دنیا بھر میں توانائی کی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اور اسی رفتار سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔

اس دُہری چیلنج کو سامنے رکھتے ہوئے، صاف اور پائیدار توانائی کا حصول انسانیت کی بقاء کے لیے ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ انہی کوششوں میں سے ایک بڑی امید کا مرکز ’شمسی توانائی‘ یا سولر انرجی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے وقت میں، جب سورج کی روشنی تو شاید زیادہ ہوگی، مگر زمین کا درجہ حرارت بھی بلند ہوگا، کیا شمسی توانائی واقعی ایک قابلِ اعتماد حل رہے گی؟

فوٹو وولٹیک سیلز، جو سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرتے ہیں، ایک سادہ مگر نازک اصول پر کام کرتے ہیں: سورج کی شعاعیں جب ان سیلز پر پڑتی ہیں تو الیکٹران متحرک ہو کر کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ یہ عمل جتنا مؤثر ہو، اتنی ہی زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس کی افادیت درجہ حرارت سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یعنی جتنا زیادہ گرمی، اتنا ہی زیادہ ’الیکٹرانز‘ اور ’ہولز‘ دوبارہ مل کر غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔ یوں بجلی کی پیداوار میں کمی آتی ہے۔

ایم آئی ٹی کی تازہ تحقیق کے مطابق، ہر ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے شمسی سیلز کی کارکردگی میں اوسطاً 0.

45 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ گو کہ یہ شرح معمولی دکھائی دیتی ہے، مگر جب عالمی درجہ حرارت میں متوقع 1.8°C اضافہ شامل کیا جائے، تو شمسی توانائی پر بڑا اثر پڑے گا، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں گرمی کی شدت پہلے ہی حد سے بڑھ چکی ہے، جیسے جنوبی امریکہ، وسطی ایشیا اور جنوبی افریقہ۔

شمسی توانائی کے لیے صرف سورج کی موجودگی کافی نہیں ہوتی۔ بادلوں کی کثافت، نمی، دھند اور فضائی آلودگی بھی بجلی کی پیداوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور یہ تمام عوامل، ماحولیاتی تبدیلی کے تحت مزید غیر متوقع ہو رہے ہیں۔ یہ تمام رکاوٹیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ کیا ہم صرف سولر انرجی پر انحصار کر کے توانائی کے بحران کا حل تلاش کر سکتے ہیں؟

فرانس کے ایک قصبے میں بنائی گئی ’سولر سڑک‘ کا تجربہ بھی ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ لاکھوں ڈالرز کی لاگت، اور کئی سال کی محنت کے باوجود، یہ منصوبہ اپنی متوقع پیداوار کا نصف بھی نہ دے سکا۔ سڑک پر نصب سولر پینل، گرمی، گرد، نمی اور گاڑیوں کے دباؤ کی تاب نہ لا سکے۔ نہ صرف ان کی افادیت کم ہوئی بلکہ کئی جگہ سے پینل اکھڑ بھی گئے۔

جی ہاں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سولر توانائی کی پیداوار میں کمی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جسے ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم موجودہ اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور توانائی کی پیداوار کو مستقبل میں مؤثر بنائیں۔ فوٹو وولٹیک ٹیکنالوجی میں بہتری کی گنجائش ابھی باقی ہے۔ کچھ نئی دھاتیں اور مواد جیسے ’کیڈمیم ٹیلیورائیڈ‘ درجہ حرارت کے اثرات کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے وسیع پیمانے پر استعمال سے پہلے، تحقیق، لاگت، اور ماحولیاتی اثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔

ہمیں اپنی توانائی کی حکمت عملی بناتے ہوئے صرف آج نہیں بلکہ آئندہ دہائیوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ ٹھنڈے علاقوں میں سولر پراجیکٹس مؤثر ہو سکتے ہیں، جبکہ گرم خطوں میں ہمیں ہوا، پانی، یا بائیوماس جیسے متبادل ذرائع کو بھی شامل کرنا ہوگا۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: شمسی توانائی توانائی کی کی پیداوار سورج کی ہوتی ہے

