پیپلز پارٹی کا بجٹ میں متنازع شقوں میں ترمیم کا مطالبہ، کابینہ آج نظر ثانی شدہ بجٹ کی منظوری دے گی
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
پیپلز پارٹی کا بجٹ میں متنازع شقوں میں ترمیم کا مطالبہ، کابینہ آج نظر ثانی شدہ بجٹ کی منظوری دے گی WhatsAppFacebookTwitter 0 26 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بدھ کے روز آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں شامل کچھ سیاسی طور پر غیر مقبول شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت پر زور دیا کہ قومی اسمبلی میں آج (جمعرات) متوقع منظوری سے قبل ان متنازع شقوں میں ترمیم کرے۔
تفصیلات کے سابق وزیر خزانہ اور پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر (جو اس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی ہیں) نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی تاکہ فنانس بل 2025 کی اہم شقوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
فنانس بل پر قومی اسمبلی کے فیصلہ کن ووٹ سے قبل وقت کم رہ گیا ہے، اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اس دوران ارکان قومی اسمبلی سے انفرادی ملاقاتیں تیز کر دی ہیں، تاکہ بل کی منظوری سے قبل ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ایک ذرائع کے مطابق، بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے وزیراعظم روزانہ 5 سے 6 ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے ہیں ، ان دنوں کو چھوڑ کر جب وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔
ہر ملاقات تقریباً 10 منٹ کی ہوتی ہے، جس کا مقصد پارلیمنٹ میں حاضری کو یقینی بنانا اور ارکان کے انفرادی تحفظات کو دور کرنا ہوتا ہے، یہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ایک ترغیب ہے، اس عمل کی بدولت ارکان بجٹ سیشنز میں بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اس معاملے پر پیغامات یا کالز کا جواب نہیں دیا۔
نوید قمر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ فنانس بل کا حتمی مسودہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کی عکاسی کرتا ہے، ان ترامیم کو حتمی ووٹنگ سے قبل کمیٹی کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس افسران کے لیے گرفتاری کے مجوزہ اختیارات پر پی پی پی کے تحفظات تسلیم کیے، اور کہا کہ یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیر بحث ہے اور حتمی ووٹ سے قبل اسے حل کر لیا جائے گا۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت آج کابینہ کا اجلاس بلا رہی ہے، تاکہ نظر ثانی شدہ فنانس بل کی منظوری دی جا سکے، یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے قائمہ کمیٹی کی تقریباً نصف سفارشات کو حتمی مسودے میں شامل کیا ہے، کابینہ اس ترمیم شدہ بل کی منظوری دے گی اور پھر اسے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔
سب سے متنازع شق ایف بی آر کو توسیعی اختیارات دینے سے متعلق ہے، خاص طور پر سیلز ٹیکس فراڈ کے مقدمات میں گرفتاری اور قانونی کارروائی کے اختیارات، اس پر پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی تجویز پر مفاہمت ہوئی، اور ترمیم شدہ شقیں اب حتمی مسودے میں شامل کیے جانے کی توقع ہے۔
ایک اور متنازع اقدام میں جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری کو فرد کے آمدنی گوشوارے سے منسلک کیا گیا ہے، حکومت نے اس کی حد بڑھا دی ہے، تاہم پی پی پی کا مؤقف ہے کہ یہ شق سیاسی طور پر غیر مقبول ہے، اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
تیسرا تنازع سیلز ٹیکس رجیم کے تحت کاروباری رجسٹریشن سے متعلق ہے، ابتدائی طور پر تجویز دی گئی تھی کہ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کی یوٹیلیٹی سروسز منقطع یا ان کے کاروبار بند کر دیے جائیں گے، تاہم، حکومت نے اب اس تجویز کا ترمیم شدہ ورژن پیش کر دیا ہے۔
بجٹ منظوری میں ایوان زیریں کے اختیارات میں اضافہ
ماضی کی روایت سے ہٹتے ہوئے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرمین شپ اب حکومت کے بجائے، اتحادی جماعت کے رکن کے پاس ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کمیٹی نے فنانس بل کا شق وار جائزہ لیا ہے۔
نوید قمر (جو قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں) نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ یہ تبدیلی قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط 2007 کے قاعدہ 122 میں ستمبر 2024 میں ان کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم کے ذریعے ممکن ہوئی۔
یہ ترمیم، جسے قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق نے متفقہ طور پر منظور کیا، لازمی قرار دیتی ہے کہ فنانس بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو منظوری سے قبل بھیجا جائے، اور کمیٹی کو 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنا لازم ہے۔
ماضی میں، فنانس بل کو سینیٹ میں پیش کیا جاتا تھا، جہاں چیئرمین اسے سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے سپرد کرتا تھا۔
ادھر، قومی اسمبلی عموماً بجٹ کو 28 دن بعد منظور کرتی تھی، جس سے قبل طویل بحث و مباحثہ ہوتا تھا، تاہم، سینیٹ کی سفارشات محض مشاورتی حیثیت رکھتی تھیں اور اکثر اوقات انہیں حتمی بل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔
اس کے برعکس، قومی اسمبلی کی سفارشات اب لازمی حیثیت رکھتی ہیں، جو بجٹ سازی کے عمل میں ایوانِ زیریں کے اختیارات میں اضافے کی عکاسی کرتی ہیں، فی الوقت، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سلیم مانڈوی والا ہیں۔
اس ترمیم کے نتیجے میں، قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس 2025 کے دوران نوید قمر نے فنانس بل پر کمیٹی کی پہلی تفصیلی رپورٹ پیش کی، جس کا مقصد وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو یکم جولائی سے نافذ کرنا ہے۔
نوید قمر نے اس پیش رفت کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کو بجٹ پر مائیکرو سطح پر غور کرنے کا اختیار حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے اراکین باقاعدگی سے اجلاسوں میں شریک رہے، اور فنانس بل پر تفصیلی مباحثوں میں بھرپور حصہ لیا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی پابندیوں کے باوجود کمیٹی کی بیشتر سفارشات تسلیم کیں۔
نوید قمر نے کہا کہ یہ عمل اب محض رسمی منظوری تک محدود نہیں رہا، بجٹ سازی کا اختیار بیوروکریسی سے نکل کر عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرگلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس گورننس انیشی ایٹو: ڈیجیٹل تہذیب میں قدیم مشرقی حکمت کی روشن خیالی وزیر اعظم نے ملک بھر میں بجلی کے اسمارٹ میٹرز جلد نصب کرنے کی ہدایت کردی خیبر پختونخوا پولیس نے جدید اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرلی جنگ کے آخری دنوں میں ایران نے اسرائیل کی بہت مار لگائی، ٹرمپ ، ایران پر امریکی حملوں کو ہیروشیما پر ایٹمی بمباری سے... وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس کل طلب کرلیا سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت مبینہ غیرقانونی بھرتیوں کیخلاف نیب تحقیقات کا آغاز امریکی و اسرائیلی حملوں سے ایٹمی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا، ترجمان ایرانی وزارت خارجہ
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی منظوری
پڑھیں:
وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد 27ویں ترمیم سینٹ میں پیش، کمیٹی کے سپرد
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے + خبر نگار + آئی این پی) وفاقی کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی۔ آذربائیجان میں موجود وزیراعظم شہباز شریف نے بذریعہ ویڈیو لنک وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف، مصدق ملک، رانا ثناء اللہ، ریاض حسین پیر زادہ، عون چوہدری، شذرہ منصب اور قیصر احمد شیخ‘ وزیر قانون اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ جبکہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینٹ میں پیش کر دیا گیا۔ چیئرمین سینٹ نے بل قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے سپرد کر دیا۔ اپوزیشن نے شور شرابہ کیا۔ سینٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27 آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معمول کی کارروائی معطل کر کے بل پیش کر لیتے ہیں جس پر چیئرمین سینٹ نے معمول کی کارروائی معطل کر دی۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو پیش کر دیتے ہیں، کمیٹی اپنا کام کرے گی، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، مشترکہ کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان بیٹھتے ہیں، بل کمیٹی کو جائے گا، کمیٹی میں دیگر ارکان کو بھی مدعو کریں گے جو کمیٹی کے رکن نہیں ہیں، بل پر ووٹ ابھی نہیں ہو گا۔ اپوزیشن سے بحث کا آغاز کریں گے۔ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں، بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیتا ہوں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن کے شور شرابہ پر کہا کہ جس طرح کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ٹھیک نہیں، ہم شام تک بیٹھے ہیں آپ اپنی بات کہیں، اپوزیشن سے بحث کا آغاز کریں گے، ہم چْپ کر کے سنیں اور یہ ایسے بولتے رہیں یہ نہیں چلے گا۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی سیٹ خالی ہے، پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی قائم کریں، ہمیں ابھی ڈرافٹ ملا ہے، ڈرافٹ نہیں پڑھا، اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی تک بل پر بحث نہیں ہو سکتی۔ اپوزیشن کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام جماعتوں کی مشاورت کے بعد وفاقی آئینی عدالت کی تجویز لائے ہیں۔ مقدمات عدالت کا 40 فیصد وقت لے جاتے ہیں، 26 ویں ترمی پر جب مشاورت ہوئی تو دوستوں نے کہا اتنی بڑی تبدیلی کی طرف نہ جائیں، 26ویں ترمیم کے وقت دوستوں نے کہا آئینی بنچز بنا کر معاملات حل کریں۔ وہ بل دو تہائی اکثریت سے پاس ہوا اور آئینی بنچ بن گئے۔ 100 فیصد اتفاق رائے تک مشاورت جاری رہیگی۔ آرمی چیف کی معرکہ حق کے دوران خدمات پر انہیں فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا۔ آرمی چیف کے عہدے کا ٹائم فریم ہوتا، فیلڈ مارشل اعزاز ہے اس کا ٹائم فریم نہیں، آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔ فیلڈ مارشل کا عہدہ پوری دنیا میں تاحیات ہے۔ اس ٹائٹل کو آئینی تحفظ دینا ہے، اس ٹائٹل کو واپس لینے کا اختیار وزیراعظم نہیں پارلیمنٹ کے پاس ہو گا، موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ عہدہ ختم ہو گا۔ 27 نومبر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہو جائیگا۔ آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کی ذمہ داریاں سونپنی ہیں۔ سٹریٹجک معاملات پر بہت احتیاط سے بات کرنی چاہیے، شخصیات کیلئے نہیں ملک کیلئے ترامیم کی جاتی ہیں۔ سو موٹو کا اختیار ہم نے ختم کیا ہے، تاکہ پھر کوئی چیف جسٹس آ کر ہسپتالوں کے چکر نہ لگائے، کسی کو پھانسی پہ نہ لٹکائے، دن پھرتے رہتے ہیں۔ بعد ازاں سینٹ نے آئینی ترمیم کا مجوزہ بل مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا۔ سینٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کو بھی دعوت دی جائے گی، مشترکہ کمیٹی کی صدارت دونوں قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین مشترکہ طور پر ہی کریں گے۔ سینٹ اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں مفصل بحث کی جا سکے گی۔ قائد حزب اختلاف کی تقرری چیئرمین سینٹ کا اختیار ہے۔ بعد ازاں سینٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ قانون و انصاف کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک ہیں جب کہ سینٹ قائمہ کمیٹی کے سربراہ فاروق ایچ نائیک ہیں۔ قبل ازیں 27 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آ گیا جس کے مطابق آرمی چیف کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے کی تجویز ہے جبکہ سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لیکر وفاقی آئینی عدالت کے سپرد کیے جائیں گے۔ 27 آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 42 اور 59 میں ترمیم کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی کلاز 5 میں لفظ سپریم کو فیڈرل کانسٹیٹیوشنل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ 27 ویں ترمیم کے تحت‘ وفاقی آئینی عدالت’ کے قیام کی تجویز ہے، وفاقی آئینی عدالت، آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے فیصلے کرے گی۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لے کر وفاقی آئینی عدالت کو دئیے جائیں گے، آئین کا آرٹیکل 184 ختم کر دیا جائے گا۔ ازخود نوٹس کا اختیار ختم ہو گا۔ آئینی مقدمات اب سپریم کورٹ نہیں، وفاقی آئینی عدالت سنے گی، سپریم کورٹ صرف اپیلوں اور عمومی مقدمات کی عدالت رہے گی۔ مجوزہ مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں چیف جسٹس اور چاروں صوبوں سے برابر نمائندگی ہو گی۔ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت 3 سال مقرر ہو گی، چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی حیثیت محدود ہو جائے گی۔ مسودہ میں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی تجویز کی گئی ہے۔ آئینی عدالت کے فیصلے ملک کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔ 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں فوجی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی تجویز کی گئی ہے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر کے آرمی چیف کو ‘‘چیف آف ڈیفنس فورسز’’ کا عہدہ دینے کی تجویز ہے۔ آئینی ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدوں کو تاحیات درجہ حاصل ہو گا۔ 27 ویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بھی بدلا جائے گا، جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دونوں شامل ہوں گے۔ تقرری میں وزیرِاعظم اور صدر کو کلیدی کردار حاصل ہوگا، پارلیمنٹ کو آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد طے کرنے کا اختیار ملے گا۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ27 ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز ٹرانسفر پر ایگزیکٹو کے اختیارات میں کمی کی گئی ہے جب کہ فیلڈ مارشل کا اعزاز تاحیات ہو گا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27 آئینی ترمیم میں مارشل آف ائیرفورس اور مارشل آف نیول فورس کے ٹائٹل متعارف کرانے کی تجویز ہے اور یہ ٹائٹل دینے کا اختیار وزیراعظم کا نہیں ہوگا بلکہ پارلیمنٹ کا ہوگا۔ فیلڈ مارشل کے رینک اور ٹائٹل کو آئینی تحفظ حاصل ہوگا اور یہ ٹائٹل واپس لینے کا اختیار بھی پارلیمان کا ہوگا۔ تجویز ہے کہ آرمی چیف، چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔ فیلڈ مارشل ایک ٹائٹل ہے، رینک ہے جبکہ آرمی چیف ایک آئینی عہدہ ہے جس کی مدت 5 سال ہے۔ آرمی چیف، چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کی ذمہ داری سونپنی ہے۔ تمام جماعتوں سے ترمیم کا ڈرافٹ شیئر کر رکھا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں ترمیم پر کابینہ کو بریفنگ دی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی اجلاس کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی تجاویز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ قبل ازیں ذرائع نے کہا کہ اجلاس میں تین ترامیم کی منظوری دی جائے گی، ترامیم میں آئینی کورٹ بنانے، ججز کی ٹرانسفر اور آرٹیکل 243 میں تبدیلی ہوگی۔ 27ویں ترمیم میں آئین کی مختلف شقوں میں کل 46 ترامیم کی جائیں گی۔ آئینی عدالت کا جج بننے سے انکار کرنیوالا جج ریٹائرڈ تصور ہو گا۔ ذرائع کے مطابق آرمی، ایئرفورس اور نیوی کے بعد اب چوتھی فورس’’ آرمی راکٹ فورس‘‘ (اے آر ایف سی) ہو گی، چیف آف آرمی سٹاف ’’کمانڈر آف ڈیفنس فورسز بھی کہلائیں گے، تمام کوآرڈینیشن چیف آف آرمی سٹاف خود بلحاظ کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کیا کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ راکٹ فورس میں سٹرٹیجک پلان ڈویژن ( ایس پی ڈی) بھی شامل ہے، ایس پی ڈی پہلے چیئرمین جوائنٹ آف سٹاف کے ماتحت کام کرتی تھی، اب چیئرمین جوائنٹ آف سٹاف کا عہدہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ اب کمانڈر آف ڈیفنس فورسز آجائے گی۔ 27ویں ترمیم پر مشاورت کے لیے بنائی گئی قانون انصاف کی مشترکہ پارلیمانی قائمہ کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس ہوا جس میں جے یو آئی واک آؤٹ کرگئی۔ جے یو آئی کی رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے کہا کہ ہمارے آرٹیکل 243 پر تحفظات ہیں۔ اس آرٹیکل میں ترمیم کی مخالفت کریں گے۔ ہمیں کہا گیا کہ آج مسودے کو پاس نہیں کریں گے، ہمارے کہنے پر جو کچھ چھبیسویں ترمیم میں سے نکالا گیا تھا ان کو ستائیسویں ترمیم میں شامل کر دیا گیا۔ ججز والے معاملے پر بھی ہمارے تحفظات ہیں، پگڑی کس کی بھاری ہو گی، آئینی عدالت کے جج کی یا سپریم کورٹ کے جج کی؟ عالیہ کامران نے کہا کہ ایڈوائزرز کی تعداد بڑھائی جارہی ہے۔ ایک غریب ملک میں ایڈوائزرز کی تعداد بڑھانا عوام کا کون سا فائدہ ہے؟ بعد ازاں جے یو آئی اجلاس سے واک آؤٹ کر گئی۔ جے یو آئی (ف) اب مشاورت کر کے بتائے گی کہ کل وہ اس اجلاس میں شرکت کرے گی یا نہیں۔ صدر مملکت کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنیٰ کی ترمیم کمیٹی میں پیش کر دی گئی۔ ذرائع کے مطابق ترمیم حکومتی ارکان سینیٹر انوشہ رحمان اور سینیٹر ظاہر خلیل ساندھو نے مشترکہ قائمہ کمیٹی میں پیش کی۔ ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 248 میں صدر کے ساتھ لفظ وزیر اعظم بھی شامل کر لیا جائے گا۔ ترمیم کی منظوری کے بعد وزیر اعظم کے خلاف بھی دوران مدت فوجداری مقدمات میں کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ ممکنہ 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودہ کے مطابق آرمی چیف کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے کی تجویز ہے جبکہ سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لیکر وفاقی آئینی عدالت کے سپرد کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی کلاز 5 میں لفظ سپریم کو فیڈرل کانسٹیٹیوشنل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ 27 ویں ترمیم کے تحت ‘وفاقی آئینی عدالت’ کے قیام کی تجویز ہے، وفاقی آئینی عدالت، آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے فیصلے کرے گی۔ قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین فاروق نائیک نے کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے 80 فیصد نکات پر مشاورت مکمل ہو چکی ہے۔ 20 فیصد معاملات کو آج مکمل کر لیا جائے گا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اجلاس میں کابینہ ارکان کا خیر مقدم کیا اور اتحادی جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیرِ اعظم کی ہدایت پر وزیرِ قانون و انصاف نے میڈیا کو ترمیم کے خدوخال پر بریفنگ دی، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ وفاق کے صوبوں کے ساتھ رشتے کی مضبوطی اور ملک کے وسیع تر مفاد میں 27ویں آئینی ترمیم کیلئے سب نے مل کر کوشش کی جس کیلئے وزارت قانون و انصاف، اٹارنی جنرل اور ان کی ٹیم لائق تحسین ہے۔27 ویں آئینی ترمیم پر اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کو اعتماد میں لیا اور ان سے اس پر رہنمائی حاصل کی جس پر ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری‘بلاول بھٹو، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عبدالعلیم خان، خالد حسین مگسی اور چوہدری سالک حسین‘ ایمل ولی، اعجاز الحق اور دیگر سیاسی رہنمائوں سے بھی مشاورت کی اور انہیں آئینی ترمیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔ ان کا شکریہ، اللہ کے فضل و کرم سے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کی بدولت ملک کی سمت درست ہوئی ہے، ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ مرکزی ترجمان جمعیت علما ء اسلام ف اسلم غوری نے کہا ہے کہ لاء اینڈ جسٹس کمیٹی سے جے یو آئی ممبر کو نکالنا بدترین آمریت ہے‘ کامران مرتضی کا نام کمیٹی سے صرف اختلاف کے اندیشے کی بنیاد پر نکالا گیا ہے پہلی کمیٹی کے نوٹیفیکیشن میں سینٹر کامران مرتضی کا نام تھا۔ کمیٹی پارلیمنٹ کی پراپرٹی ہے، حکومت اسے ن لیگ کی جاگیر نہ سمجھے جمہوریت کے نام پر آمریت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے پورے جمہوری نظام کو لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔سینٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں آئین (ستائیسویں ترمیم) بل 2025ء پر غور کیا گیا۔ کارروائی کے دوران ارکان نے بل پر سیر حاصل گفتگو کی تاہم سینیٹر کامران مرتضیٰ اور رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے اتفاق رائے کے عمل کے دوران اپنی پارٹی کو آن بورڈ نہ لینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تاہم عالیہ کامران نے میٹنگ میں شرکت کی۔ کمیٹی کا اجلاس آج دن ساڑھے گیارہ بجے پھر طلب کرلیا ہے۔
اسلام آباد (عترت جعفری) سینٹ میں موجود مجوزہ آئینی ترامیم کے بل کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے منصب کی معیاد تین سال ہوگی، آرٹیکل 184 کو آئین سے حذف کر دیا جائے گا، اس کے تحت جو اختیارات سپریم کورٹ کے پاس تھے وہ وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ آرٹیکل 186 کو بھی آئین سے حذف کر دیا گیا ہے، یہ اختیار اب وفاقی آئینی عدالت کو دیا گیا ہے جو صدر کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس پر رائے دے گی، آرٹیکل 202 اے میں بھی ایک ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت ہائی کورٹ کا کوئی بھی بنچ سوائے آئینی بنچ کے، آرٹیکل 199 کے تحت اختیار سماعت کو استعمال نہیں کرے گا، سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 209 میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اس میں چیف جسٹس فیڈرل سینٹ عدالت اور اس کے سینئر موسٹ جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن بنایا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں ان کے مطابق صدر پاکستان وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی سٹاف (چیف آف ڈیفنس فورسز) کا تقرر کریں گے۔ وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت چیف آف نیول سٹاف اور چیف آف ایئر سٹاف کا بھی تقرر کریں گے، وہ صدر کی ایڈوائس پر مذکورہ بالا مناصب کی تنخواہیں الائونسز کا بھی تعین کریں گے، اس آرٹیکل کی کلاس فور کے بعد سات نئی شقیں شامل کی گئی ہیں۔ نئی شامل کی جانے والی کلاس 5کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا منصب 27 نومبر ختم ہو جائے گا۔ نئی کلاز چھ کے تحت وزیراعظم چیف آف آرمی سٹاف/چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے کمانڈر کا تقرر کریں گے اور یہ تقرر ی پاکستان آرمی کے ارکان میں سے ہوگی، کلاز سیون کے مطابق جب بھی وفاقی حکومت مسلح افواج میں فیلڈ مارشل مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کا رینک دیا جائے گا تو ایسے افسر اس رینک اور اس رینک کے ساتھ ملنے والی تمام مراعات کو زندگی کی بھر استعمال کر سکتا ہے اور یونیفارم پہن سکے گا۔ فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کو قومی ہیرو کے طور پر ان کے منصب سے الگ نہیں کیا جائے گا سوائے اس بنیاد یا ان الزامات کے جن کا ذکر آرٹیکل 47 میں کیا گیا ہے۔ نئی شامل ہونے والی کلاز 9 کے تحت فیلڈ مارشل، مارشل ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کو صدر مملکت کی طرح کا تحفظ دے دیا گیا ہے، جب بھی فیلڈ مارشل یا مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ اپنی معیاد کو مکمل کریں گے تو وفاقی حکومت ان کی آئندہ ذمہ داریوں اور فرائض کا تعین کر دے گی۔ آئینی ترمیم کے تحت آرٹیکل 59 میں ایک وضاحت شامل کی گئی ہے جس کے مطابق سینٹ کے رکن کو جس معیاد کے لیے ممبر سینٹ منتخب کیا گیا تھا، ممبر اس معیاد کو مکمل کرے گا۔ معیاد مارچ کی 11 تاریخ کو مکمل ہوگی، آرٹیکل 68 میں ایک ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے کنڈکٹ پر مجلس شوریٰ میں بحث نہیں ہو سکتی ہے اب اس میں فیڈرل آئینی کورٹ کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ فیڈرل آئینی عدالت کے اخراجات فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے پورے کیے جائیں گے۔ آرٹیکل 93 میں ایک ترمیم شامل کی گئی ہے جس کے تحت وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو پانچ کی بجائے سات مشیر مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 100 میں کی جانے والی ترمیم کے تحت اٹارنی جنرل وہی شخص مقرر ہو سکے گا جو سپریم کورٹ یا فیڈرل آئینی عدالت میں جج بننے کا اہل ہو، آئین کے آرٹیکل 130میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے تحت صوبائی کابینہ کے تعداد 15 سے بڑھا کر 17 کر دی گئی ہے یا تعداد اسمبلی کی کل تعداد کے 13 فیصد کے مساوی ہوگی، اس وقت یہ حجم 11 فیصد ہے، پانچ کی بجائے سات صوبائی مشیر مقرر کیے جا سکیں گے، وفاقی آئینی اور عدالت کے قیام کے لیے آئین کی آرٹیکل 175 میں ترمیم کی گئی ہے، اب اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ ایک وفاقی آئینی عدالت بھی موجود ہوگی، آرٹیکل 175 اے میں متعدد ترامیم کی گئی ہیں جن کے تحت فیڈرل آئینی کورٹ کے قیام اور اس کی ہیت اور تعیناتی کے عمل کو واضح کیا گیا ہے، آئینی عدالت میں تقرریاں جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ آئین میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آئین کے پارٹ سات کے چیپٹر ون کے بعد چیپٹر ون اے بڑھایا گیا ہے، یہ فیڈرل آئینی عدالت کے متعلق ہے، 175 بی کے تحت وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ چیف جسٹس ہوگا، اس کے ججز کی تعداد کا تعین ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہو گا، تاہم جب تک پارلیمنٹ وہ ایکٹ منظور نہیں کرتی یہ تعداد صدر پاکستان فکس کریں گے، عدالت میں تمام صوبوں سے مساوی تعداد میں ججز ہوں گے، آئین میں شامل کیے جانے والے آرٹیکل 175 سی کے تحت صدر پاکستان فیڈرل آئینی عدالت میں جج کا تقررکریں گے، عدالت کا جج بننے کے لیے پاکستانی شہری ہونا ضروری ہوگا۔ جج بننے والا سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج رہ چکا ہو یا اس نے کم از کم ہائی کورٹ کی سطح پر سات سال جج کی حیثیت سے کام کیا ہو یا ہائی کورٹ کی سطح پر کم از کم 20 سال تک وکالت کی پریکٹس کی ہو اور وہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان ہو، فیڈرل ای کورٹ کا چیف جسٹس کا حلف صدر پاکستان لیں گے، وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے درمیان کسی تنازعہ کی سماعت کا اختیار فیڈرل آئین عدالت کے پاس ہو گا۔ آئینی عدالت کے روبرو بنیادی حقوق کے بارے میں امور زیر غور آ سکیں گے تاہم یہ اختیار اس وقت استعمال کیا جا سکے گا، اگر کوئی فرد عدالت کے سامنے مناسب درخواست دائر کرے، اس طرح کے جتنے بھی امور اس وقت سپریم کورٹ میں یا آئینی بینچز کے روبرو زیر سماعت ہیں وہ ترمیم کی منظوری کے بعد آئین عدالت کو منتقل ہو جائیں گے، صدر مملکت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر رائے کے لیے معاملہ فیڈرل آئینی عدالت کو بھیج سکیں گے۔ عدالت کے جج کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے۔ آرٹیکل 202 اے میں بھی ایک ترمیم کی گئی ہے باہر جا رہے ہیں جس کے تحت ہائی کورٹ کا کوئی بھی بنچ سوائے آئینی بنچ کے آرٹیکل 199 کے تحت اختیار سماعت کو استعمال نہیں کرے گا، سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 209 میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اس میں چیف جسٹس فیڈرل سینٹ عدالت اور اس کے سینئر موسٹ جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن بنایا گیا ہے۔