بینظیر خیرات فنڈ 715 ارب روپے مختص
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پیپلز پارٹی کے وارث چیئرمین بلاول زرداری فرماتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک انقلابی پروگرام ہے اور دنیا اس کو مانتی ہے ہمیں دنیا کا تو علم نہیں لیکن اپنے برادر اسلامی ملک بنگلا دیش کا حال بتاتے ہیں کہ بنگلا دیش کے پارلیمنٹیرین نے ایسی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے ملک کی خواتین کو بھکاری نہیں بنا سکتے انہیں ہم باعزت روزگار فراہم کریں گے اور آج یہ عالم ہے کہ بنگلا دیش میں 35 لاکھ خواتین گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کر کے باعزت روزی روٹی کما رہی ہے اور ہمارے ملک پاکستان میں تقریباً 60 لاکھ خواتین ہر ماہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی خیرات لینے کے لیے بینکوں کے باہر لائن لگا کر بلکہ تھال مار کر بیٹھی ہوئی ہوتی ہے بلاول زرداری فرماتے ہیں کہ ہم اس پروگرام کو آگے تک لے جانا چاہتے ہیں اور یہ غربت مٹاؤ پروگرام بہت آگے جائے گا۔ ہم بلاول زرداری سے پوچھتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جولائی 2008 میں شروع ہوا تھا اس وقت سے اب تک پورا ملک تو چھوڑیں صرف سندھ سے کتنی غربت مٹائی؟ غربت تو دور کی بات خیرات فنڈ کی رقم اور خیرات لینے والوں کی تعداد میں ہی اضافہ ہوا ہے۔ 2023؍24 میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 450 ارب روپے مختص کی گئی تھی اور آج 2025؍26 کے بجٹ میں یہ رقم بڑھ کر 715 ارب رکھی گئی ہے اگر اس خیراتی رقم میں اضافے کی یہی تیز رفتاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب ارب کراس کر کے کھرب میں تبدیل ہو جائے۔
ہماری ناقص رائے میں تو اس پروگرام کو 2019 میں ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ 08 لاکھ 20 ہزار غیر مستحق افراد اس پروگرام سے مستفیض ہو رہے ہیں ان 08 لاکھ 20 ہزار غیر مستحق افراد میں سے ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین تھے مزید اس میں گریڈ 17 سے گریڑ 21 تک کے 2543 افسران بھی اس بہتی گنگا سے اشنان کر رہے تھے اور اس 2543 افراد میں سے بے نظیر کے دیس سندھ کے 1122 افراد بھی شامل تھے یعنی 45 فی صد سندھ اور بقیہ 55 فی صد تین صوبے کے افراد تھے یہی نہیں بلکہ ان میں ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی نے بھی جگہ بنا رکھی تھی اور ایک خبر یہ بھی آئی تھی کے یہ وظیفہ لینے والوں میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی صاحبزادی جو اس وقت سندھ کی وزیر اطلاعات تھیں مستفیض ہو رہی تھی اس کی ایک اور نظیر یہ بھی ہے کہ 2019 میں ہی قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی تخفیف غربت و سماجی ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 19 ارب روپے غیر مستحق افراد میں تقسیم کیے گئے اتنی کرپشن اور اتنی لوٹ مار جس میں زیادہ تر جیالے ہی شامل تھے کو جواز بنا کر یہ سلسلہ یہیں ختم کیا جا سکتا تھا مگر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے حواریوں نے یہ بہتر جانا کہ ہم بھی اپنے کھلاڑیوں کو یہ موقع فراہم کریں چنانچہ احساس پروگرام جاری کر دیا گیا اور یوں کھلاڑی بھی جیالوں کی طرح کھل کر کھیلنے لگے اب کسی میں ہمت نہیں کہ اس سلسلے کو ختم کر سکے۔