پڑھیں:

پاکستانی سفارتی مندوبین کا چین میں جِنکو سولر فیکٹری کا دورہ، گرین انرجی میں چین-پاکستان تعاون پر زور

نان چھانگ(سی این پی)سٹریٹجک کمیونیکیشن فورم 2025 حال ہی میں ’’ترقی کے مشترکہ مستقبل کے لئے تہذیبوں کے درمیان تبادلے اور باہم سیکھنے کے عمل‘‘ کے عنوان سے چین کے صوبہ جیانگ شی کے شہر شانگ راؤ میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں چینی اور بین الاقوامی مہمانوں نے شرکت کرتے ہوئے عالمی سطح پر تہذیبی مکالمے اور پائیدار ترقی پر بات چیت کی۔ فورم کے دوران پاکستان کے سفارتی مندوبین نے شانگ راؤ اکنامک اینڈ ٹیکنالوجیکل ڈویلپمنٹ زون میں واقع جِنکو سولر کے انٹیلیجنٹ کارخانے کا دورہ کیا اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کی دنیا کا عملی مشاہدہ کیا۔

کارخانے میں داخل ہوتے ہی نمائندے اس کی اعلیٰ درجے کی خودکاری سے بے حد متاثر ہوئے۔ روبوٹک بازو انتہائی نازک کام انجام دے رہے تھے جبکہ انٹیلیجنٹ انتظامی نظام پورے پیداواری عمل کی حقیقی وقت میں نگرانی کر رہے تھے۔ کرسٹل لائن سلیکون جیسے خام مال کو صاف توانائی کے بنیادی اجزا میں موثر انداز میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کے سفارت خانے میں تعینات قونصلر محمد عمر نے کہا کہ یہ واقعی حیران کن ہے، ہر چیز انتہائی جدید اور خودکار ہے۔ فوٹو وولٹک ٹیکنالوجی کے عالمی رہنما کا ملکیتی یہ انٹیلیجنٹ کارخانہ ٹیکنالوجی کی جدت پر مبنی ترقی یافتہ پیداواری لائنوں، سخت ماحولیاتی معیار اور نمایاں اختراعی کامیابیوں کی بدولت مندوبین کی نظر میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں چمکتا ہوا موتی بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے میں انہیں چین کی جدید صنعتی صلاحیتوں کے بارے میں ایک گہرا فہم حاصل ہوا اور سیکھنے کا انتہائی قیمتی موقع ملا۔


توانائی کے شعبے میں تعاون طویل عرصے سے چین اور پاکستان کے تعلقات کا اہم پہلو رہا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران جِنکو سولر نے قابل تجدید توانائی کے نمائندے کے طور پر چین-پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستانی وفد کے ساتھ شمسی توانائی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ مسلسل 5 سال سے دنیا میں سب سے زیادہ فوٹو وولٹک ماڈیول برآمد کرنے والی بڑی صنعتی کمپنی کے طور پر جِنکو سولر پاکستان کو ایشیا بحرالکاہل خطے میں انتہائی اہم منڈی سمجھتی ہے۔ جِنکو سولر کے ایشیا بحرالکاہل خطے کے جنرل منیجر لی یان نے کہا کہ پاکستان کی شمسی توانائی کی منڈی حالیہ برسوں میں تیزی سے وسیع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ مل کر پائیدار توانائی کے حل تلاش کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔

پاکستان کے پاس شمسی توانائی پیدا کرنے اور توانائی ذخیرہ کرنے کے لئے منفرد صلاحیتیں اور فوری ضرورتیں موجود ہیں۔ ملک شمسی وسائل سے مالامال ہے بالخصوص سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں جہاں سالانہ 3 ہزار گھنٹے سے زیادہ سورج کی روشنی دستیاب ہوتی ہے۔ تاہم توانائی کی دائمی قلت طویل عرصے سے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
چائنہ انسٹی ٹیوٹس آف کنٹیمپریری انٹرنیشنل ریلیشنزمیں انسٹی ٹیوٹ فار ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر وانگ شی دا نے کہا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کے دائرہ کار کے تحت چین نے بجلی کی کمی پر قابو پانے کے لئے توانائی کے کئی منصوبے تعمیر کرنے میں پاکستان کی معاونت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس تیل، گیس اور وافر کوئلے جیسے روایتی توانائی کے ذرائع موجود نہیں ہیں اور توانائی کی درآمد سے قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستان بھرپور طور پر ماحول دوست توانائی کی تیاری میں مصروف ہے اور اس نے اپنی مجموعی بجلی میں صاف توانائی کے تناسب کو بڑھانے کے لئے کئی ترقیاتی منصوبے ترتیب دئیے ہیں۔
وانگ شی دا نے مزید تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران سولر پینلز، متعلقہ اجزاء اور توانائی ذخیرہ کرنے کی سہولیات پر مشتمل چین کی فوٹو وولٹک صنعت مقدار، معیار، ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی اور لاگت کے لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے آ چکی ہے۔ اس تناظر میں چین اور پاکستان کے درمیان شمسی توانائی کے شعبے میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ سی پیک کے دائرہ کار کے تحت چینی کمپنیوں نے پہلے ہی پاکستان میں متعدد فوٹو وولٹک منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے اور ان پر کام کر رہی ہیں۔ وانگ شی دا کے مطابق اطلاعات ہیں کہ پاکستان درآمدی فوٹو وولٹک مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جس سے مارکیٹ کے نکتہ نظر سے چینی کمپنیاں کچھ پیداواری مراکز پاکستان منتقل کرسکتی ہیں۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 کے اختتام تک پاکستان میں شمسی توانائی کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت 4.1 گیگا واٹ تک پہنچ چکی تھی۔ جون 2023 کے اختتام پر یہ صلاحیت 1.3 گیگا واٹ تھی یعنی مختصر وقت میں غیر معمولی اضافے سے شمسی توانائی کی ڈاؤن سٹریم منڈی میں فوٹو وولٹک مصنوعات کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔جِنکو کے انٹیلیجنٹ کارخانے میں پاکستانی سفارتی مندوبین کے مشاہدات اور تجربات پاکستان کے توانائی منتقلی کے اہداف سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے وافر شمسی وسائل اور صاف توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر چین کی ترقی یافتہ فوٹو وولٹک ٹیکنالوجی اور صنعتی صلاحیت دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے وسیع امکانات پیدا کرتی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دائرہ کار کے تحت توانائی کے شعبے میں تعاون مزید گہرا ہونے سے یہ باہمی فائدہ مند شراکت داری پاکستان کے توانائی ڈھانچے کی بہتری میں نئی تیزی لائے گی اور ماحول دوست ترقی کے راستے پر چین-پاکستان دوستی کا نیا باب رقم کرے گی۔

اشتہار

متعلقہ مضامین

  • ایشیا میں گزشتہ سال باقی دنیا کی نسبت ریکارڈ توڑ گرمی، ڈبلیو ایم او
  • سائنسدان اور ماہرین ملک کی جوہری صنعت کو آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھیں گے، ایران
  • پاکستانی سفارتی مندوبین کا چین میں جِنکو سولر فیکٹری کا دورہ، گرین انرجی میں چین-پاکستان تعاون پر زور
  • گرمی بڑھے تو سولرپینلز کی کارکردگی کم ہوجاتی ہے، ماہرین
  • بارشوں کا نیا سسٹم: محکمہ موسمیات نے گرمی کا زور ٹوٹنے کی نوید سنادی
  • وزیر خزانہ نے سولر پینل لگوانے کے خواہشمند افراد کو بڑی خوشخبری سنا دی
  • محکمہ موسمیات نے گرمی میں کمی اور بارشوں کی خوش خبری سنادی
  • اسلام آباد میں کلائمیٹ چینج کے منفی اثرات زور پکڑنے لگے
  • سولر پینلز پر ٹیکس اور نیٹ میٹر نگ کی پالیسی باعث تشویش ہے