طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
انسانی تاریخ درحقیقت ایک طویل داستانِ تصادم و تسخیر ہے۔ انسانی وجود کے آغاز سے ہی، جب بقا کا انحصار شکار اور قبائل کے درمیان دفاع پر تھا، ہتھیاروں کی ایجاد اور ترقی تہذیبوں کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ جرمنی میں دریافت ہونے والے تقریباً چار لاکھ سال پرانے لکڑی کے بھالوں سے لے کر، انسان نے ہتھیاروں کو بتدریج زیادہ مہلک، دقیق اور سیاسی اثر رکھنے والے اوزاروں میں تبدیل کیا۔
جوں جوں تاریخ کا دھارا بدلتا گیا اور انسان نے قدرتی عناصر پر قابو پانا سیکھ لیا، اسی طرح اس کے ہتھیار بھی ترقی کرتے گئے۔ لوہے کا دور، جو تقریباً 1200 قبل مسیح میں شروع ہوا، ایسے سخت دھاتوں سے بنے ہوئے تلواروں اور اوزاروں کا آغاز تھا جنہوں نے قدیم سلطنتوں کی عسکری قوت کی بنیاد رکھی۔ آشوری قوم اپنے رتھوں اور تلواروں کے لیے، جبکہ کیلٹ قوم اپنے شاندار دھاتی ہنر کے لیے مشہور تھی — یہ دونوں اس دور کی طاقت اور مہارت کی زندہ مثالیں ہیں۔ ان ہتھیاروں کے ذریعے جنگیں محض دفاع کے لیے نہیں بلکہ تسلط اور حکمرانی کے لیے بھی لڑی جانے لگیں۔
تاہم مشرق میں، نویں صدی کو چین میں، اگلا انقلاب برپا ہوا — بارود کی دریافت۔ ابتدا میں اسے آتشبازی اور مذہبی تقریبات میں استعمال کیا گیا، مگر جلد ہی اس کے جنگی استعمالات بھی دریافت ہو گئے۔ چودھویں صدی تک بارود کا علم یورپ تک پہنچ چکا تھا، جہاں اس نے بندوقوں، توپوں اور دیگر بھاری اسلحہ کے دور کا آغاز کیا۔ میدانِ جنگ یکسر بدل گیا، اور فاصلے اور تباہی کے تصورات بھی۔ جنگ اب تلواروں اور ڈھالوں کا ذاتی معاملہ نہ رہی — یہ ایک مشینی اور غیر شخصی قوت بن چکی تھی۔
اس تکنیکی سفر کی معراج بیسویں صدی میں، دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے دوران، سامنے آئی۔ یہی وہ وقت تھا جب سائنس، انسانی خواہش اور خوف باہم یکجا ہوئے اور انسان نے تاریخ کا سب سے ہولناک ہتھیار ایجاد کیا۔ ایٹم بم۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک خفیہ منصوبے ’’مین ہیٹن پراجیکٹ‘‘’ کے تحت 16 جولائی 1945 ء کو نیو میکسیکو کے صحرا میں دنیا کا پہلا جوہری تجربہ کامیابی سے کیا۔ اس تجربے کو ’’ٹرینیٹی‘‘ کا نام دیا گیا تھا، اور اس کے فوراً بعد ہی ہیروشیما اور ناگاساکی پر تباہ کن بم گرائے گئے۔ یہ شہر مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے، لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے، اور دنیا نے پہلی بار ایٹمی قوت کی ہولناک تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
دوسری عالمی جنگ تو ختم ہو گئی، لیکن ایک نیا اور نہایت خطرناک دور شروع ہوا — جسے ’’سرد جنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین نے، پیچھے نہ رہنے کے عزم کے تحت، 29 اگست 1949 ء کو قازقستان کے میدانوں میں اپنا پہلا جوہری تجربہ’’آر ڈی ایس-1‘‘ کے نام سے کیا۔ یوں دو عالمی طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز ہوا، جہاں ہر ایک نے دوسرے کو صرف حریف نہیں بلکہ اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کیا۔ خوف کے اس نازک لیکن مؤثر توازن نے عالمی سیاست کی سمت کئی دہائیوں تک متعین کیے رکھی۔
دیگر اقوام نے بھی اسی روش کو اپنایا۔ برطانیہ نے 1952 ء میں اپنا پہلا ایٹمی ہتھیار تجرباتی طور پر استعمال کیا، لیکن یہ تجربہ اس کے اپنے ملک میں نہیں بلکہ آسٹریلیا کے دور افتادہ ساحلی علاقے میں کیا گیا۔ فرانس نے سویز بحران کے بعد اپنی خودمختاری کا اظہار کرتے ہوئے 1960 ء میں الجزائر میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا۔ چین، جو اس وقت سوویت یونین اور امریکہ دونوں کی طرف سے تنہائی اور دباؤ کا شکار تھا، نے 1964 ء میں لوپ نور کے مقام پر اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ان تمام طاقتوں نے اپنے اقدامات کو سلامتی، خودمختاری یا تزویراتی برابری کے نام پر جائز قرار دیا۔
بھارت نے 1974ء میں اپنے نام نہاد ”پرامن ایٹمی دھماکے” — اسمایلنگ بدھا تجربے — کے ساتھ ایٹمی طاقتوں کے کلب میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم 1998 ء تک اس کے کسی بھی پرامن ارادے کا پردہ چاک ہو چکا تھا، جب اس نے زیرِ زمین کئی ایٹمی تجربات کیے جو واضح طور پر مکمل ہتھیار بندی کی نشاندہی کرتے تھے۔ پاکستان، جو اس وقت شدید سفارتی دباؤ اور جغرافیائی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا تھا، نے فوری اور فیصلہ کن ردِ عمل دیا۔ 28 مئی 1998 ء کو بلوچستان کے چاغی کے پہاڑوں میں پاکستان نے اپنے ایٹمی تجربات کیے — اور یوں باقاعدہ ایٹمی طاقتوں کے اس مخصوص گروہ میں شمولیت اختیار کی۔
پاکستان کا یہ اقدام اشتعال انگیزی نہیں بلکہ مجبوری تھا۔ یہ جارحیت کا نہیں بلکہ دفاع کا پیغام تھا۔ بطور واحد اسلامی ملک جس نے باقاعدہ طور پر اپنی ایٹمی صلاحیت کا اعلان کیا اور اس کا مظاہرہ کیا، پاکستان نے یہ قدم نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اٹھایا، علاقائی طاقت کے توازن اور اپنے حقِ خود دفاع کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے۔
دیگر اقوام نے مختلف راستے اختیار کیے۔ شمالی کوریا نے، جو کہ مزاحمتی اور تنہائی کا شکار ملک ہے، 2006 ء میں اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا اور تب سے اپنی ایٹمی صلاحیت کو سفارتی دباؤ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آ رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ایک جان بوجھ کر مبہم پالیسی پر عمل پیرا ہے، جو نہ تو ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی اس کی تردید، اگرچہ یہ وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ بیسویں صدی کے آخر سے ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے۔
تاہم جو بات واقعی باعثِ تشویش ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا ایٹمی عزائم کے حوالے سے جس انداز میں ردعمل ظاہر کرتی ہے، اُس میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ریاست جو ایک بار ایٹمی حد پار کر لے، اسے زبردستی ایٹمی ہتھیاروں سے محروم نہیں کیا گیا۔ بعض پر پابندیاں لگائی گئیں، کچھ کو سفارتی طور پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی، مگر سب نے اپنے ایٹمی ہتھیار برقرار رکھے۔ سوائے، بظاہر، ایران کے۔
اسرائیل، بھارت یا حتیٰ کہ شمالی کوریا کے برعکس، ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے والا ملک ہے، اور بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس کے جوہری عزائم محض پُرامن مقاصد کے لیے ہیں۔ اس کے باوجود، اسے برسوں سے معاشی پابندیوں، سائبر تخریب کاری، سفارتی تنہائی اور کھلی فوجی کارروائی کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی، ایران کے جوہری پروگرام کو برابری اور سفارت کاری کے اصولوں کے تحت نہیں بلکہ بدگمانی اور دشمنی کے رویے سے دیکھتے آئے ہیں۔