ہمارا یہاں پر ایک مشورہ ہے کہ اس پروگرام کو حکومت سندھ کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ یہ پروگرام بے نظیر کے نام سے منسوب ہے اور بے نظیر بھٹو ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو اب پاکستان کے نہیں صرف سندھ کے لیڈر رہ گئے ہیں جس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ اب ان کے یوم وفات پر صرف سندھ میں عام تعطیل ہوتی ہے پھر حکومت سندھ جتنا بھی چاہے فنڈ مختص کر سکتی ہے اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر ان 750 اربوں کو خیرات میں تقسیم کرنے کے بجائے اس سے سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے یعنی ہر صوبے میں ایک ایک لیڈیز انڈسٹریل زون بنایا جائے جہاں ایسی خواتین کو ملازمت فراہم کر کے باعزت روزگار دیا جائے جس سے ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور یوں نہ صرف ملک کے لیے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور آئندہ برسوں میں کسی قسم کی رقم مختص کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی اور یہ 715 ارب کی سرمایہ کاری آنے والے وقتوں تک کام آئے گی مگر یہ کام حکمرانوں کا ہے کہ وہ عوام کومعزور بنانا چاہتے ہیں یا ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں یہاں ہمیں سوشل میڈیا پر چلا ایک ٹویٹ یاد آرہی ہے جس میں تحریر تھا ’’جس ملک میں خیرات تقسیم کرنے کے لیے 715 ارب روپے رکھے جائیں اور تعلیم کے لیے صرف 18.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اس پروگرام ارب روپے سندھ کے ہیں کہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
سندھ ہائی کورٹ کا الکرم اسکوائر پر انٹر سٹی بس اڈے بند کرنے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق)کراچی کی مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک جام، حادثات اور بدنظمی ایک بڑی وجہ الکرم اسکوائر سمیت شہر کے وسط میں قائم غیر قانونی انٹرسٹی بس اڈے بھی ہیں۔ یہ اڈے شہری زندگی کو یرغمال بنا کر موت کے کنویں میں دھکیل رہے ہیں۔صبح و شام بسوں کے ہارن، کنڈکٹروں کی آوازیں، ڈرائیوروں کی دھکم پیل اور مسافروں کا ہجوم ، جیب کتروں اور ٹھگوں کی بھر مار یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ قانون اور ضابطے صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہیں۔ایک عینی شاہد محمد راشد نے جو روزانہ دفتر جانے کے لیے اس شاہراہ سے گزرتے ہیں، نے بتایا کہ ہم صبح سے شام تک ٹریفک میں پھنستے رہتے ہیں۔ ان اڈوں کے باہر بسیں سڑک کے بیچوں بیچ کھڑی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے حادثات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ کئی بار دیکھا ہے کہ ایمبولینسیں بھی ٹریفک میں پھنس جاتی ہیں اور مریض تڑپتے رہتے ہیں۔قریب ہی الکرم اسکوائر کے فلیٹ کی رہائش پذیر ذکیہ بی بی، ایک گھریلو خاتون ہیں نے جذباتی انداز میں کہا کہ ہماری زندگی جہنم بن گئی ہے۔ رات بھر بسوں کے شور اور ڈرائیوروں کی چیخ و پکار سے سکون نہیں ملتا۔ فٹ پاتھ قبضے میں ہیں، بچوں کو اسکول بھیجنا ایک اذیت ہے۔ لگتا ہے حکام نے ہمیں لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ذرائع کے مطابق ان اڈوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے لاکھوں روپے کے چالان اور درجنوں ایف آئی آرز درج کیں، مگر بس اڈے بدستور سرگرم ہیں۔ شہریوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ محض دکھاوا ہے کیونکہ مبینہ طور پر اہلکاروں اور بااثر افراد کی “سرپرستی” کے بغیر یہ دھندہ ممکن ہی نہیں۔ایک رکشہ ڈرائیوراکرم بلوچ نے بتایا کہ ہمیں روز کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں گزارنے پڑتے ہیں۔ سواریاں برا بھلا کہتی ہیں۔ یہ غیر قانونی اڈے بند نہ ہوئے تو حادثات اور جھگڑے مزید بڑھ جائیں گے۔یہ پہلا موقع نہیں کہ ان اڈوں کے خاتمے کا اعلان ہوا ہو۔ 2018 اور 2020 میں سندھ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام انٹرسٹی اڈے شہر کے مضافات ،سہراب گوٹھ، یوسف پلازہ اور یوسف گوٹھ بلدیہ وغیرہ منتقل کیے جائیں گے، لیکن حقیقت میں یہ اعلانات صرف پریس ریلیز تک محدود ر ہے۔