Jasarat News:
2025-06-24@01:25:53 GMT

ایران، اسرائیل، عالمی چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مشرق وسطیٰ، وہ قدیم سرزمین جہاں تہذیبوں نے جنم لیا اور تاریخ نے کروٹیں بدلیں، آج ایک بار پھر شدید اضطراب کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں ایک ایسی کشمکش پنپ رہی ہے جو بظاہر فریقین کے درمیان محدود نظر آتی ہے، مگر جس کے شعلے عالمی امن و استحکام کو بھسم کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری اس نازک اور خطرناک کشیدگی کی، جس کے تاریک سائے عالمی سیاست، عالمی معیشت اور انسانیت کے مستقبل پر گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صرف نقشے پر موجود چند لکیروں کے پیچھے چھپا ہوا کوئی علاقائی تنازع نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا آتش فشاں ہے جس کا لاوا اگر پھٹ گیا تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، جس کے تباہ کن اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
اس کشمکش کی گہری جڑیں 1979 کے ایرانی انقلاب میں پیوست ہیں۔ وہ انقلاب جس نے ایران میں صدیوں پرانے شاہی نظام کا خاتمہ کیا اور ایک اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی، وہی تاریخی لمحہ تھا جب ایران نے کھل کر اسرائیل کو ایک ’’غاصب‘‘ اور ناجائز ریاست قرار دے کر فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کا بیڑا اٹھایا۔ یہ محض ایک سیاسی اعلان نہیں تھا بلکہ ایک گہری نظریاتی بنیاد تھی جس نے وقت کے ساتھ ساتھ دونوں فریقوں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج پیدا کر دی۔ اسرائیل کے لیے ایران کا تیزی سے بڑھتا ہوا جوہری پروگرام، اس کی جدید میزائل صلاحیتیں، اور لبنان کی حزب اللہ، غزہ کی حماس جیسے علاقائی پراکسیز کی مسلسل حمایت اس کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست اور ناقابل قبول خطرہ بن چکی ہے۔ دوسری جانب ایران اسرائیل کو خطے میں امریکی اثر رسوخ کا نمائندہ اور فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا سب سے بڑا غاصب تصور کرتا ہے، جس سے دشمنی کی آگ مزید بھڑکتی ہے۔
آج کی صورتحال انتہائی پیچیدہ اور ایک پراکسی وار کے خطرناک جال سے بْنی ہوئی ہے۔ عراق، شام، یمن اور لبنان جیسے ممالک طویل عرصے سے اس پراکسی جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں، جہاں دونوں فریق براہ راست فوجی تصادم سے گریز کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف بالواسطہ طور پر اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شام میں اسرائیلی فضائی حملے، جن کا مبینہ مقصد ایران کے فوجی اڈوں اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت کو روکنا ہوتا ہے، اس پراکسی جنگ کا ایک کھلا ثبوت ہیں۔
یہ تنازع محض علاقائی نہیں بلکہ اس کے عالمی اثرات بھی انتہائی گہرے اور دور رس ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں کسی بھی بڑے فوجی تصادم سے عالمی تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ عالمی سپلائی چینز بری طرح متاثر ہوں گی اور متعدد معیشتیں ایک نئے شدید بحران کا شکار ہو سکتی ہیں۔ مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام اور دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافے سے دنیا کا ہر خطہ متاثر ہوگا، ترقی پذیر ممالک پر اس کا بوجھ کہیں زیادہ ہوگا۔ علاقائی استحکام مزید خطرے میں پڑ جائے گا، اور مہاجرین کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے جو شام اور یمن جیسے ممالک سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ کرے گا۔
بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں امریکا کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا، اسرائیل کا ایک دیرینہ اور مضبوط اتحادی ہونے کے ناتے، اس تنازعے میں اپنی پالیسیوں کے ذریعے انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جیسن وِلک جیسے تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسرائیل کی طویل مدتی اسٹرٹیجک پوزیشن کا انحصار بڑی حد تک امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات پر ہے۔ دوسری جانب، چین اور روس، جو ایران کے اہم اتحادی ہیں، اس صورتحال کو اپنے علاقائی مفادات اور عالمی طاقت کے توازن کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے ادارے سفارتی حل پر زور دے رہے ہیں، فرانس کے صدر ماکروں نے ایرانی صدر پزشکیان کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی ہے، اور پوپ لیو چہارم نے بھی دونوں فریقوں سے ذمے داری اور دانش مندی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے جوہری خطرے سے پاک دنیا کے لیے مخلصانہ مکالمے پر زور دیا ہے، لیکن ان کی کوششیں اکثر بے بسی کی تصویر پیش کرتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی یہ سلگتی ہوئی کشیدگی پاکستان کے لیے بھی گہرے مضمرات رکھتی ہے، نہ صرف اس کی جغرافیائی قربت اور تاریخی روابط کی وجہ سے بلکہ اس کے اسلامی دنیا اور علاقائی امن میں ایک اہم کردار کے پیش نظر بھی۔ پاکستان، جو ایک جوہری طاقت ہے اور اسلامی دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی پر مشتمل ہے، ہمیشہ سے خطے میں استحکام اور امن کا خواہاں رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی بڑے اور براہ راست فوجی تصادم کی صورت میں، پاکستان پر علاقائی امن کی بحالی اور سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
جدید دور کی جنگیں اب صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہتیں۔ سائبر سیکورٹی کا میدان بھی اس تنازعے کا ایک اہم اور پوشیدہ حصہ بن چکا ہے جہاں غیر مرئی حملے کیے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر سائبر حملوں کا الزام لگاتے ہیں، جن کا مقصد اہم سرکاری اداروں، بنیادی ڈھانچے اور مواصلاتی نظام کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ یہ سائبر حملے عالمی نیٹ ورکس اور انفرا اسٹرکچر کے لیے ایک پوشیدہ لیکن انتہائی سنگین خطرہ ہیں، کیونکہ سائبر جنگ کی کوئی جغرافیائی سرحد نہیں ہوتی۔ ان حملوں سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ عالمی مالیاتی نظام اور مواصلاتی نیٹ ورکس بھی شدید خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
مستقبل کے منظرنامے کی بات کریں تو دو بڑے اور واضح راستے نظر آتے ہیں جن میں سے کوئی ایک رخ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک راستہ سفارت کاری اور مخلصانہ مذاکرات کا ہے، جہاں عالمی برادری کی بھرپور اور نتیجہ خیز کوششوں سے کشیدگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے تمام فریقوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مشترکہ مفادات کی خاطر تنازعات کے حل کی طرف بڑھنا ہوگا۔ دوسرا راستہ براہ راست تصادم اور تباہی کا ہے، جہاں ایک وسیع تر جنگ نہ صرف خطے کو بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس وقت ایک غلط قدم بھی ناقابل تلافی اور لرزہ خیز نقصان کا باعث بن سکتا ہے، جس کے نتائج شاید نسلوں تک بھگتنا پڑیں۔
آخری بات کہ یہ محض دو ممالک کے درمیان کا جھگڑا نہیں، بلکہ عالمی امن اور پوری انسانیت کے مستقبل کا انتہائی اہم سوال ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ نفرت اور تصادم کا راستہ صرف اور صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے، اور اس کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ عالمی برادری کو، بشمول بڑی طاقتوں اور علاقائی رہنماؤں کو، اس وقت اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات اور پرامن حل کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔ انسانی جانوں کے تحفظ اور عالمی استحکام کو یقینی بنانا ہماری سب سے بڑی اور اولین اجتماعی ذمے داری ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس آتش فشاں کو ٹھنڈا کریں، اس سے پہلے کہ اس کی لپیٹ میں سب آ جائیں اور دنیا ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے درمیان براہ راست سکتا ہے رہے ہیں کے لیے کا ایک اور اس

