امریکہ کی جنگی مداخلتوں کی فہرست اور مغربی منافقت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب دنیا نے تباہی سے سبق سیکھنے کی امید باندھی تھی، تبھی ایک نیا عالمی نظام ابھرا جس میں امریکہ نے خود کو ’’امن‘‘، ’’جمہوریت‘‘ اور’’آزادی‘‘ کا علمبردار قرار دیا۔ مگر وقت نے یہ ثابت کیا کہ یہ نعرے محض سیاسی چالیں تھیں، جن کے پردے میں امریکہ نے درجنوں ممالک پر بمباری کی، حکومتیں گرائیں، عوام کا قتلِ عام کیا، اور خطوں کو بدامنی و تباہی کی دلدل میں جھونک دیا۔
حال ہی میں ماسکو میں قائم چینی سفارت خانے نے ایک فہرست جاری کی، جس میں ان تمام ممالک کا ذکر کیا گیا جن پر امریکہ نے جنگِ عظیم دوم کے بعد براہ راست یا بالواسطہ بمباری کی۔ اس فہرست کا مقصد دنیا کو یاد دلانا ہے کہ حقیقی خطرہ کہاں سے ہے، اور انسانی حقوق، عالمی قانون اور بین الاقوامی سلامتی کے نام پر کس نے سب سے زیادہ خون بہایا ہے۔
چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ اس فہرست کے مطابق امریکہ نے درج ذیل ممالک پر مختلف ادوار میں فوجی حملے یا بمباری کی۔
جاپان: 6 اور 9 اگست 1945 (ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ)کوریا اور چین: 1950-1953 (جنگِ کوریا) گواتی مالا: 1954،1960، 1967-1969‘ انڈونیشیا: 1958 ء کیوبا: 1959۔1961‘ کانگو: 1964 لائوس:1964-1973ویتنام: 1961-1973 کمبوڈیا: 1969-1970گریناڈا: 1983لبنان و شام: 1983، 1984لیبیا: 1986، 2011، 2015ایل سلواڈور اور نکاراگوا: 1980 کی دہائی ایران: 1987پاناما: 1989عراق: 1991، 1991-2003، 2003-2015کویت: 1991 صومالیہ: 1993، 20072008، 2011بوسنیا: 1994، 1995سوڈان: 1998افغانستان: 1998، 2001-2015یوگوسلاویہ: 1999یمن: 2002، 2009، 2011پاکستان: 2007-2015 شام: 2014-2015یہ ایک لمبی فہرست ہے، جو نہ صرف ریاستی دہشت گردی کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے، بلکہ امریکہ کے اس عالمی نظام پر بھی سوالیہ نشان ہے جسے وہ “Rules-Based Order” کہتا ہے۔اس زمرے میں مغرب کا دوہرا معیار پورے عالم انسانیت کے سامنے آئینے کی طرح عیاں ہے ۔
جب ایران نے اسرائیل کے خلاف دفاعی کارروائی کی، تو مغربی دنیا نے فوراً اسے ’’عالمی خطرہ‘‘ قرار دے دیا۔ مگر اسی مغرب نے کبھی بھی امریکہ کی جارحانہ کارروائیوں پر نہ کوئی شدید ردِعمل دیا، نہ پابندیاں لگائیں، نہ بین الاقوامی عدالتوں میں لے کر گئے، اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی بھرپور احتجاج کیا۔کیا کبھی کسی مغربی حکومت نے ہیروشیما و ناگاساکی پر ایٹم بم کے استعمال کو دہشت گردی قرار دیا؟کیا عراق میں جھوٹے الزامات پر حملے کے بعد امریکہ کو کسی بین الاقوامی ٹریبونل میں طلب کیا گیا؟
کیا افغان عوام کی نسل کشی اور ڈرون حملوں پر کبھی کسی امریکی صدر کو انسانیت سوز جرائم کا مجرم قرار دیا گیا؟یہ تمام سوالات اس ’’عالمی ضمیر‘‘ کی خاموشی پر گواہ ہیں، جو صرف اس وقت بیدار ہوتا ہے جب کسی مسلم یا غیر مغربی ریاست کی طرف سے کوئی ردِعمل آتا ہے۔ ورنہ جب امریکہ یا اس کے اتحادی بم برساتے ہیں، بچوں کی لاشیں گرتی ہیں، شہر راکھ میں بدلتے ہیں تو دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چین نے ماسکو سے اس فہرست کو جاری کر کے صرف ایک تاریخی دستاویز فراہم نہیں کی، بلکہ اسے ایک اخلاقی اور سیاسی چارج شیٹ میں تبدیل کر دیا ہے ایک ایسا بیان جو مغربی دوہرے معیار کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا امریکہ کے نام نہاد اخلاقی جواز کو چیلنج کرے۔ اب وقت ہے کہ اس فہرست کو بار بار ہر فورم، ہر میڈیا، اور ہر پلیٹ فارم پر نشر کیا جائے تاکہ مغربی معاشرے کا وہ چہرہ سامنے آئے جو انسانی حقوق کا چیمپئن بن کر دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے۔
