پس ثابت ہوا جھوٹ کے بھی پاؤں ہوتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
ایران کے معاملے پر انقرہ میں اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے ہنگامی وزراِ خارجہ اجلاس نے وہی کیا جس کے لیے وہ چھپن برس سے مشہور ہے۔یعنی ایران کے خلاف جارحیت رکوانے کے لیے ایک رابطہ گروپ کا قیام جو بین الاقوامی برادری سے رابطہ کر کے کوئی حل نکالے۔کانفرنس نے ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے پر بھی ’’شدید تشویش‘‘ ظاہر کرتے ہوئے ’’ خبردار ‘‘ کیا کہ اس مہم جوئی سے علاقے میں تناؤ اور بڑھے گا۔
میں کئی برس سے سوچ رہا ہوں کہ اگر اردو میں ’’شدید تشویش‘‘ کی اصطلاح نہ ہوتی تو مسلمان دنیا کس اصطلاح کو بطور تکیہ استعمال کرتی؟
وہ یورپی ممالک جنھوں نے یوکرین کے ایک جوہری بجلی گھر پر روسی میزائل حملہ ہوتے ہی آسمان سر پے اٹھا کر روس کو ایک خطرناک کھیل شروع کرنے کا مجرم ٹھہرایا۔وہی یورپ ایرانی جوہری تنصیبات کو مسلسل اور مشترکہ نشانہ بنانے پر نہ صرف مطمئن بلکہ ایران سے مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ یقین دلائے کہ کبھی ایٹم بم نہیں بنائے گا۔حالانکہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے ) اور امریکی انٹیلی جینس اداروں کی نگراں تلسی گیبارڈ کی گواہی کے بعد ایران کو یہ حلف دینے کی ضرورت نہیں کہ اس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا نہ پہلے ارادہ تھا نہ اب ہے۔
ایران اور امریکا اومان میں اس دن ( چودہ جون) اسی مسئلے پر چھٹی بار مذاکرات کرنے والے تھے جس سے ایک دن پہلے اسرائیل کے لگ بھگ دو سو طیاروں نے ہلہ بولا۔جب کہ جنیوا میں یورپی وزراِ خارجہ سے ایرانی وزیرِ خارجہ کی پہلی ملاقات کے ایک روز بعد (بائیس جون ) ہی امریکا نے ایران پر حملہ کر کے بقول ٹرمپ ایرانی ایٹمی پروگرام کو ’’ تہس نہس ‘‘ کر دیا۔
جو یورپی ممالک (برطانیہ ، فرانس ، جرمنی) ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنے کا کہہ رہے ہیں۔انھی ممالک میں سے ایک جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز کے منہ سے نکل گیا کہ اسرائیل دراصل ہمارا ’’ ڈرٹی ورک ‘‘ کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کسی بھی ممکنہ امریکی کاروائی دو ہفتے تک نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔تاکہ یورپی سفارت کار ایران کے ساتھ بیٹھ کے کوئی حل نکال سکیں۔ جب امریکا نے اپنی ہی ڈیڈ لائن توڑتے ہوئے چلتی بات چیت کے دوسرے ہی روز حملہ کر دیا تو ایران کو گفتگو میں مصروف کرنے والے جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ٹرمپ سے اپنی سفارتی توہین پر باقاعدہ احتجاج کرنے کے بجائے امریکی کارروائی کا پرجوش خیرمقدم کیا۔
اگر اسرائیل اور امریکا نے مل کے ایرانی جوہری پروگرام ’’ تہس نہس ‘‘ کر ہی دیا ہے تو اس کے بعد بھی حملے کیوں نہیں رکے ؟ یورپ اب بھی ایران سے بات چیت کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے۔بقول ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی ’’ اب اگر ایران کی ایٹمی تنصیبات واقعی تباہ ہو گئی ہیں تو اس کے بعد یورپ اور امریکا ایران سے آخر کس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں ‘‘ ؟ کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے ؟
حالانکہ ایران کا کوئی میزائل یورپ اور امریکا تک مار نہیں کر سکتا۔مگر یورپ اس لیے خوش ہے کیونکہ رائے عامہ کے بوجھ سے مجبور ہو کر برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کی اسٹیبلشمنٹ نے فلسطینیوں کے بارے میں جو ہمدردانہ زبانی جمع خرچ شروع کر دیا تھا اور نسل کشی بند کرنے کے لیے ممکنہ اقتصادی پابندیاں حرکت میں لانے کی اسرائیل کو جو نیم دلانہ دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اب ایران کی صورت میں نیا ولن مل جانے کے بعد یورپ کو ’’ ضمیر ‘‘ کے بوجھ سے نجات مل گئی ہے اور وہ پہلے کی طرح آنکھ بند کر کے اسرائیل کی حمائیت کر سکتا ہے۔کہاں دو ہفتے پہلے تک فرانس اسرائیل کو فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور کہاں اب صدر میخواں ایرانی خطرے کے سدِباب کے لیے اسرائیل کے ’’ پیشگی حقِ دفاع ‘‘ کے وکیل بن چکے ہیں۔
اسرائیل کو فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ ایران سے جنگ پر مرکوز ہو گئی اور غزہ فی الحال پس منظر میں چلا گیا۔وہاں اسرائیل امداد کے متلاشی بھوکے فلسطینیوں کو روزانہ سو دو سو کے حساب سے اطمینان سے ختم کر رہا ہے۔
طویل المعیاد فائدہ یہ ہوا کہ لبنان میں حزب اللہ کے خاتمے ، شام میں حکومت کی تبدیلی اور عراق کے معلق ہونے کے نتیجے میں لبنان تا ایران جو اسرائیل دشمن ہلال (کریسنٹ) قائم تھی اس کے ٹکڑے ہو گئے۔اب اگر اسرائیلی خواہش کے مطابق ایرانی حکومت بھی معزول ہوجاتی ہے تو خطے میں اسرائیل کو زک پہنچانے والا ایک بھی قابلِ ذکر ملک باقی نہیں بچے گا۔
