سورج کی آگ برساتی گرمی سے سولر پینل کی کارکردگی میں کمی واقع ہوتی ہے، ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
دنیا بھر میں توانائی کی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اور اسی رفتار سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔
اس دُہری چیلنج کو سامنے رکھتے ہوئے، صاف اور پائیدار توانائی کا حصول انسانیت کی بقاء کے لیے ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ انہی کوششوں میں سے ایک بڑی امید کا مرکز ’شمسی توانائی‘ یا سولر انرجی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے وقت میں، جب سورج کی روشنی تو شاید زیادہ ہوگی، مگر زمین کا درجہ حرارت بھی بلند ہوگا، کیا شمسی توانائی واقعی ایک قابلِ اعتماد حل رہے گی؟
فوٹو وولٹیک سیلز، جو سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرتے ہیں، ایک سادہ مگر نازک اصول پر کام کرتے ہیں: سورج کی شعاعیں جب ان سیلز پر پڑتی ہیں تو الیکٹران متحرک ہو کر کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ یہ عمل جتنا مؤثر ہو، اتنی ہی زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس کی افادیت درجہ حرارت سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یعنی جتنا زیادہ گرمی، اتنا ہی زیادہ ’الیکٹرانز‘ اور ’ہولز‘ دوبارہ مل کر غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔ یوں بجلی کی پیداوار میں کمی آتی ہے۔
ایم آئی ٹی کی تازہ تحقیق کے مطابق، ہر ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے شمسی سیلز کی کارکردگی میں اوسطاً 0.
شمسی توانائی کے لیے صرف سورج کی موجودگی کافی نہیں ہوتی۔ بادلوں کی کثافت، نمی، دھند اور فضائی آلودگی بھی بجلی کی پیداوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور یہ تمام عوامل، ماحولیاتی تبدیلی کے تحت مزید غیر متوقع ہو رہے ہیں۔ یہ تمام رکاوٹیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ کیا ہم صرف سولر انرجی پر انحصار کر کے توانائی کے بحران کا حل تلاش کر سکتے ہیں؟
فرانس کے ایک قصبے میں بنائی گئی ’سولر سڑک‘ کا تجربہ بھی ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ لاکھوں ڈالرز کی لاگت، اور کئی سال کی محنت کے باوجود، یہ منصوبہ اپنی متوقع پیداوار کا نصف بھی نہ دے سکا۔ سڑک پر نصب سولر پینل، گرمی، گرد، نمی اور گاڑیوں کے دباؤ کی تاب نہ لا سکے۔ نہ صرف ان کی افادیت کم ہوئی بلکہ کئی جگہ سے پینل اکھڑ بھی گئے۔
جی ہاں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سولر توانائی کی پیداوار میں کمی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جسے ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم موجودہ اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور توانائی کی پیداوار کو مستقبل میں مؤثر بنائیں۔ فوٹو وولٹیک ٹیکنالوجی میں بہتری کی گنجائش ابھی باقی ہے۔ کچھ نئی دھاتیں اور مواد جیسے ’کیڈمیم ٹیلیورائیڈ‘ درجہ حرارت کے اثرات کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے وسیع پیمانے پر استعمال سے پہلے، تحقیق، لاگت، اور ماحولیاتی اثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہمیں اپنی توانائی کی حکمت عملی بناتے ہوئے صرف آج نہیں بلکہ آئندہ دہائیوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ ٹھنڈے علاقوں میں سولر پراجیکٹس مؤثر ہو سکتے ہیں، جبکہ گرم خطوں میں ہمیں ہوا، پانی، یا بائیوماس جیسے متبادل ذرائع کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: شمسی توانائی توانائی کی کی پیداوار سورج کی ہوتی ہے
پڑھیں:
افیون پیداوار ، افغانستان آج بھی سب سے بڑا مرکز ہے، اقوام متحدہ
قابل(ویب ڈیسک)
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم نے 2025 کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان بدستور عالمی سطح پر افیون کی پیداوار کا ایک بڑا مرکز ہے اور رواں برس 10 ہزار 200 ہیکٹرز پرافیون کاشت کی گئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد کم ہے تاہم 2024 میں 19 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق افیون کی کاشت 2023 میں 10 ہزار 800 ہیکٹر، 2024 میں 12 ہزار 8000 ہیکٹر اور 2025 میں 10 ہزار 200 ہیکٹر پر کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ زابل، کنڑ اور تخار کے علاقوں میں اس سال افیون کی کاشت میں معمولی اضافہ دیکھا گیا تاہم خشک سالی کے باعث بڑی مقدار میں فصل تباہ ہو گئی۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے بتایا کہ 2025 میں مجموعی طور پر 296 ٹن افیون پیدا ہوئی جبکہ اس کی فی کلو قیمت 570 امریکی ڈالر رہی۔
ماہرین کے مطابق افغانستان میں گزشتہ برسوں کے دوران ذخیرہ کی گئی افیون 2026 تک کی عالمی طلب پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔
اقوام متحدہ کا دفتر برائے منشیات و جرائم نے مزید کہا کہ اب منشیات کی مارکیٹ میں پلانٹ بیسڈ پوست کے بجائے سنتھیٹک ڈرگز (مصنوعی منشیات) زیادہ منافع بخش ماڈل بن چکی ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ آئس (Methamphetamine) جیسی مصنوعی منشیات کی پیداوار افغانستان میں تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ جرائم پیشہ گروہ پیداوار اور اسمگلنگ میں آسانی کی وجہ سے آئس کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم کے مطابق افغانستان دنیا کے ان تین بڑے ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ افیون پیدا کرتے ہیں۔