ایران نے اگر یہ کام کیاتو دوبارہ حملہ کریں گے ،امریکی صدر کی بڑی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دی ہیگ میں ہونے والی ”نیٹو سمٹ“ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی، ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے اور خطے میں امن کے امکانات پر اہم گفتگو کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایران اسرائیل جنگ بندی پر بہت اچھے طریقے سے عمل ہو رہا ہے‘ اور یہ کہ ’میرے کہنے پر اسرائیلی طیارے واپس گئے‘۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ملکوں، ایران اور اسرائیل، نے تسلیم کیا کہ ’بس بہت ہو گیا‘ اور جنگ بندی کو موقع دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’ہمیں ایک تاریخی کامیابی ملی ہے۔ ہم نے ایران میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔‘
ایران کی جوہری تنصیبات پر حالیہ امریکی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے تقریباً 30 منزل نیچے بنائی گئی تنصیبات کو تباہ کیا ہے‘۔ ان کے بقول، فردو جوہری مرکز اب مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور اب ایران کبھی بھی جوہری پروگرام دوبارہ شروع نہیں کر سکے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران کے لیے اب جوہری ہتھیار بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے‘ اور اگر ایران نے تنصیبات کی بحالی کی کوشش کی تو ’ہم دوبارہ حملہ کریں گے‘۔
ایران اور اس کی قوم کو سراہتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’ایران ایک بہترین ملک ہے اور ایرانی قوم بہترین لوگ ہیں۔‘ تاہم ساتھ ہی خبردار کیا کہ ’ایران نیوکلیئر ہتھیار نہیں رکھ پائے گا‘۔
صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کو ایران کے لیے بھی فتح قرار دیا، کہ ’ان کا ملک بچ گیا‘، اور کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’خطے میں امن کے لیے امریکہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا‘۔
غزہ کے معاملے پر بھی بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ بڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق، ’ونکوف نے بتایا کہ غزہ کا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے‘۔
نیٹو سمٹ سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ نیٹو اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا اور ’نیٹو میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں‘۔ روس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ گزشتہ روز روسی صدر نے ایران کے معاملے پر مدد کی پیشکش کی تھی۔
صدر ٹرمپ کے مطابق، جنگ بندی کی چند خلاف ورزیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن مجموعی طور پر فریقین پیچھے ہٹے ہیں، جو کہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’حملہ کر کے ہم ایران کے جوہری پروگرام کو دہائیوں پیچھے لے گئے ہیں‘۔
صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ’ایران کو پتا تھا ہم حملہ کرنے والے ہیں‘، اور یہ کہ امریکہ نے اپنی فوجی طاقت سے نہ صرف اپنا مفاد بلکہ عالمی امن کا تحفظ بھی کیا ہے۔
ایران حملے سے پہلے یورینیم نہیں نکال سکا، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
ٹرمپ نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ہمراہ نیدرلینڈز میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہیں یقین ہے ایران نے امریکی فضائی حملوں سے پہلے اپنی جوہری تنصیبات سے افزودہ یورینیم نہیں نکالا۔
صدر ٹرمپ نے کہا، ’انہیں کچھ نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ ہم نے بہت تیزی سے کارروائی کی۔ اگر ہمیں دو ہفتے لگتے تو شاید وہ کچھ کر سکتے، لیکن اس قسم کا مواد نکالنا انتہائی مشکل اور ان کے لیے خطرناک ہوتا۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’انہیں پتا تھا کہ ہم آ رہے ہیں، اور جب دشمن کو یہ علم ہو تو وہ ایسی تنصیبات کے نیچے موجود نہیں ہوتے۔‘
صدر ٹرمپ نے ان ابتدائی انٹیلی جنس رپورٹس کو مسترد کر دیا جن میں کہا گیا تھا کہ ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ زیادہ تر محفوظ رہا ہے اور امریکہ اس کا بڑا حصہ تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر امریکی حملہ مؤثر نہ ہوتا تو ایران اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر ہرگز آمادہ نہ ہوتا۔ ’یہ ایک تباہ کن حملہ تھا جس نے ایران کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی جنگ بندی نہ کرتے۔‘
ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ اگر ایران نے دوبارہ اپنا جوہری پروگرام بحال کرنے کی کوشش کی تو مزید حملوں کا امکان موجود ہے، تاہم انہوں نے یہ امکان کمزور قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اب وہ برسوں تک کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ان کا پورا نیٹ ورک تباہ ہو چکا ہے اور دوبارہ اسے کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔‘
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایران کے ایران نے حملہ کر کیا کہ کے لیے
پڑھیں:
ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع
ایران اور روس نے ایک دہائی سے تعطل کے شکار ایٹمی تعاون کے منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مجوزہ معاہدے کے تحت اسلامی جمہوریہ میں 8 نئے جوہری بجلی گھر تعمیر کیے جائیں گے۔
ایران کے نائب صدر اور اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلامی پیر کو ماسکو پہنچے، جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو بھی کی۔
انہوں نے بتایا کہ معاہدے کی بات چیت مکمل ہو چکی ہے اور اس ہفتے دستخط کے ساتھ دونوں ممالک عملی اقدامات کے مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔
ایرانی اور روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ معاہدہ تہران کے اُس ہدف کا حصہ ہے جس کے تحت وہ 2040 تک 20 گیگاواٹ ایٹمی توانائی کی پیداواری صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایرنا نے مزید بتایا کہ نئے ری ایکٹروں میں سے 4 بوشہر میں قائم کیے جائیں گے۔
روس پہلے ہی ایران کا پہلا ایٹمی بجلی گھر بوشہر میں تعمیر کر چکا ہے، جو 2011 میں فعال ہوا اور 2013 میں مکمل ہوا تھا، حالانکہ اس پر امریکا نے سخت اعتراض کیا تھا۔
یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران کے مغرب کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
مغربی طاقتوں کا الزام ہے کہ تہران 2015 کے اُس جوہری معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے جس کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔
ایران ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مؤقف اپناتا آیا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
روس نے بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے دفاع میں کہا ہے کہ وہ تہران کے پُرامن ایٹمی توانائی کے حق کی حمایت کرتا ہے، لیکن ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران کے خلاف ہے۔
اسی دوران، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کے روز ایک قرارداد کا مسودہ مسترد کر دیا تھا جس کے ذریعے ایران پر پابندیاں مستقل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے تجویز دی ہے کہ اگر ایران عالمی ایٹمی معائنہ کاروں کو مکمل رسائی دے، افزودہ یورینیم سے متعلق خدشات دور کرے اور امریکا کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرے تو وہ پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو 6 ماہ کے لیے مؤخر کرنے پر آمادہ ہیں۔
یورپی طاقتوں نے مزید ایک دہائی پرانے ایٹمی معاہدے کے تحت ’اسنیپ بیک‘ میکنزم کو فعال کرتے ہوئے تہران پر عدم تعمیل کا الزام لگایا اور ایران پر اقوام متحدہ کی منجمد پابندیاں بحال کرنے کے حق میں ووٹ بھی دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افزودہ یورینیم اقوام متحدہ امریکا ایٹمی پروگرام ایٹمی معائنہ کار ایران تہران جرمنی جوہری بجلی گھر روس سلامتی کونسل فرانس