Express News:
2025-11-06@20:50:03 GMT

چترال نے گلگت کو ہرا کر شندور پولو فیسٹیول 2025 جیت لیا

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

گلگت:

شندور پولو فیسٹیول 2025 اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔

دنیا کے بلند ترین پولو میدان شندور میں ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں دونوں ٹیموں کے درمیان پولو فیسٹیول 2025 کا فائنل میچ کھیلا گیا۔ فائنل میچ میں چترال کی ٹیم نے  گلگت کی ٹیم کو 7 کے مقابلے میں 9 گول سے شکست دی۔

رواں سال گلگت کی اے ٹیم نے گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ فائنل میچ میں چترال کی ٹیم نے دفاع کرتے ہوئے گلگت کی ٹیم کا مقابلہ کیا اور کئی گول بچائے۔

خیبرپختونخوا حکومت، گلگت بلتستان حکومت، پاک فوج اور فرنٹیئر کور خیبر پختونخوا نارتھ کے تعاون سے شندور پولو فیسٹیول 20 تا 22 جون منعقد ہوا۔ آخری روز تقریب کے مہمان خصوصی کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمر احمد بخاری تھے۔

اختتامی تقریب میں ہزاروں کی تعداد میں شائقین نے شرکت کی جن میں غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے حسبِ روایت پاک آرمی کی ایس ایس جی شہباز ٹیم نے فری فال جمپس کا مظاہرہ کیا، آرمی سکول آف فزیکل ٹریننگ ، کاکول کی ٹیم نے پیرا گلائڈنگ کا خوبصورت مظاہرہ بھی کیا۔

علاوہ ازیں روایتی کیلاشی رقص بھی پیش کیا گیا جس سے حاضرین انتہائی محظوظ ہوئے، مہمانِ خصوصی نے پولو ٹیموں کے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی کور کمانڈر پشاور نے تمام حاضرین، سول انتظامیہ اور خصوصی طور پر غیر ملکی شائقین کا شکریہ ادا کیا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پولو فیسٹیول ٹیم نے کی ٹیم

پڑھیں:

معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی

گلگت:

سن 1948 کی جنگِ آزادی میں گلگت بلتستان کے جانبازوں نے اپنی جرات، بہادری اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔

اسی معرکے کے ایک غازی، علی مدد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس تاریخی جدوجہد کی جھلک پیش کی۔

غازی علی مدد کے مطابق ’’میں 1948 میں گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ جنگ آزادی کے دوران بھارت کی جانب سے ہم پر بمباری کی جاتی تھی۔ دشمن نے اسپتالوں، پلوں اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر ایمان، عزم اور وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں ناقابلِ شکست قوت بخشی۔ ڈمبوداس کے مقام پر ہم نے گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کیا۔ کئی دشمن مارے گئے اور تقریباً 80 کو قیدی بنا کر ان کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔

غازی علی مدد نے مزید بتایا کہ گلگت کے جانبازوں نے دشمن کو اسکردو سے پسپا کرتے ہوئے کھرمنگ اور پھر لدّاخ تک کا سفر کیا۔ ہم لدّاخ پہنچے تو دشمن وہاں سے فرار ہو چکا تھا، تین سال بعد ہم واپس گلگت لوٹے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے پہلے مہاراجا کی فوج گلگت چھوڑ کر جا چکی تھی، جس کے بعد علاقے کی دفاعی ذمہ داری گلگت اسکاؤٹس کے سپرد کی گئی۔

غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بونجی کے پل کو جلانے کی ذمہ داری ایک پلٹن کو دی گئی، جس کے بعد مختلف مقامات پر شدید لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کے ٹھکانوں اور دکانوں پر قبضہ کیا اور مقامی علاقوں کو محفوظ بنایا۔

غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کروں، مگر یہ اعزاز میرے بیٹے کو نصیب ہوا۔ میرے تین بیٹے اب بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وطن کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

غازی علی مدد اور ان جیسے بے شمار جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1948 میں گلگت بلتستان نے آزادی حاصل کی۔ آج بھی یہ غازیانِ وطن پاکستان کے دفاع اور آزادی کی علامت ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس گلگت بلتستان سردار شمیم کی مدت ملازمت میں توسیع
  • جسٹس گلگت بلتستان سردار شمیم کی مدت ملازمت میں توسیع
  • کرپشن الزامات پر گلگت بلتستان کے دو افسران معطل
  • ورلڈ کلچرل فیسٹیول میں آئے بین الاقوامی فنکار کراچی کے کھانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
  • سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے چیف جج کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع
  • سعودی عرب میں یورپی سینما کا میلہ، ثقافتی تبادلے کا نیا باب
  • معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
  • ورلڈ کلچر فیسٹیول پانچویں روز میں داخل، شرکا کی دلچسپی برقرار
  • پیپلزپارٹی کی گلگت بلتستان امور کمیٹی کا اجلاس، انتخابی تیاریوں پر غور
  • معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی