کوئٹہ میں پی ٹی آئی جلسے کے پیش نظر شہر بھر کے راستے بند، موبائل انٹرنیٹ معطل
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
کوئٹہ:
پی ٹی آئی اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کی جانب سے آج ہاکی گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے جلسے کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے شہر بھر کے تمام راستوں کو ٹرکوں اور کنٹینرز لگا کر بند کر دیا جبکہ موبائل انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث جلسے کی اجازت مسترد کر دی گئی ہے، تاہم پی ٹی آئی نے ہر صورت جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق، پی ٹی آئی اور تحریک تحفظ آئین پاکستان نے آج ہاکی گراؤنڈ میں جلسے کا اعلان کیا تھا مگر سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اجازت نامہ مسترد کر دیا گیا۔ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ وہ کسی صورت بھی جلسہ ہونے نہیں دیں گے۔
اس سلسلے میں صوبے بھر میں ایک مہینے کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، جس کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ شہر میں جگہ جگہ پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے بچا جا سکے۔ راستوں کی بندش سے شہریوں، خاص طور پر اسکول اور کالج جانے والے طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
متعدد طلبہ نے بتایا کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچ سکے، جس سے ان کی کلاسز متاثر ہوئی ہیں۔ شہر کی اہم شاہراہیں اور چوراہے مکمل طور پر بند ہونے سے ٹریفک جام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور لوگ گھنٹوں انتظار میں پھنسے رہے۔
دوسری جانب، پی ٹی آئی قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ آج ہر صورت ہاکی گراؤنڈ میں جلسہ کریں گے۔ پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ جلسہ آئین کی بالادستی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے ہے، اور انتظامیہ کی پابندیوں کے باوجود وہ اپنے منصوبے پر عمل درآمد کریں گے۔
انتظامیہ نے شہر میں موبائل انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی ہے جس سے مواصلات اور روزمرہ امور مزید متاثر ہو رہے ہیں۔ صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو الرٹ کر دیا گیا ہے اور شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں۔
یہ صورتحال بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا رہی ہے جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی گئی ہے کر دیا
پڑھیں:
پی ٹی آئی سیاسی راستے کی تلاش میں
تحریک انصاف ایک مشکل وقت سے دوچار ہے اور سیاسی راستے کی تلاش میں ہے۔ایک ہی وقت میں پارٹی کے اندر اور بیرون مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنماؤں کوعدالت سے بھی وہ ریلیف نہیں مل رہا جو وہ چاہتے ہیں ۔
اس وقت وہ عملاً سیاسی میدان سے باہر ہیں، کچھ مفرور ہیں، اور جو باہر ہیں، وہ سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو قانونی اور انتظامی بنیادوں پر جلسے پرامن رکھنے کی یقین دہانیوں کا سامنا ہے جو ایک مشکل کام ہے۔پی ٹی آئی میں وہ سیاسی دھڑا جو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت یا سیاسی راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا، اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ بانی پی ٹی آئی سمیت ان کی اہلیہ ،بہنوں ، رشتے داروں سمیت ان کی پارٹی کے نظر بند ساتھیوں کو بدستور کوئی بڑی سہولت یا ریلیف نہیں مل سکا ۔
بہرحال یہ حقیقت قومی سیاست اس وقت بھی ان ہی کے گرد گھوم رہی ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے نوجوان سہیل آفریدی کی بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا تقرری نے واقعی سب کو پریشان کردیا ہے۔ وہ ابتدا ہی میں جارحانہ انداز اپنائے نظر آئے ہیں اور وہ مزاحمتی بیانیہ اختیار کرکے پی ٹی آئی کے حلقوں میں مقبول ہوئے ہیں ۔ جلسوں، قبائلی عمائدین کے ساتھ امن جرگہ اور صوبائی معاملات پر انھوں نے سخت موقف لیا ہے۔
وہ خیبر پختونخوا میں براہ راست پارٹی ورکرز اور ووٹرز سے جڑے ہیں اور ان کو بنیاد بنا کر بانی پی ٹی آئی کا بیانیہ پیش کررہے ہیں ۔ان کے بقول ان کے تمام تر فیصلے بانی پی ٹی آئی کے فیصلے ہیں اورہوںگے اوران فیصلوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے۔بانی پی ٹی آئی بڑی سیاسی تحریک کو ترتیب دے رہے ہیں جس میں اسلام آباد کی طرف ایک بار پھر لانگ مارچ کا اعلان ہے۔امکان ہے کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی اس کا اعلان صوبے میں انصاف اسٹوڈنٹس فیدڑیشن کے کنونشن میں کریں گے جو نومبر کے تیسرے یا آخری ہفتہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ سہیل آفریدی کی تقرری نے خیبر پختونخوا میں پارٹی گروپ بندی یا اختلافات کو بھی کم کیا ہے ۔
سہیل آفریدی کا لب ولہجہ ظاہر کرتا ہے کہ فوری طور پر حکومت اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کے امکانات کم ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے خلاف بڑا سیاسی ٹکراؤ دیکھنے کو ملے گا۔بانی پی ٹی آئی نے ان دو برسوں میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جو بھی مفاہمت کے کارڈ بذریعہ پارٹی کھیلے ہیں، ان میں ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی ۔اب بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی یا پارٹی پر جو مشکلات ہیں، وہ سڑکوں پر آئے بغیر ممکن نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی بات سامنے آئی ہے اور اس کی کامیابی کے لیے خیبر پختونخواہ یا نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی طرف دیکھا جارہا ہے۔لیکن کیا وزیر اعلیٰ اس لانگ مارچ میں سابقہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سے مختلف ثابت ہوسکتے ہیں ؟اور کیا وہ لاکھوں افراد کو اسلام آباد کی طرف لاسکیں گے ؟سہیل آفریدی کا پہلا بڑا چیلنج ہی بانی پی ٹی آئی کے حق میں مزاحمت کی سیاست کو ابھارنا ہے ، ان کا مستقبل بھی اسی نقطہ سے جڑا ہوا ہے۔
کیا وہ لانگ مارچ کر پائیں گے یا وہ بھی ماضی کے لانگ مارچز جیسے انجام سے دوچار ہوگا۔پی ٹی آئی کا لانگ مارچ کیسے کامیاب ہوگا جب کہ اس کی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی تنظیم سازی بہت ہی کمزور ہے ۔ماضی میں جو لوگ عملا سیاسی تحریک میں شامل ہوئے ان کے ساتھ باہر بیٹھی قیادت نے کیا کیا اور کتنا ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔اس کا بھی پی ٹی آئی کو جائزہ لینا چاہیے کہ وفاقی حکومت کسی بھی صورت میں ان کو اسلام آباد نہیں آنے دیگی اور اس کے نتیجے میں ریاست اور حکومت کا پی ٹی آئی سے ٹکراؤ ہوگا۔میں یہ بات بار بار لکھتا رہا ہوں کہ مفاہمت کا سیاسی کارڈ اسی صورت میں کامیاب ہوتا ہے جب ہم کھلے ذہن کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، اسی میں سب کا بھلا ہے ۔