Jasarat News:
2025-11-06@16:08:12 GMT

ایران، اسرائیل، عالمی چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مشرق وسطیٰ، وہ قدیم سرزمین جہاں تہذیبوں نے جنم لیا اور تاریخ نے کروٹیں بدلیں، آج ایک بار پھر شدید اضطراب کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں ایک ایسی کشمکش پنپ رہی ہے جو بظاہر فریقین کے درمیان محدود نظر آتی ہے، مگر جس کے شعلے عالمی امن و استحکام کو بھسم کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری اس نازک اور خطرناک کشیدگی کی، جس کے تاریک سائے عالمی سیاست، عالمی معیشت اور انسانیت کے مستقبل پر گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صرف نقشے پر موجود چند لکیروں کے پیچھے چھپا ہوا کوئی علاقائی تنازع نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا آتش فشاں ہے جس کا لاوا اگر پھٹ گیا تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، جس کے تباہ کن اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
اس کشمکش کی گہری جڑیں 1979 کے ایرانی انقلاب میں پیوست ہیں۔ وہ انقلاب جس نے ایران میں صدیوں پرانے شاہی نظام کا خاتمہ کیا اور ایک اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی، وہی تاریخی لمحہ تھا جب ایران نے کھل کر اسرائیل کو ایک ’’غاصب‘‘ اور ناجائز ریاست قرار دے کر فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کا بیڑا اٹھایا۔ یہ محض ایک سیاسی اعلان نہیں تھا بلکہ ایک گہری نظریاتی بنیاد تھی جس نے وقت کے ساتھ ساتھ دونوں فریقوں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج پیدا کر دی۔ اسرائیل کے لیے ایران کا تیزی سے بڑھتا ہوا جوہری پروگرام، اس کی جدید میزائل صلاحیتیں، اور لبنان کی حزب اللہ، غزہ کی حماس جیسے علاقائی پراکسیز کی مسلسل حمایت اس کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست اور ناقابل قبول خطرہ بن چکی ہے۔ دوسری جانب ایران اسرائیل کو خطے میں امریکی اثر رسوخ کا نمائندہ اور فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا سب سے بڑا غاصب تصور کرتا ہے، جس سے دشمنی کی آگ مزید بھڑکتی ہے۔
آج کی صورتحال انتہائی پیچیدہ اور ایک پراکسی وار کے خطرناک جال سے بْنی ہوئی ہے۔ عراق، شام، یمن اور لبنان جیسے ممالک طویل عرصے سے اس پراکسی جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں، جہاں دونوں فریق براہ راست فوجی تصادم سے گریز کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف بالواسطہ طور پر اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شام میں اسرائیلی فضائی حملے، جن کا مبینہ مقصد ایران کے فوجی اڈوں اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت کو روکنا ہوتا ہے، اس پراکسی جنگ کا ایک کھلا ثبوت ہیں۔
یہ تنازع محض علاقائی نہیں بلکہ اس کے عالمی اثرات بھی انتہائی گہرے اور دور رس ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں کسی بھی بڑے فوجی تصادم سے عالمی تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ عالمی سپلائی چینز بری طرح متاثر ہوں گی اور متعدد معیشتیں ایک نئے شدید بحران کا شکار ہو سکتی ہیں۔ مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام اور دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافے سے دنیا کا ہر خطہ متاثر ہوگا، ترقی پذیر ممالک پر اس کا بوجھ کہیں زیادہ ہوگا۔ علاقائی استحکام مزید خطرے میں پڑ جائے گا، اور مہاجرین کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے جو شام اور یمن جیسے ممالک سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ کرے گا۔
بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں امریکا کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا، اسرائیل کا ایک دیرینہ اور مضبوط اتحادی ہونے کے ناتے، اس تنازعے میں اپنی پالیسیوں کے ذریعے انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جیسن وِلک جیسے تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسرائیل کی طویل مدتی اسٹرٹیجک پوزیشن کا انحصار بڑی حد تک امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات پر ہے۔ دوسری جانب، چین اور روس، جو ایران کے اہم اتحادی ہیں، اس صورتحال کو اپنے علاقائی مفادات اور عالمی طاقت کے توازن کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے ادارے سفارتی حل پر زور دے رہے ہیں، فرانس کے صدر ماکروں نے ایرانی صدر پزشکیان کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی ہے، اور پوپ لیو چہارم نے بھی دونوں فریقوں سے ذمے داری اور دانش مندی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے جوہری خطرے سے پاک دنیا کے لیے مخلصانہ مکالمے پر زور دیا ہے، لیکن ان کی کوششیں اکثر بے بسی کی تصویر پیش کرتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی یہ سلگتی ہوئی کشیدگی پاکستان کے لیے بھی گہرے مضمرات رکھتی ہے، نہ صرف اس کی جغرافیائی قربت اور تاریخی روابط کی وجہ سے بلکہ اس کے اسلامی دنیا اور علاقائی امن میں ایک اہم کردار کے پیش نظر بھی۔ پاکستان، جو ایک جوہری طاقت ہے اور اسلامی دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی پر مشتمل ہے، ہمیشہ سے خطے میں استحکام اور امن کا خواہاں رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی بڑے اور براہ راست فوجی تصادم کی صورت میں، پاکستان پر علاقائی امن کی بحالی اور سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
جدید دور کی جنگیں اب صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہتیں۔ سائبر سیکورٹی کا میدان بھی اس تنازعے کا ایک اہم اور پوشیدہ حصہ بن چکا ہے جہاں غیر مرئی حملے کیے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر سائبر حملوں کا الزام لگاتے ہیں، جن کا مقصد اہم سرکاری اداروں، بنیادی ڈھانچے اور مواصلاتی نظام کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ یہ سائبر حملے عالمی نیٹ ورکس اور انفرا اسٹرکچر کے لیے ایک پوشیدہ لیکن انتہائی سنگین خطرہ ہیں، کیونکہ سائبر جنگ کی کوئی جغرافیائی سرحد نہیں ہوتی۔ ان حملوں سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ عالمی مالیاتی نظام اور مواصلاتی نیٹ ورکس بھی شدید خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
مستقبل کے منظرنامے کی بات کریں تو دو بڑے اور واضح راستے نظر آتے ہیں جن میں سے کوئی ایک رخ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک راستہ سفارت کاری اور مخلصانہ مذاکرات کا ہے، جہاں عالمی برادری کی بھرپور اور نتیجہ خیز کوششوں سے کشیدگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے تمام فریقوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مشترکہ مفادات کی خاطر تنازعات کے حل کی طرف بڑھنا ہوگا۔ دوسرا راستہ براہ راست تصادم اور تباہی کا ہے، جہاں ایک وسیع تر جنگ نہ صرف خطے کو بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس وقت ایک غلط قدم بھی ناقابل تلافی اور لرزہ خیز نقصان کا باعث بن سکتا ہے، جس کے نتائج شاید نسلوں تک بھگتنا پڑیں۔
آخری بات کہ یہ محض دو ممالک کے درمیان کا جھگڑا نہیں، بلکہ عالمی امن اور پوری انسانیت کے مستقبل کا انتہائی اہم سوال ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ نفرت اور تصادم کا راستہ صرف اور صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے، اور اس کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ عالمی برادری کو، بشمول بڑی طاقتوں اور علاقائی رہنماؤں کو، اس وقت اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات اور پرامن حل کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔ انسانی جانوں کے تحفظ اور عالمی استحکام کو یقینی بنانا ہماری سب سے بڑی اور اولین اجتماعی ذمے داری ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس آتش فشاں کو ٹھنڈا کریں، اس سے پہلے کہ اس کی لپیٹ میں سب آ جائیں اور دنیا ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے درمیان براہ راست سکتا ہے رہے ہیں کے لیے کا ایک اور اس

پڑھیں:

اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-01-21
