کراچی میں رواں ماہ زلزلے کے کتنے جھٹکے محسوس کیے گئے؟ وجہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
سربراہ نیشنل سونامی سینٹر امیر حیدر لغاری نے کہا کہ فالٹ لائن زیر زمین انرجی کے بعد دوبارہ متوازن ہو جائے گا، امکان ہے کہ جب یہ زلزلے تھم جائیں تو پھر اگلے کئی برسوں تک اس فالٹ لائن پر کسی سرگرمی کے امکانات نہیں رہیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ چیف میٹرولوجسٹ کراچی اور سربراہ نیشنل سونامی سینٹر امیر حیدر لغاری نے کہا ہے کہ لانڈھی میں موجود زلزلہ فالٹ کی حالیہ فعالیت کے سبب 57 زلزلے ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ کراچی میں میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ 30 سال کے بعد لانڈھی فالٹ لائن شدت سے فعال ہوئی ہے، سن 2009ء میں لانڈھی فالٹ لائن پر 4 ماہ کے دوران 36 زلزلے ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے ان زلزلوں کی شدت زیادہ سے زیادہ 3.
امیر حیدر لغاری نے کہا کہ سن 2009ء کے مقابلے میں موجودہ حالات بہت مختلف ہیں، 16 برسوں کے دوران بے ہنگم تعمیرات نے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا، کراچی میں بالخصوص فالٹ لائن ایریاز میں تعمیرات کیلئے خصوصی بلڈنگ اتھارٹی ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ زلزلوں کو ایک سبق سمجھ کر اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے، فالٹ لائن زیر زمین انرجی کے بعد دوبارہ متوازن ہو جائے گا، امکان ہے کہ جب یہ زلزلے تھم جائیں تو پھر اگلے کئی برسوں تک اس فالٹ لائن پر کسی سرگرمی کے امکانات نہیں رہیں گے۔
چیف میٹرولوجسٹ نے مزید کہا کہ ریتی، بجری، پانی کا زمین سے نکالنا ایک وجہ تو ہوسکتی ہے، مگر زلزلے کی مکمل وجہ نہیں ہے، ایکو سسٹم کو کسی بھی شکل میں نقصان کے اثرات عموما غیر معمولی شکل میں ہی نمودار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زلزلوں کی صورت میں ہنگامی اخراج کا انعقاد محکمہ موسمیات کی جانب سے سن 2016ء سے کروایا جاتا ہے، اس سلسلے میں کراچی کے ریڑھی گوٹھ کے علاوہ بلوچستان کے ساحلی مقامات پر ڈرلز کی جا چکی ہیں، حالیہ زلزلوں کے دوران بھی عوامی آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فالٹ لائن ریکارڈ ہو کے دوران
پڑھیں:
میئر کراچی ترقیاتی منصوبوں کا اختیار لینے کیلئے گرین لائن کی راہ میں رکاوٹ بن گئے
کراچی کی بلدیاتی قیادت نے وفاقی حکومت کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے پاکستان انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کے کردار پر سوال اٹھایا ہے اور اصرار کیا ہے کہ شہر کی تمام ترقیاتی اسکیمیں بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) کے دائرہ کار میں آنی چاہییں۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی زیرِ قیادت سندھ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ کے ایم سی نے وفاق کے مالی تعاون سے شروع ہونے والے 6 ارب روپے مالیت کے گرین لائن بس توسیعی منصوبے کو روک دیا ہے، کے ایم سی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پی آئی ڈی سی ایل نے کام دوبارہ شروع کرنے سے قبل بلدیاتی حکام سے این او سی حاصل نہیں کیا۔
پاکستان ورکس ڈپارٹمنٹ کے خاتمے کے بعد وفاقی حکومت مختلف علاقوں میں ترقیاتی منصوبے پی آئی ڈی سی ایل کے ذریعے تعمیر کروا رہی ہے، جو کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت قائم کی گئی تھی۔
گرین لائن کے توسیعی حصے پر تقریباً 9 سال بعد دو ہفتے پہلے دوبارہ کام شروع کیا گیا تھا، تاہم گزشتہ ہفتے میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے نمائش چورنگی سے میونسپل پارک (جامہ کلاتھ مارکیٹ کے قریب) تک جاری تعمیرات کو ’عملی خلاف ورزیوں‘ کو جواز بناتے ہوئے روک دیا۔
کے ایم سی حکام کے مطابق این او سی ہمیشہ کے لیے جاری نہیں ہوتا، اور گرین لائن بی آر ٹی کے توسیعی مرحلے کے لیے پی آئی ڈی سی ایل کو دوبارہ منظوری لینا ضروری تھا۔
میئر نے اپنے بیان میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ منصوبے کے پہلے مرحلے میں 3 سال قبل ہونے والے کام کے دوران جو بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوا تھا، اس کی بحالی بھی یقینی بنائی جائے، ان کا کہنا تھا کہ ’دیگر اداروں‘ کی غفلت اور بدانتظامی کا خمیازہ کراچی کے شہری اور کے ایم سی بھگت رہے ہیں۔
مگر صورتِ حال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، روزنامہ ڈان سے گفتگو میں میئر کراچی نے کھل کر خواہش ظاہر کی کہ پی آئی ڈی سی ایل کو شہر کے ترقیاتی کاموں سے مکمل طور پر الگ کر دیا جائے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ کراچی کے منصوبوں میں پی آئی ڈی سی ایل کو ’مائنس‘ کر دیا جائے؟ تو انہوں نے بلا جھجک کہا کہ ’جی بالکل‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں کوئی بھی منصوبہ، خواہ اس کی فنڈنگ وفاقی حکومت کر رہی ہو، مقامی اداروں کے ذریعے ہی مکمل ہونا چاہیے، اگر منصوبہ کسی ٹاؤن سے متعلق ہے تو اس ٹاؤن کی انتظامیہ کرے، اگر شہر سے متعلق ہے تو ہم (کے ایم سی) ذمہ داری لیں گے، عوام ہم سے سوال کرتے ہیں، ہمیں جواب دینا پڑتا ہے۔ بیشتر شہریوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ پی آئی ڈی سی ایل کا سربراہ کون ہے‘۔
میئر نے کہا کہ انہیں اس پالیسی پر سندھ حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبے کی سست رفتاری پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں، جو صوبائی حکومت چلا رہی ہے۔
ان کے بقول کہ ’مگر فرق یہ ہے کہ ریڈ لائن بی آر ٹی کے کام پر نظر رکھنے والی مشاورتی کمیٹی کا میں حصہ ہوں، میں اجلاسوں میں سوال کرتا ہوں، وضاحت طلب کرتا ہوں، اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن پی آئی ڈی سی ایل کے تحت گرین لائن منصوبے کے بارے میں مجھے کچھ خبر نہیں ہوتی، پھر بھی جوابدہی مجھے ہی کرنی پڑتی ہے اور عوامی تنقید کا سامنا مجھے ہی ہوتا ہے‘۔
ایسے میں جب کراچی کی بلدیہ اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے، وفاقی حکومت میئر کے اعتراضات سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتی، منصوبے کا کام رکے کئی دن گزرنے کے باوجود وفاق کی جانب سے کے ایم سی کے تحفظات پر باضابطہ ردعمل نہیں دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق جب تعمیرات کو روکا گیا تو پی آئی ڈی سی ایل حکام نے فوری طور پر میئر سے رابطہ کیا اور طے ہوا کہ جمعہ کو دونوں فریق بیٹھ کر مسائل حل کریں گے، لیکن اس کے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
وفاقی حکام کا اب ماننا ہے کہ معاملہ کراچی کے میئر اور کنٹریکٹر کے درمیان ہے، این او سی کے حوالے سے ان کا مؤقف ہے کہ پی آئی ڈی سی ایل کے پاس پہلے سے ہی اکتوبر 2017 میں جاری کردہ کے ایم سی کا این او سی موجود ہے، اس لیے موجودہ بحث غیر متعلقہ ہے۔
Post Views: 1