ (سید مسرت خلیل) جموں کشمیر کمیونٹی اوورسیز (جے کے سی او)کے زیر اہتمام سابق صدر مسلم کانفرنس مرزا محمد شفیق جرال کے اعزاز میں مقامی ہوٹل میں ایک پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام سردارمحمداشفاق خان سابق چیئرمین و صدرمسلم کانفرنس سعودی عرب کی جانب سے کیا گیا۔ جس میں نمایاں طور پرعبدالطیف عباسی ، چوہدری اظہر وڑائچ ۔ راجہ شریف زمان ۔ جان گلزار ۔ سردار اقبال یوسف۔ شجاع اعوان ۔ راجہ محمد ریاض۔ مرزا عمران جرال۔ حبیب یمنی اور زاہد مرزا کے علاوہ صحافی، کشمیر کمیونٹی اور پاکستان کمیونٹی کے بےشمار لوگوں نے شرکت کی ۔تقریب کی صدارت جموں کشمیر کمیونٹی اوورسیز (جے کے سی او) انجنیئر محمدعارف مغل نے کی۔ قاری محد آصف کی تلاوت قران پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ چوہدری خورشید احمد متیال نے اپنے خطاب میں جے کے سی او کے قیام اوراغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ یہ فورم 2005 کے زلزلے کےبعد قائم ہوا۔ کشمیر کاز کے لئے ہم سب متحد ہیں۔ دیارغیرمیں رہتے ہوئے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ اس فورم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے کشمیرکےتمام اکابرین کے میزبانی کے فرائض ادا کئے۔ ہم پاک آرمی کو سلا م پیش کرتے ہیں اور کشمیری عوام کو بھی سلام پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔حالیہ جنگ کی وجہ سے مسئلہ اجاگرہوا ہے۔ انھوں نےکہا یہاں پر آزاد کشمیر کی جتنی اکائیاں ہیں آج ایک گلدستہ کی طرح ہیں۔ انھوں ائرفورس کے جوانوں کو خاص طور خراج تحسین جس طرح انھوں نے اس جنگ مین بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ سردار وقاص عنایت، سابق چیئرمین جموں کشمیر کمیونٹی اوورسیز نے کہا کہ آج کی تقریب میں پاکستانی کمیونٹی کے لوگ بھی یہاں موجود ہیں۔ آج کی تقریب کا مقصد بھی یہ ہے ایک دوسرے کے حالات پرتبادلہ خیال کرنا۔ انھوں نے کہا کہ خوشی ہے حالیہ جنگ ایک جذبہ تھا اور وہ جذبہ تھاشہادت کا۔اور اسی جذبہ کے تحت انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ چوہدری محمد اکرم گجر، چیئرمین مسلم لیگ ن سعودیہ نے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے کشمیر کی قیادت کے ساتھ مل کرکشمیر کی ازادی کی جدوجہد میں شامل رہا۔ مہمان خصوصی مرزا شفیق جلال خطاب میں کہا کہ میں اپنے زمانہ طالب علمی سے سیاست شروع کی۔ وکالت کی، مسلم کانفرنس کاصدر بنا۔ انھوں نے کہا مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آپ سفیر ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں مل کر اتفاق سے کام کرین۔انھون نے کہا اگر رائے شماری کرائی جائے تو سب پاکستان کے ساتھ ہونگے۔مسلح افواج ہماری حاظت کے لئے جو کردار ادا کررہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہماری دعا ہے کہ پورا کشمیر آزاد ہو تاکہ پاکستان مکمل ہو۔عارف مغل چیئرمین جموں کشمیر کمیونٹی اوورسیز نے اپمنے صدارتی خطاب میں مہمان خصوصی کی سیاسی، سماجی اور خدمت خلق کے جذبہ کے تحت خدمات پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کاز کے لئے اور عوامی کام کرنے کی وجہ سے وہ بہے قابل احترام ہیں۔ آخر میں میزبان سردار اشفاق نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ خاص طور سے مہمان خصوصی کو عمرہ و حج کی مبارک باد دی۔ تقریب کی نظامت راجہ شمروزکی۔ محسن غوری نے دُعا کی۔.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جموں کشمیر کمیونٹی اوورسیز انھوں نے کہا نے کہا کہ جے کے سی کے لئے