یوں اسرائیلی اثر و نفوذ زاہدان کی سرحد تک آ جائے گا۔اگلی منزل پاکستان ہے جو اسرائیل سے خوفزدہ مشرقِ وسطی اور بھارت کے درمیان سینڈوچ کے کباب میں آخری ہڈی ہے۔
گزشتہ ماہ جب صدر ٹرمپ نے تین خلیجی ممالک ( سعودی عرب ، امارات ، قطر ) کا دورہ کیا اور لگ بھگ ساڑھے چار ٹریلین ڈالر کے تجارتی اور اسلحہ سجھوتے اور ایک بوئنگ جہاز کا تحفہ وصول کیا۔تب انھوں نے اپنے میزبانوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ایران اور امریکا کے مابین بات چیت اچھے سے آگے بڑھ رہی ہے اور کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔
صدر ٹرمپ نے بس یہ بات میزبانوں کو نہیں بتائی کہ امریکا نے جو شرائط ایران کے سامنے رکھی ہیں انھیں یقین ہے کہ وہ کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔
( ایران پر امریکی حملے کے چند گھنٹے بعد امریکا کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ڈان کین نے پنٹاگون میں ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ ایران پر حملے کی تیاری کئی ماہ سے جاری تھی۔’’ آپریشن مڈ نائٹ ہیمر ‘‘ میں بی ٹو بمبار طیاروں سمیت ایک سو پچیس لڑاکا اور امدادی طیاروں نے حصہ لیا اور تین جوہری ٹھکانوں پر تیس تیس ہزار پاؤنڈ وزن کے چودہ بنکر توڑ بم گرائے گئے )۔
صدر ٹرمپ کے خلیجی ممالک میں قیام کے دوران اس حسنِ اتفاق پر بھی بہت سے علاقائی تبصرے بازوں نے بغلیں بجائیں کہ ٹرمپ نے اس دورے میں اسرائیل کو نظرانداز کیا ہے۔ورنہ ہر امریکی صدر مشرقِ وسطی کے دورے میں تل ابیب میں ضرور رکتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو سے بیزار ہے۔
تیرہ جون کو اسرائیل کی ایران پر یلغار اور بائیس جون کو براہِ راست امریکی حملے کے بعد جس طرح ٹرمپ اور نیتن یاہو نے ایک دوسرے کی فراست کو خراجِ تحسین پیش کیا۔اس کے بعد آپ کو ’’ دو طرفہ بیزاری ‘‘ کے امریکی معنی شاید سمجھ میں آ ر ہے ہوں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیل کو اور امریکا امریکا نے کر رہا ہے کہ ایران ایران پر ایران سے ایران کے
پڑھیں:
حماس کا صدر ٹرمپ کو خط، غزہ جنگ بندی کے لیے بڑی پیشکش کردی، امریکی ٹی وی
فوکس نیوز نے کہا ہے کہ حماس نے اس خط میں 60 روزہ جنگ بندی کے بدلے اسرائیل کے نصف قیدیوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری غزہ جنگ میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس سے خطے میں پائیدار امن کے امکانات روشن ہوگئے۔ امریکی چینل فوکس نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے غزہ جنگ بندی سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک اہم خط بھیجا ہے۔ حماس نے اس خط میں 60 روزہ جنگ بندی کے بدلے اسرائیل کے نصف قیدیوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز نے ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار اور براہِ راست مذاکرات میں شامل ایک ذریعے کے حوالے سے یہ خبر جاری کی ہے۔ بعدازاں اس رپورٹ کی تصدیق اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی اپنی آزاد ذرائع سے کی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ خط فی الحال قطر کے پاس ہے اور رواں ہفتے کے آخر میں صدر ٹرمپ کو پیش کیا جائے گا۔
تاہم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حماس نے ابھی تک اس خط پر باضابطہ دستخط نہیں کیے لیکن آئندہ دنوں میں ایسا کیے جانے کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ قطر قیدیوں کی رہائی کے لیے ثالثی کر رہا تھا تاہم اسرائیل نے دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنایا جس پر قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کر دی تھیں۔ یاد رہے کہ حماس نے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کو حملہ کیا تھا اور 251 افراد کو قیدی بناکر غزہ لے آئے تھے۔ اس وقت بھی حماس کی قید میں 48 اسرائیلی ہیں۔ تاہم اندازہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے نصف یرغمالی مر چکے ہیں چنانچہ تقریباً 20 زندہ اور بقیہ کی لاشیں واپس لانے کے لیے مذاکرات جاری تھے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے نام یہ خط اس وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں اہم اجلاس جاری ہے۔
اس اجلاس میں کم از کم 6 مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے اور اس حوالے سے متفقہ قرارداد لائے جانے کا امکان بھی ہے۔ تاہم امریکا اور اسرائیل نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے آج ہونے والے تاریخی اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