قابض شہری و صوبائی حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے، ایم کیو ایم ارکانِ سندھ اسمبلی
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
ایک بیان میں متحدہ کے اراکینِ سندھ اسمبلی نے مزید کہا کہ نام نہاد میئر پارٹی ترجمان بننے کے بجائے فرائض منصبی ادا کرنے میں اپنی توانائی سرف کریں تو نقصان سے کسی حد تک محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اراکینِ سندھ اسمبلی نے متوقع بارشوں کے پیشِ نظر خاطر خواہ حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے جانے کو نام نہاد شہری و صوبائی حکومت کی نااہلی قرار دیتے ہوئے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ متوقع بارشوں کے بڑھتے امکانات اور انتظامی غفلت ایک بار پھر شہر کے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے، مسلسل نشاندہی کے باوجود سڑکوں اور نالوں کی صفائی کے نام پر قابض شہری و صوبائی حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے، عرصہ دراز سے گلی کوچوں چوک چوراہوں پر جمع کچرے کے انبار بارشوں میں سہل آمد و رفت کو جام اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں جس کی جانب انتظامیہ کی توجہ بلکل نہیں ہے نیز نالوں پر قائم تجاوزات عمارتوں پر لگے دیوہیکل ہورڈنگس کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ حق پرست اراکینِ سندھ اسمبلی نے مزید کہا کہ نام نہاد میئر پارٹی ترجمان بننے کے بجائے فرائض منصبی ادا کرنے میں اپنی توانائی سرف کریں تو نقصان سے کسی حد تک محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سندھ اسمبلی
پڑھیں:
88فیصد غزہ اہل فلسطین سے خالی ۔ اسرائیل نے شہر کا 70 فیصدحصہ تباہ کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: اسرائیل کے جبری انخلا کے احکامات اور مسلسل بمباری و دھماکوں کے نتیجے میں غزہ کی زمین کا 88فیصد سے زائد حصہ اہلِ فلسطین سے خالی کرایا جا چکا ہے۔ اب محصور عوام کو محض 12فیصد علاقے میں ٹھونسنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق قابض اسرائیل نے اپنی منصوبہ بندی میں محض 12 فیصد زمین کو پناہ گزین علاقوں کے طور پر مختص کیا ہے، جہاں دو ملین سے زائد انسانوں کو ایک قید خانے کی طرح دھکیل دیا گیا ہے۔دفتر کا کہنا ہے کہ صرف خان یونس کے المواصی علاقے میں ہی تقریباً دس لاکھ افراد پناہ لینے پر مجبور ہیں حالانکہ ان پر 110 سے زائد فضائی حملے کیے گئے اور دو ہزار سے زیادہ شہری شہید ہو چکے ہیں۔
یہ علاقے بنیادی زندگی کی ہر سہولت سے محروم ہیں اور یہاں جینا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ غزہ شہر میں اس وقت سب سے ہولناک منظر نامہ ہے۔ انروا کے میڈیا مشیر عدنان ابو حسنہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ لاکھوں شہری محض دس مربع کلومیٹر کے رقبے میں سمٹنے پر مجبور ہیں، جہاں وہ یا تو ٹوٹے پھوٹے خیموں میں رہتے ہیں یا اپنے اجڑے گھروں کے ملبے کے سائے میں۔ پانی، خوراک اور بنیادی خدمات ناپید ہیں۔
ابو حسنہ کے مطابق عالمی ادارہ خوراک نے غزہ کو قحط زدہ علاقہ قرار دیا ہے اور اب حالات مزید بدتر ہو چکے ہیں۔ جنوب کی طرف نقل مکانی کے لیے ایک خاندان کو اوسطاً 3200 ڈالر درکار ہیں جو تقریباً کسی کے پاس نہیں۔ اس وقت 95فیصد سے زیادہ آبادی صرف انسانی امداد پر زندہ ہے جبکہ تنخواہیں اور نقدی ناپید ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل نے غزہ شہر کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ تباہ کر دیا ہے۔ یہ وہ قدیم شہر ہے جس کی تاریخ پانچ ہزار برس پرانی ہے اور جو اسلامی، مسیحی، بازنطینی اور فرعونی آثار کا امین ہے۔
ابو حسنہ نے بتایا کہ جنوبی غزہ میں بھی حالات مختلف نہیں۔ شدید ہجوم کی وجہ سے وہاں اب نئی خیمہ گاہ لگانے کی جگہ باقی نہیں رہی۔ پینے کا پانی، نکاسی کا نظام اور صحت کی سہولتیں مفلوج ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ 12 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو محض 35 مربع کلومیٹر کے علاقے میں جبراً قید کیا جا رہا ہے۔ یہ کھلی انسانی تباہی ہے۔ مزید یہ کہ اندیشہ ہے کہ قابض اسرائیل فلسطینیوں کو سمندر یا فضا کے راستے غزہ سے مکمل طور پر باہر نکالنے کی کوشش کرے گا کیونکہ مصر نے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