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ، ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا کتنا ذخیرہ موجود ہے؟

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے بیچ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر حملوں کے نتیجے میں عالمی معیشت بھی متاثر رہی ہے، ایران اسرائیل کشیدگی کے باعث تیل کی قیمت 76.45 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی، تاہم اوگرا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کا ذخیرہ وافرمقدارمیں موجود ہے۔

ترجمان اوگرا کا کہنا ہے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز 20روزہ لازمی ذخائر برقراررکھیں، او ایم سیز کو لائسنس کی شرائط کے مطابق اسٹاک یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل میں کشیدگی طول پکڑتی رہے گی تو تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

ماہرین کے مطابق تیل مہنگا ہونے سے دنیا بھر میں مہنگائی کی نئی لہر آنے کا خدشہ ہے، عالمی منڈیوں میں بے یقینی کی صورت حال پر سرمایہ کاروں کا سونے اور محفوظ اثاثوں کی طرف رجحان ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ ایران نے خبردارکیا ہے کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کا آپشن موجود ہے، دشمنوں کی جارحیت پر سمندر کے تجارتی راستے کو بند کیا جاسکتا ہے۔
مزیدپڑھیں:وزیر اعظم کا ایرانی صدر کو فون ، امریکی حملوں کی مذمت

متعلقہ مضامین

  • شمالی کوریا: امریکی حملوں کی شدید مذمت، اسرائیل کشیدگی کا ذمہ دار قرار
  • ایران اسرائیل کشیدگی، خام تیل 5 ماہ کی بلند ترین سطح پر
  • تیسری عالمی جنگ کاخدشہ،روس کاایران کی مدد کااعلان
  • قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس آج، علاقائی صورتحال پر مشاورت ہوگی
  • ایران اسرائیل جنگ، ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا کتنا ذخیرہ موجود ہے؟
  • ایران پر امریکی حملہ علاقائی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے، علامہ قاضی نادر علوی 
  • داخلی سیکیورٹی کا سنگین چیلنج
  • شیطان کی خام خیالی کا اختتام
  • ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان امن کیلیے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے، امریکا