یہ تحریر صرف یاد دہانی نہیں، ایک پکار ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے کیا اثر پڑے گا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آبنائے ہرمز دنیا کی توانائی رسد کا ایک انتہائی اہم اور حساس راستہ ہے، جس سے روزانہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور کویت سے دنیا بھر کے ممالک بشمول پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوریا، یورپ اور شمالی امریکا کو برآمد کیا جاتا ہے۔
یہ بحری گزرگاہ مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکا اور دیگر خطوں سے جوڑتی ہے۔ آبنائے ہرمز کے ایک جانب ایران جبکہ دوسری طرف امریکا کے اتحادی خلیجی عرب ممالک موجود ہیں۔
دنیا کے کل تیل کا تقریباً 20 فیصد اور قدرتی گیس کا 30 فیصد اسی راستے سے گزرتا ہے۔ یہاں سے روزانہ قریب 90 اور سالانہ 33 ہزار سے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں۔ 33 کلومیٹر چوڑی اس آبی پٹی میں دو مخصوص شپنگ لینز ہیں، جن کی ہر ایک کی چوڑائی تین کلومیٹر ہے، اور یہ بڑے آئل ٹینکرز کے گزرنے کا بنیادی راستہ ہیں۔
قطر، جو دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی (مائع قدرتی گیس) برآمد کرتا ہے، بھی اپنی برآمدات کے لیے اسی آبی راستے پر انحصار کرتا ہے۔
آبنائے ہرمز کے ایک طرف خلیج فارس جبکہ دوسری طرف خلیج عمان واقع ہے۔ خلیج فارس کے اردگرد آٹھ ممالک — ایران، عراق، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور عمان — واقع ہیں۔
چین، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، اپنی توانائی کی ضروریات کا تقریباً نصف حصہ خلیج سے اسی راستے سے درآمد کرتا ہے، جبکہ جاپان اپنی 95 فیصد اور جنوبی کوریا اپنی 71 فیصد تیل کی درآمدات اسی آبنائے کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ یہی راستہ خلیجی ممالک تک گاڑیاں اور الیکٹرانک مصنوعات کی برآمدات کا بھی ذریعہ ہے۔
عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شدت اختیار کرتی ہے یا امریکا کی جانب سے مزید حملے ہوتے ہیں، تو ایران آبنائے ہرمز کو ایک “ٹرمپ کارڈ” کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ ایران یہاں بارودی سرنگیں بچھا سکتا ہے، آبدوزیں، اینٹی شپ میزائل اور جنگی کشتیاں تعینات کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر تیل کی شدید قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر 130 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق آبنائے ہرمز نہ صرف ایران کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک پوائنٹ ہے بلکہ یہ عالمی معیشت کے لیے بھی ایک لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ آبی راستہ بند ہوتا ہے تو اس کے اثرات ایران سمیت پوری دنیا کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