نیشنز ہاکی کپ؛ فائنل کھیلنے والی ٹیم سے “غیروں” جیسا سلوک
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
نیشنز ہاکی کپ کا فائنل کھیلنے والی ٹیم کو سپورٹ کرنے کیلئے کوئی آفیشل یا حکومتی نمائندہ کھلاڑیوں کو لینے تک ائیرپورٹ نہ پہنچا۔
نجی ٹی وی کے مطابق 22 جولائی کو ملائیشیا سے وطن واپس لوٹنے والی قومی ٹیم ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کے استقبال کیلئے بھی کوئی حکومتی نمائندہ نہ پہنچا جبکہ شائقین اور اہلخانہ نے اپنے پلئیرز کو سپورٹ کیا۔
قومی ہاکی ٹیم کے کپتان عماد بٹ نے سوشل میڈیا پر گروپ فوٹو شیئر کی اور لکھا کہ “ہم ہارے نہیں ہیں، ہم نے دل جیتے ہیں، ہم نے ہاکی کو دوبارہ زندہ کیا”۔
عماد بٹ نے لکھا کہ “11 سال کے طویل عرصے کے بعد فائنل میں پہنچنا صرف ایک سنگ میل نہیں تھا بلکہ یہ ایک پیغام تھا، پاکستان پھر سے ابھر رہا ہے، یہ چاندی کا تمغہ ہار نہیں ہے بلکہ امید اور یقین ہے”۔
انہوں نے کہا کہ “آج ٹرافی ہمارے ہاتھ سے ضرور پھسل گئی ہے لیکن ہمارے اندر کی آگ پہلے سے زیادہ روشن ہے، وہ دن دور نہیں جب ہم ٹرافی گھر لائیں گے”۔
قومی ہاکی ٹیم کے کپتان نے عزم کا اظہار کیا کہ “یہ پاکستان ہاکی کیلئے ایک نئے باب کا آغاز ہے، آپ کے دل، آپ کے اتحاد اور بھرپور جذبے کا شکریہ! قوم کی دعاؤں اور سپورٹ نے ہمیں آگے بڑھایا، ہم آخری سانس تک لڑیں گے! سفر جاری ہے، خواب زندہ رہتا ہے۔ پاکستان زندہ باد”۔
View this post on InstagramA post shared by Ammad Butt (@ammadbutt_16)
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے زندہ ہونے کے قابلِ تصدیق شواہد موجود ہیں،سیکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوشن فار مسنگ پرسنز اِن سیریا کی چیئرپرسن کارلا کوئنٹانا نے استنبول میں ہونے والے TRT ورلڈ فورم 2025 کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لاپتہ افراد جنسی غلامی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہا ہے جن میں شامی حکومت کی تحویل میں لاپتہ افراد، داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہری، لاپتہ بچے اور ہجرت کے دوران گمشدہ مہاجرین شامل ہیں،دس ماہ قبل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شام میں جا کر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہوگی مگر اب ہمیں ملک کے اندر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، ہم اس وقت سینکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل شام کے اندر رہ کر مقامی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے، تاہم بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، ادارہ اس وقت شام کی حکومت کے ماتحت قائم نیشنل کمیشن فار دی سرچ آف دی مسنگ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس کی سربراہی ریٹا یالی کر رہی ہیں۔
کوئنٹانا نے کہا کہ یہ دنیا کی پہلی مثال ہے کہ ایک ہی وقت میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر دو ادارے لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں، اس وقت ادارے کے پاس تقریباً 40 ملازمین ہیں، لیکن بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر مزید تعاون ضروری ہے،کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا، ہمیں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں، رکن ممالک، شامی سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
کارلا کوئنٹانا کاکہناتھا کہ فارنزک سائنس اور جدید ٹیکنالوجی لاپتہ افراد کی شناخت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،جب ہم فارنزک سائنس کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف مردہ افراد کے لیے نہیں، بلکہ زندہ افراد کی شناخت میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد سازی سب سے اہم مرحلہ ہے، اگر خاندان، حکومت اور عالمی ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ناممکن ہو جائے گا،ہم پہلے ہی بہت تاخیر کر چکے ہیں، مزید تاخیر کی صورت میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کا حق ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں، ہم شام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کی تلاش میں پہلے ہی تاخیر کر چکے ہیں۔ خاندانوں کو سچ جاننے کا حق فوری طور پر حاصل ہے، مگر یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