پڑھیں:
بزنس کمیونٹی اور حکومت
پاکستان میں کئی دہائیوں سے بزنس کمیونٹی اور حکومت کے درمیان مختلف کاروباری معاملات، فیصلوں اور پالیسیوں پر بداعتمادی کا ماحول غالب نظر آتا ہے۔اگرچہ تمام حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف معیشت کی بحالی کے لیے سرگرم ہیں بلکہ ایسی پالیسیاں لانا چاہتے یا لارہے ہیں جو ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرنے میں بھی معاون ثابت ہو۔
اسی طرح حکمران طبقہ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اپنی پالیسیوں ،قانون سازی یا اس کے عملدرآمد کے نظام میں کاروباری طبقات کی قیادت سے مشاورت اور ان کے اعتماد سمیت اتفاق رائے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی کئی کاروباری شخصیات کا بیانیہ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات سے مختلف ہے اور ان کے بقول نہ تو حکمران طبقہ کی مجموعی پالیسیاں کاروبار کے پھیلاؤ کے مفاد میں ہیں اور نہ ان پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت ترقی کررہی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت اور کاروباری کمیونٹی میں بداعتمادی کا ماحول ہے ۔
کاروباری شخصیات کاروبار اور ملکی معیشت سے جڑے مسائل پر اپنے تحفظات ظاہر کرتی رہتی ہیں۔ کاروباری تنظیموں کی قیادت کی ہر دور میں اعلیٰ سطح کی حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کرتے ہیں اور اپنی سفارشات اور تحفظات بیان کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ تحفظات مسلسل چل رہے ہیں، کبھی کوئی مسلہ اور کبھی کوئی مسلہ ۔ کاروباری تنظمیں اور ان کی قیادت موجودہ حکومت کے بارے میں بھی یہی کہہ رہی ہے کہ وہ ان کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ہی تیار نہیں ہے اور ان مشاورت کے بغیر سرکاری ایجنڈا مسلط کیا جاتا ہے۔ جب کاروباری افراد یا تنظیمیں اپنے تحفظات پیش کررہے ہوں تو یہ ملکی معیشت سمیت کاروبارکے مسائل کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ کاروباری طبقہ متبادل پالیسی چاہتا ہے ۔
کاروباری تنظیمیں اسی قسم کے تحفظات سابقہ حکومتوں پر بھی اٹھاتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ کاروباری افراد اور تنظیموں کو حکومت کے وزیر اعظم ، وزیر خزانہ،وزیر تجارت یا وزیر سرمایہ کاری اور ایف بی آر سے مل کر اپنے مسائل حل کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ بار بار یقین دہانیوں کے باوجود کاروباری مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہیں ۔بنیادی بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ معیشت کی بدحالی یا ناکامی کا ملبہ کاروباری طبقے پر ڈالتا ہے جب کہ کاروباری طبقہ اس ناکامی کی وجہ حکومتی طرزعمل سمیت ان کی معاشی پالیسیوں کو سمجھتا ہے۔
کاروباری افراد کا یہ مقدمہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ان کے بقول حکومتی اور معاشی خود مختاری نہ ہونے کی وجہ سے حکمران طبقہ ہم سے مشاورت کیے بغیر آئی ایم ایف کی پالیسیاں لاگو کرکے جہاں معیشت کو خراب کرتا ہے وہیں کاروباری طبقہ کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔اصولی طور پر تو حکومت کی معاشی پالیسیاں اور جو بھی نظام ہے اس میں کاروباری طبقات کی قیادت کو اعتماد میں لے کر معاشی فیصلوں کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔لیکن کیونکہ ہمارا حکومتی نظام جہاں کمزور ہے وہیں گورننس سے جڑے اہم مسائل کی وجہ سے بھی کاروباری طبقے کو مختلف نوعیت کے معاشی یا کاروباری مسائل کا سامنا ہے۔
