ایرانی افزودہ یورینیم کی خبروں نے امریکی و اسرائیلی کارروائیوں پر سوال اٹھادیا، ملیحہ لودھی
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
امریکا میں پاکستان کی سابقہ سفیر ملیحہ لودھی نے ایران کے 400 کلو گرام افزودہ یورینیم کی خبروں پر تبصرہ کیا ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو میں ملیحہ لودھی نے کہا کہ افزودہ یورینیم اگر محفوظ ہےتو امریکا، اسرائیل کی کارروائیوں پر سوال اٹھتا ہے۔
ایران کے پاس موجود 400 کلو گرام افزودہ یورینیم کا ذخیرہ عالمی سطح پر تشویش کا سبب بن گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بارے میں دنیا کو سوچنا ہوگا کہ امریکا اور اسرائیل کی کارروائیاں کتنی کامیاب رہی ہیں۔
پاکستان کی سابقہ سفیر نے یہ بھی کہا کہ اگر ایران نے افزودہ یورینیم کو محفوظ رکھا ہے تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: افزودہ یورینیم
پڑھیں:
ایرانی پارلیمنٹ کے 71 سخت گیر اراکین کا ایٹم بم بنانے اور دفاعی حکمتِ عملی پر نظرثانی کا مطالبہ
ایران کی سیاست میں ایک غیرمعمولی پیشرفت سامنے آئی ہے، جہاں پارلیمنٹ کے 71 سخت گیر اراکین نے ملک کی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی اور ایٹمی ہتھیار بنانے کا باضابطہ مطالبہ کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ان اراکین نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جو کہ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کو بھیجا گیا ہے۔
یہ خط مشہد سے تعلق رکھنے والے قدامت پسند رکنِ اسمبلی کی قیادت میں تحریر کیا گیا ہے، اور اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا دو دہائی پرانا فتویٰ صرف ایٹم بم کے استعمال پر پابندی لگاتا ہے، نہ کہ اسے بطور دفاعی ہتھیار تیار کرنے یا رکھنے پر۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملے کر رہا ہے اور معصوم جانیں لے رہا ہے۔ اس غیر متوازن صورتِ حال میں ایٹمی ہتھیار کا ہونا ایران کے لیے ایک دفاعی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔”
مغربی ایران سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی احمد آریائینژاد نے ایک مقامی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ اگر ہمارے پاس ایٹم بم ہوگا — چاہے ہم اسے استعمال نہ کریں — تو دنیا جان لے گی کہ ایران کمزور نہیں، اور ہم پر حملہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران پر اقوامِ متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کیے جانے کے قریب ہیں، جو ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔
دوسری جانب، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی امریکا سے ممکنہ مذاکرات کے لیے نیویارک پہنچ چکے ہیں، جبکہ ایرانی صدر مسعود پیشکیان بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں توجہ کا مرکز غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیاں اور فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ ہوگا۔
یہ صورتحال عالمی سطح پر ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کے حساس توازن کو ہلا دینے والی بن سکتی ہے، اور سفارتی حلقے ان بیانات اور اقدامات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