اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جون 2025ء) گزشتہ سال ایشیا میں اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی شرح دیگر دنیا سے کہیں زیادہ رہی جہاں چین میں اپریل، مئی، اگست، ستمبر اور نومبر میں گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہوتے اور ٹوٹتے رہے۔

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ براعظم ایشیا عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے اور اس شرح میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔

Tweet URL

گرمی میں اضافے سے لوگوں کی زندگیاں اور روزگار بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور اس صورتحال سے خطے کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ادارے کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا ہے کہ ایشیا میں موسمی شدت کے واقعات ناگوار طور سے لوگوں پر انتہائی شدید اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ قدرتی آفات میں زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے قومی سطح پر موسمیاتی اور آبی خدمات کے شعبے اور ان کے شراکت داروں کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔

وسیع زمین اور شدید گرمی

رپورٹ کے مطابق، سمندر کے مقابلے میں خشکی پر درجہ حرارت کہیں زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے۔

چونکہ ایشیا میں خشکی کی وسعت بہت زیادہ ہے اس لیے وہاں درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار بھی زیادہ ہے۔

زمین کے درجہ حرارت میں تغیر کے فطری نظام اور انسانوں پر وسیع اثرات ہوتے ہیں۔ ایشیا کے گرد سمندروں میں بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ سال بحر ہند اور بحر الکاہل کی سطح کے اوسط درجہ حرارت نے بھی ریکارڈ بلندیوں کو چھوا۔

گزشتہ سال خشکی و سمندر پر گرمی کی طویل لہروں نے بھی خطے بھر میں تباہی مچائی جس کے نتیجے میں گلیشیئر پگھلتے رہے اور سطح سمندر میں اضافہ ہوتا رہا۔

شدید بارشیں اور خشک سالی

رپورٹ کے مطابق، ایشیا میں بعض ممالک اور علاقوں میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں۔ مثال کے طور پر انڈیا کی ریاست کیرالہ کے شمالی علاقے میں پہاڑی تودے گرنے کے نتیجے میں 350 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے۔

قازقستان میں شدید بارشوں اور برف پگھلنے سے 70 سالہ تاریخ کا بدترین سیلاب آیا۔ بعض ممالک اور علاقوں میں معمول سے بہت کم بارشیں ہوئیں۔

چین میں موسم گرما کے دوران طویل خشک سالی رہی جس سے تقریباً 48 لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور ہزاروں ہیکٹر پر فصلوں کو نقصان پہنچا۔

'ڈبلیو ایم او' نے کہا ہے کہ ایسی موسمی کیفیات سے مطابقت اختیار کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہر جگہ موسم کے بارے میں بروقت اطلاعات کی فراہمی کے نظام نصب کیے جائیں اور لوگوں کو ایسے طریقوں سے روشناس کرایا جائے جن کی بدولت وہ موسمی شدت کے واقعات سے مستحکم طور پر نمٹ سکیں۔

© IWMI/Nabin Baral نیپال کا ایک زرعی فارم جس میں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل کی مدد سے آبپاشی کی جاتی ہے۔

نیپال کے مثالی اقدامات

رپورٹ میں بروقت آگاہی کے نظام قائم کرنے کے معاملے میں نیپال کی کامیابی کا تذکرہ بھی شامل ہے جس نے لوگوں کو سیلاب کے بارے میں پیشگی اطلاعات کی فراہمی کا موثر اہتمام کیا ہے۔ گزشتہ سال 26 اور 28 ستمبر کے درمیان نیپال میں شدید بارشوں کے نتیجے میں پہاڑی تودے گرنے اور سیلاب آنے سے 246 افراد ہلاک، 178 زخمی اور 200 سے زیادہ لاپتہ ہو گئے تھے۔

اگرچہ یہ بحران انتہائی شدید تھا لیکن سیلاب کے بارے میں بروقت اطلاعات ملنے کے نتیجے میں لوگوں نے خطرے کی زد پر موجود علاقے پہلے ہی خالی کر دیے تھے اور ہنگامی حالات میں مدد دینے والی ٹیموں کی تیاری بھی مکمل تھی۔

مشرقی نیپال میں سیلاب سے متاثرہ علاقے باراکھشٹرا کے میئر رمیش کارکی نے کہا ہے کہ یہ سات دہائیوں میں آنے والا بدترین سیلاب تھا۔

تاہم، بروقت تیاری اور لوگوں کی تلاش اور بچاؤ کے اقدامات کی بدولت انسانی نقصان کم سے کم رہا البتہ بنیادی ڈھانچہ اس آفت سے وسیع پیمانے پر متاثر ہوا۔

علاوہ ازیں، ملکی سطح پر جامع ضابطوں اور ہنگامی حالات کے لیے درکار مالی وسائل کی موجودگی میں امدادی اور تعمیرنو سے متعلق ضروریات فوری طور پر پوری کی گئیں۔

'ڈبلیو ایم او' نیپال کی حکومت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ نظام مزید مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایم او کے نتیجے میں گزشتہ سال ایشیا میں

پڑھیں:

نیپال کی بغاوت اور جمہوریت کا سوال

جنوبی ایشیا کے پہاڑوں کے درمیان چھپا ہوا چھوٹا سا ملک نیپال آج ایک بار پھر سیاسی بحران کی زد میں ہے۔ چند دہائیاں پہلے تک یہ بادشاہت کے سائے میں سانس لینے والا سماج تھا، پھر عوامی تحریکوں نے اس بادشاہت کے پرخچے اڑائے اور جمہوریت کے خواب نے وہاں کے عوام کی آنکھوں میں چمک پیدا کی لیکن اب چند ہی برسوں میں وہی خواب بکھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ فوجی مداخلت اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی نے اس بات کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابی کھیل یا ناموں کی شعبدہ بازی نہیں۔

نیپال کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ کو اشرافیہ کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو جمہوریت اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ یہ کُو یا بغاوت دراصل اسی مایوسی اور محرومی کی پیداوار ہے جو عوام برسوں سے جھیلتے آ رہے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کو سب سے زیادہ غلط سمجھا اور غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اکثر حکمران سمجھتے ہیں چونکہ عوام نے انھیں ووٹ دے دیا ہے، اس لیے اب وہ عوام پر حکومت کرنے کے مجاز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا مفہوم کبھی بھی صرف اقتدار حاصل کرنے تک محدود نہیں رہا۔ جمہوریت کا اصل مقصد یہ ہے کہ اکثریت کے خواب، اکثریت کی ضرورتیں اور اکثریت کی محرومیاں حکومتی پالیسی کا مرکز ہوں، اگر کسان اب بھی زمین سے محروم ہے، مزدور اب بھی بھوک اور بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہے۔ عورت اب بھی سماجی ناانصافی اور ریاستی بے حسی کا شکار ہے تو ایسی جمہوریت کاغذ پر موجود ہو سکتی ہے لیکن عوام کے دل میں اس کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

 نیپال کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں جدوجہد اور خوابوں کی ایک طویل داستان ملتی ہے۔ وہاں کے عوام نے بادشاہت کے خلاف قربانیاں دیں شاہی فوج کے تشدد کو برداشت کیا پہاڑوں اور میدانوں میں احتجاجی جلوس نکالے۔ ان سب کا مقصد یہ تھا کہ اقتدار چند ہاتھوں سے نکل کر عوام کی اکثریت کو منتقل ہو لیکن جب وہاں کی جماعتیں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے جمہوریت کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے ذاتی مفاد اور بدعنوانی کی نذر کر دیا۔

وہی سیاست دان جو عوامی نعروں کے سائے میں تختِ اقتدار پر بیٹھے تھے وہ سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے کے خدمت گار بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ، غربت بڑھی نوجوان بیروزگار ہوئے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام نے لوگوں کے اعتماد کو چکنا چورکر دیا۔ یہ مسئلہ صرف نیپال تک محدود نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا جنوبی ایشیا کا ہر ملک اس سوال سے دوچار ہے۔ جمہوریت کس کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے ہے یا پھر یہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا ایک راستہ ہے؟

مغربی دنیا ہمیں بار بار یہ باور کراتی ہے کہ جمہوریت ان کا تحفہ ہے لیکن خود وہاں بھی جمہوریت امیروں کے کھیل میں بدل چکی ہے۔ فرانس میں مزدور بار بار سڑکوں پر نکلتے ہیں کیونکہ جمہوری حکومتیں بھی ان کی پنشن ان کے اوقاتِ کار اور ان کے مستقبل پر ڈاکا ڈالتی ہیں۔ امریکا میں انتخابات کی اصل طاقت کارپوریشنوں اور ارب پتیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر استحصال کی ایک نئی شکل رائج کی جا رہی ہے۔