ان معاملات کے حل میں حکومت اور حکومتی اداروں ہی کی طرف دیکھنا ہوتا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ ٹیکس قوانین میں کی گئی متنازعہ ترامیم پر معاملات افہام و تفہیم سے حل ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے ۔ کاروباری طبقہ کی جانب سے ملک گیر احتجاج کو بھی روک دیا گیا ہے ۔بنیادی طور پر کاروباری طبقہ کوٹیکس قوانین میں کی گئی تبدیلیوں پر اعتراض ہے ،ان میں ایف بی آر کو گرفتاریوں کے اختیارات دینے کے علاوہ کسی فرد کی گرفتاری کی صورت میں اپنائے جانے والے طریقہ کار پر بھی اعتراضات ہیں ۔اسی طرح ٹیکس قوانین کے متنازع سیکشن 37اے اور 37بی کے ساتھ فنانس ایکٹ 2025 میں شامل دیگر کاروباری مخالف اقدامات بھی شامل ہیں۔مختلف کاروباری طبقات تواتر کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کرتا چلا آرہا ہے ، ٹیکس وصولی کا نظام بھی پوری طرح شفاف نہیں ہے ۔
آج کی حکومت ہو یا ماضی کی جو حکومتیں رہی ہیں، اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور بنیادی نوعیت کے ڈھانچوں میں تبدیلیاں اور سخت گیر یا شفاف طرز کی اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہیں اور ان اداروں کی کرپشن کی کہانیاں بھی موجود ہیں جو ان اداروں کی شفافیت کا بھی پول کھولتی ہیں۔ماضی میں اور حال میں بھی کاروبار کے فروغ اور اس نظام کی شفافیت کو پیدا کرنے اور معیشت کی درست بحالی پر حکومت کی سطح پر مختلف نوعیت کی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں یا بنائی گئی ہیں اور ان کمیٹیوں کی سربراہی وزیروں کے ہاتھوں میں رہی ہے ۔لیکن ان کمیٹیوں کی سفارشات پر نہ تو کبھی عمل ہوسکا اور نہ نظام میں شفافیت کی بنیاد پر اصلاحات کا عمل آگے بڑھ سکا۔کیونکہ اصل مسئلہ حکومتی ترجیحات اور مختلف اسٹیک ہولڈر کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا ہے۔
جب حکومتی نظام کمزور بنیادوں پر کھڑا ہوگا تو پھر کسی بھی صورت میں حالات کی بہتری ممکن نہیں۔ حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ معاملات اس حد تک کیوں گئے ہیں کہ کاروباری طبقہ اپنے تحفظات ظاہر کررہا ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مسائل کا حل بھی ان کے پاس نہیں بلکہ اداروں کی شفافیت پر مبنی کارکردگی، اسٹرکچرل ریفارمز اور مختلف اسٹیک ہولڈرز میں باہمی مشاورت سے جڑا ہوا ہے۔اس لیے جب تک اس ملک کے ادارہ جاتی نظام میں سخت گیر اور شفاف اصلاحات نہیں ہوںگی کاروباری طبقہ کا اعتماد یا معیشت کی بحالی کا خواب بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔
اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک نے بہتر اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی اور کامیابی حاصل کی ان تجربات سے سیکھنے کے لیے ہماری حکومت کیونکر تیار نہیں یا بہتر اور شفاف اصلاحات کیونکر حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکی ہیں ۔کاروبارطبقہ معیشت کی ترقی میں کنجی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کو نظر انداز کرنے یا ان کو ڈرانا دھمکانا مسائل کا حل نہیں ہے ۔