پاکستان میں مون سون کا پہلا اسپیل کب سے شروع ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مون سون کا پہلا اسپیشل 24 جون سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں 25 سے 29 جون بارشیں ہوسکتی ہیں، اسلام آباد، راولپنڈی اور گردونواح میں 26 سے 28 جون بارش کا امکان ہے۔
لاہور، سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ میں بھی بارشیں ہوسکتی ہیں۔
محکمہ موسمیات نے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں بھی شدید بارش کی پیش گوئی کی ہے جبکہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 25 سے 28 جون کے دوران بارش کا امکان ہے۔
ژوب، کوئٹہ، بارکھان، مستونگ اور زیارت میں بارشیں متوقع ہیں، خیبرپختونخوا میں 25 سے 29 جون تک شدید بارش کا امکان ہے۔
پشاور، ایبٹ آباد، دیر، کوہستان، شانگلا میں موسلا دھارش بارشیں متوقع ہیں، بارشوں سے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ نشیبی علاقوں میں اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے، شہری محتاط رہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: محکمہ موسمیات کا امکان ہے
پڑھیں:
ہر 15 سال بعد تباہ کن سیلاب یا خشک سالی؟ پاکستان کے لیے مصنوعی ذہانت کی چونکا دینے والی پیش گوئی
پاکستان کے مستقبل سے متعلق ایک نئی سائنسی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جنوبی کوریا کی پوسٹیک یونیورسٹی (Pohang University of Science and Technology) کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان آئندہ برسوں میں باقاعدگی سے “سپر فلڈز” یعنی شدید سیلاب اور سنگین خشک سالی کا سامنا کرے گا — اور یہ سلسلہ تقریباً ہر 15 سال بعد دہرایا جا سکتا ہے۔
یہ تحقیق معروف بین الاقوامی سائنسی جریدے Environmental Research Letters میں شائع ہوئی ہے، جس کی قیادت پروفیسر جونگہُن کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ اس تحقیق میں پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم حسن رضا، اور چین کی سن یات سین یونیورسٹی کے پروفیسر داگانگ وانگ اور ان کی ٹیم بھی شامل ہے۔
پاکستان تحقیق کا مرکز کیوں؟
تحقیقی ٹیم نے پاکستان پر فوکس اس لیے کیا کیونکہ یہاں کی بقاء بڑی حد تک دریاؤں، خصوصاً دریائے سندھ پر منحصر ہے۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے ان دریاؤں کے بہاؤ کو غیر یقینی بنا دیا ہے، جس کے باعث پانی کی مؤثر منصوبہ بندی اور انتظامی حکمتِ عملی ایک چیلنج بن چکی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، جو گلوبل ساؤتھ کا حصہ ہیں، نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے پاس ان مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار معاشی اور تکنیکی وسائل بھی محدود ہوتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے موسمیاتی پیش گوئیوں میں انقلاب
اس تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ ماہرین نے روایتی موسمی ماڈلز پر انحصار کرنے کے بجائے مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کیا۔ عام ماڈلز پہاڑی علاقوں، جیسے گلگت بلتستان یا شمالی خیبرپختونخوا میں بارش اور دریا کے بہاؤ کی درست پیش گوئی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ AI کی مدد سے ماہرین نے دریا کے ماضی کے ڈیٹا اور زمینی مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے ایسے موسمیاتی رجحانات دریافت کیے جو پہلے چھپے ہوئے تھے۔
نتائج کے مطابق بالائی دریائے سندھ میں ہر 15 سال کے لگ بھگ ایک بڑا سیلاب یا خشک سالی متوقع ہے۔
دیگر قریبی دریا تقریباً 11 سال کے وقفے سے ایسے ہی شدید موسمی حالات کا سامنا کریں گے۔
حکومت کے لیے ایک واضح انتباہ
یہ تحقیق پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے:
تمام دریاؤں کے لیے ایک جیسی حکمت عملی کارگر نہیں۔ ہر دریا کی بنیاد پر الگ، سائنسی اور مقامی حالات کے مطابق منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔
پروفیسر جونگہُن کام کا کہنا ہے کہ یہ نئی AI ٹیکنالوجی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان خطوں کے لیے بھی مفید ہے جو موسمیاتی لحاظ سے کمزور اور ڈیٹا کے فقدان کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، تو AI موسمیاتی خطرات سے نمٹنے میں انقلابی کردار ادا کر سکتی ہے۔