واشنگٹن /غزہ /تل ابیب (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کی ہے کہ غزہ میں ایک بین الاقوامی سیکورٹی فورس (ISF) قائم کرنے کی منظوری دی جائے، جو کم از کم 2 سال کے لیے تعینات رہے گی۔ امریکی ویب سائٹ ایکسِیوس کے مطابق امریکا نے یو این ایس سی کے رکن ممالک کو ایک ڈرافٹ قرارداد کا ارسال کیا ہے، جس میں فورس کے اختیارات، ذمہ داریاں اور قیام کی تفصیلات شامل ہیں، یہ فورس غزہ بورڈ آف پیس کے مشورے سے تشکیل دی جائے گی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ڈرافٹ کے مطابق فورس کو غزہ کی سرحدی سیکورٹی، عام شہریوں اور امدادی راہداریوں کے تحفظ، فلسطینی پولیس کی تربیت، اور علاقے کو غیر عسکری بنانے کی ذمہ داری سونپی جائے گی، فورس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق تمام ضروری اقدامات کرے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایس ایف ایک فورس ہوگی، امن مشن نہیں۔ اس کا مقصد غزہ میں عبوری سیکورٹی فراہم کرنا ہے تاکہ اسرائیل بتدریج علاقے سے انخلا کرے اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کے بعد انتظام سنبھال سکے‘ غزہ کی سول انتظامیہ ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے ذریعے چلائی جائے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ابراہم کارڈ میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے۔ صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یقین نہیں کہ آیا دو ریاستی حل ہوگا، مسئلہ کا حل اسرائیل اور مجھ پر منحصر ہے۔ اسرائیلی فوج کی جیل سے فلسطینی قیدی پر تشدد کی وڈیو لیک کرنے کے بعد استعفا دینے والی اعلیٰ عہدیدار کو گرفتار کرلیا گیا۔ میجر جنرل یفات تومر یروشلمی، ملٹری ایڈووکیٹ جنرل تھیں، لیک وڈیو اگست2024 میں اسرائیلی چینل نے نشر کی تھی۔ وڈیو میں اسرائیلی فوجیوں کو سدی تیمان جیل میں فلسطینی قیدی کو تشدد کا نشانہ بناتے دکھایا گیا تھا۔تشدد کے بعد قیدی کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا، واقعے کے بعد 5 اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی وڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا افسر کو حراست میں لے لیا گیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انہوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔امن کے دشمن اسرائیل کی دہشت گردی تھم نہ سکی، غزہ امن معاہدے کی بار بار خلاف ورزیاں جاری رہیں۔ صہیونی فضائیہ نے خان یونس اور جنوبی غزہ پر بمباری کی، دیر البلاح کے مشرقی علاقوں میں اسرائیلی توپ خانے سے بھی گولہ باری کی گئی، مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور آبادکاروں کے حملے میں 3 فلسطینی شہید ہوگئے، غزہ امن معاہدے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہادتوں کی تعداد 236 ہو گئی۔ اسرائیل نے مزید 5 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ۔الجزیرہ نے اطلاع دی ہے کہ گزشتہ روز کو آزاد کیے گئے 5 افراد کو طبی معائنے کے لیے دیر البلح کے الاقصی اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ان کے رشتہ داروں کا ہجوم جمع ہوا، کچھ نے رہائی پانے والے قیدیوں کو گلے لگایا ‘غزہ میں فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے 45فلسطینی شہدا کی لاشیں موصول ہوئیں جنہیں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے حوالے کیا گیا۔ اس طرح قابض اسرائیل سے موصول ہونے والی شہدا کی لاشوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 270 ہوگئی ہے‘غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں مزاحمتی سیکورٹی فورس کی ایک خفیہ اور اہم کارروائی میں 5 غداروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی علی الصبح عمل میں لائی گئی جسے مزاحمتی سیکورٹی کے ذیلی یونٹ رادع فورس نے انتہائی مہارت اور رازداری کے ساتھ انجام دیا۔ گرفتار افراد حسام الاسطل نامی ملیشیا سے وابستہ تھے جو دشمن کے لیے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اس کارروائی کے دوران اسلحہ اور بڑی مقدار میں نقد رقم بھی برآمد کی گئی ۔ سیکورٹی ذرائع نے واضح کیا کہ دشمن سے وابستہ یا قابض اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی جاری رہے گی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • صدرِ مملکت کی چین کے نائب صدر سے ملاقات،علاقائی و عالمی فورمز پر قریبی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • جنرل ساحر شمشاد کا برونائی کا دورہ، علاقائی اور عالمی سلامتی امور پر تبادلہ خیال
  • ایران نے پاکستان سے 3 لاکھ 50 ہزار مویشی درآمد کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا
  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • اسرائیل کی حمایت بند کرنے تک امریکا سے مذاکرات نہیںہونگے، ایران
  • اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کیسے شہید کیا؟ ایران نے حیران کن تفصیلات جاری کردیں
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای