گورنر سندھ کے دفتر کو تالا لگانے کیخلاف دائر درخواست نمٹا دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
—فائل فوٹو
سندھ ہائی کورٹ نے گورنر سندھ کے دفتر کو تالا لگانے کے خلاف دائر درخواست نمٹا دی۔
گورنر سندھ کے دفتر کو تالا لگانے کے خلاف دائر درخواست پر پرنسپل سیکریٹری گورنر ہاؤس نے عمل درآمد رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
رپورٹ کے مطابق عدالتی حکم پر اویس قادر شاہ کو گورنر ہاؤس میں تمام سہولتوں کے ساتھ رسائی دے دی ہے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ گورنر ہاؤس ہمیشہ عوام کے لیے کھلا ہے، اویس قادر شاہ بطور اسپیکر اور ذاتی حیثیت میں قابلِ احترام ہیں۔
عدالت نےدرخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو گیا ہے؟
وکیل نے بتایا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو گیا ہے، قائم مقام گورنر کو گورنر ہاؤس میں رسائی دے دی گئی۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی جانب سے وکیل عابد زبیری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل نے کہا کہ میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی جانب سے پیش ہوا ہوں، قائم مقام گورنر کو گورنر ہاؤس کا مکمل اختیار نہیں، پھر بھی قائم مقام گورنر کو اجازت دے دی گئی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا، اب درخواست غیر مؤثر ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کامران ٹیسوری گورنر سندھ گورنر ہاؤس
پڑھیں:
جی ایچ کیو حملہ کیس: عمران خان کی درخواست مسترد، ویڈیو لنک پر کارروائی کا بائیکاٹ
راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پارٹی کے بانی عمران خان کو جی ایچ کیو حملہ کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست خارج کردی، عمران خان اور ان کے وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔عمران خان کی گرفتاری 9 مئی 2023 کو ہوئی تھی. جس کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج شروع ہوگئے تھے، جن میں سرکاری عمارتوں اور فوجی تنصیبات، بشمول جی ایچ کیو، کو نذرِ آتش اور نقصان پہنچایا گیا تھا۔جمعہ کو سماعت میں عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی متوقع تھی، تاہم ان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ اقدام ناقابل قبول ہے۔ دوسری جانب پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے مؤقف اپنایا کہ مقدمے کی کارروائی اڈیالہ جیل سے پنجاب حکومت کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اے ٹی سی منتقل کی گئی ہے، جس کا جائزہ لینے کا اختیار صرف آئینی عدالت کو حاصل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ضابطہ فوجداری میں 2016 کی ترمیم کے بعد ملزمان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعات 15 اور 21 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت کو مقدمے کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے اور حکومت کارروائی کو منتقل کرنے کی وجوہات دینے کی پابند نہیں۔پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے خلاف درخواست دائر کرنا دراصل کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے اور وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، ان کے بقول دفاع کے وکیل اعلیٰ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں. لیکن ٹرائل کو نہیں روکا جا سکتا۔عمران خان کے وکیل فیصل ملک نے کہا کہ وہ منصفانہ ٹرائل چاہتے ہیں، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملزم عدالت میں ذاتی طور پر موجود ہو، انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت کے نوٹی فکیشن کی کاپی انہیں ایک روز قبل ملی ہے اور وہ اس کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجوع کریں گے۔عدالت نے عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی سے متعلق درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب حکومت کے نوٹی فکیشن کے مطابق عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔
بعد ازاں جیل حکام نے عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا۔ عمران خان کے وکیل نے بات کرنے کی استدعا کی. جس پر عدالت نے وکیل فیصل ملک کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں بات کرنے کی اجازت دے دی. تاہم سیاسی گفتگو کرنے پر عدالت نے منع کیا۔
بعد ازاں وکیل فیصل ملک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران خان کا حکم ہے ہم اس کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے، جبکہ عمران خان نے بھی عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور وکلا کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔
بعدازاں عدالت نے استغاثہ کے 2 گواہان سب انسپکٹر سلیم قریشی اور سب انسپکٹر منظور شہزاد کے بیانات قلمبند کیے، انہوں نے عدالت کو 13 یو ایس بی فراہم کیں جن میں 9 مئی سے متعلقہ عمران خان کی 40 ویڈیوز، دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی ویڈیو کلپس اور اخباری تراشے شامل تھے۔گواہان نے کہا کہ ڈیجیٹل شواہد بینظیر بھٹو روڈ، مال روڈ، لیاقت باغ اور ملحقہ علاقوں میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل کیے گئے۔عدالت نے 23 ستمبر کو اگلی سماعت پر مزید 10 گواہان کو طلب کر لیا جن میں پیمرا، ایف آئی اے، پی ٹی آئی، پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ، انٹرنل سیکیورٹی اور وزارت داخلہ کے نمائندے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ عمران خان پر اس کیس میں 5 دسمبر 2023 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی، وہ اگست 2023 سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور رواں برس جنوری میں انہیں 9 مئی کے احتجاجی کیس میں راولپنڈی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