سچی جمہوریت وہ ہے جہاں حکومت عوام کی بھلائی کو سب سے مقدم سمجھے جہاں تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف سب کے لیے برابر ہو۔ جہاں کسان اور مزدورکو وہی عزت ملے جو کسی بڑے سرمایہ دار یا جاگیردار کو دی جاتی ہے۔ جہاں ریاست کے فیصلے اقلیت کے مفاد میں نہیں بلکہ اکثریت کے فائدے میں ہوں، اگر عوام کی اکثریت بھوک، بیماری اور ناانصافی کی شکار ہے تو پھر ایسی جمہوریت محض ایک فریب ہے۔ یہ وہی صورتِ حال ہے جو نیپال میں سامنے آئی ہے۔ وہاں کے عوام نے جب دیکھا کہ ان کے ووٹوں سے آنے والی حکومتیں ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر رہیں تو ان کا اعتماد ٹوٹ گیا اور اسی ٹوٹے ہوئے اعتماد نے ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا۔

نیپال کی بغاوت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم جمہوریت میں واقعی عوام کو مرکز بنا رہے ہیں؟ یا پھر ہماری پارلیمان اور حکومتیں چند خاندانوں، چند سرمایہ داروں اور چند طاقتور اداروں کی گرفت میں ہیں؟ اگر جمہوریت صرف اقتدار کا کھیل ہے تو اس کا انجام ہمیشہ مایوسی اور بغاوت ہی ہوگا۔ عوام بار بار یہ سوال اٹھائیں گے کہ ان کی قربانیوں کا صلہ انھیں کیوں نہیں ملا ؟ وہ کیوں اب بھی اندھیروں میں ہیں جب کہ اقتدار کے ایوان روشنیوں سے جگمگا رہے ہیں؟

میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب کسی غریب کا بچہ اسکول جانے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہو، جب کسی کسان کی فصل کا سارا نفع بیچولیے اور آڑتی لے جائیں، جب ایک ماں اپنے بچوں کا علاج نہ کرواسکے تو ایسی جمہوریت کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ کیا یہ جمہوریت ہے یا ظلم کے ایک نئے چہرے کا نام؟ یہ سوال صرف نیپال کا نہیں یہ سوال پاکستان کا بھی ہے، بھارت کا بھی، اور دنیا کے ہر اس خطے کا جہاں عوام جمہوریت کے نام پر دھوکا کھا رہے ہیں۔

نیپال کے حالیہ بحران نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے اور حکومت بنانے کا عمل نہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جب تک جمہوریت عوام کی اکثریت کو تعلیم، صحت، روزگار اور وقار نہیں دیتی تب تک یہ جمہوریت نہیں بلکہ اس کا مذاق ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جمہوریت کی اصل روح صرف اس وقت زندہ رہتی ہے جب حکومت اکثریت کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام خواہ وہ نیپال کے ہوں یا پاکستان کے ایک بار پھر اپنی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئیں گے اور ان سے ان کی اصل طاقت چھیننے والوں کو بے نقاب کر دیں گے۔
 

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی حملے جاری، غزہ میں شہدا کی تعداد 65 ہزار سے متجاوز
  • سیلاب سے نقصانات، پاکستان پانی کے ریکارڈ ذخائر کے ساتھ ربیع سیزن کا آغاز کرے گا
  • پاکستان ابھی بھی ایشیا کپ جیت سکتا ہے: سابق ٹیسٹ کرکٹر
  • چین کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ آلو کی نئی قسم بنانے کی کوشش کتنی کامیاب ہوئی؟
  • بھارت سے مسلسل چوتھی شکست، پاکستانی بولرز ناکام، دبئی میں گرما گرمی کا ماحول، انڈین کھلاڑیوں نے پھر ہاتھ نہ ملایا
  • دوسروں کی آگ پر اپنی ہنڈیا
  • ورجینیا کے باغ میں اُگا دنیا کا سب سے وزنی آڑو، گنیز ریکارڈ قائم
  • نیپال کی بغاوت اور جمہوریت کا سوال
  • اس سال شدید سردی پڑے گی، موسم کی حیرت ناک فورکاسٹ آگئی
  • جنوبی پنجاب میں لوگوں کے وارننگ سنجیدہ نہ لینے پر زیادہ نقصان ہوا: سربراہ پی ڈی ایم اے