یہی وہ تضاد ہے جو بین الاقوامی قانون اور انصاف کے پورے ڈھانچے کو کمزور کرتا ہے۔ آخر کیوں بھارت کی ایٹمی کوششوں کو قبول کیا جاتا ہے، اور اسرائیل کے رازدارانہ رویے کو برداشت کیا جاتا ہے — مگر ایران کو سزا دینے کے لیے الگ سے نشانہ بنایا جاتا ہے؟
یہ واضح دوہرا معیار نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایٹمی نظام کو اصول نہیں بلکہ طاقت چلاتی ہے۔ کہ اتحاد، نہ کہ معاہدوں کی پاسداری، کسی ریاست کی قانونی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔
تاریخ شاید ایک دن صرف اُن لوگوں کا محاسبہ نہ کرے جنہوں نے ایٹم بم بنایا، بلکہ اُن کا بھی جو یہ طے کرتے رہے کہ کس کو یہ رکھنے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں۔ جب تک دنیا اپنے معیار کو انصاف کے ساتھ لاگو نہیں کرتی، ایک منصف اور پُرامن عالمی نظام کا خواب ۔۔ ایٹمی دھوئیں کے بادل کی طرح انسانیت کے ضمیر پر ایک سایہ بنا رہے گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایٹمی ہتھیار کیا جاتا ہے نہیں بلکہ کے ساتھ اور اس اپنی ا کے لیے
پڑھیں:
تہذیبوں کا تصادم اور پاکستان کی آزمائش
تاریخ کے اوراق میں کبھی کبھی ایسے لمحے نمودار ہوتے ہیں جوسطحی نگاہوں سے محض ملاقاتیں دکھائی دیتے ہیں،مگر بصیرت کی نگاہ میں وہ تاریخ کے دھارے بدلنے والے لمحے بن جاتے ہیں۔ دنیا ایک نئے عبوری دورسے گزررہی ہے۔روس و یوکرین کی جنگ کے شعلے ابھی ختم نہیں ہوئے کہ مشرقِ وسطی کابگڑتامنظرنامہ،ایک نیاسوالیہ نشان لیے سامنے آ گیا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کاپراناتصوراب محض تھیوری نہیں بلکہ حقیقت بن چکا ہے۔ایران اوراسرائیل کے مابین بڑھتی کشیدگی نے ایک ایسادھواں اٹھادیاہے جس کی لپٹیں خلیج فارس سے ہوتی ہوئی،واشنگٹن،تل ابیب، تہران،بیجنگ، ماسکو اورنئی دہلی تک پہنچ چکی ہیں۔ایران کاحیفہ اورتل ابیب پرحملہ،اس بات کی علامت ہے کہ مشرقِ وسطی کے جنگی افق پر اب صرف عسکری حملے نہیں بلکہ علامتی تہذیبی واربھی شامل ہوچکے ہیں۔
بین الاقوامی تناظرمیں تہذیبی تصادم اور صف بندی کی نئی بساط بچھاکردنیاکانقشہ تبدیل کرنے کی سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ کلیدی عالمی مظاہرمیں امریکااسرائیل کابے مثال حلیف کا کرداراداکرتے ہوئے تمام عالمی قوانین اور اخلاقیات کوپاؤں تلے مسل رہا ہے جبکہ ایران اپنے دفاعی نظریے کواسلامی مزاحمت کالباس پہنا چکا ہے۔ روس،امریکاکی عسکری مداخلت کامخالف اور چین خاموشی سے اپنی موجودگی مستحکم کر رہا ہے۔ یورپی ممالک چاہنے کے باوجوداس بحران میں کھل کرکرداراداکرنے سے قاصرہیں۔
عرب ریاستیں تذبذب میں ہیں۔سعودی عرب مصالحت پرمائل،امارات محتاط اور قطر دودھاری پالیسی پرکھڑاایک بڑی آزمائش میں مبتلا ہے کہ اس نے اربوں ڈالراپنی گرہ سے لگاکر ہزاروں میل دوربسنے والے قصرسفید کے مکین کو اپنی سریع الحرکت افواج کو علاقہ کاسب سے بڑا بحری اڈہ بناکرپیش کردیااوراب اگراس اڈے کونشانہ بنایاجاتاہے توقطرکی برسوں کی محنت کے بعدجاری خوشحالی خاکسترہوسکتی ہے۔اس سارے تناظر میں اگرکسی ملک کی ایک ’’خاموش موجودگی‘‘ عالمی حلقوں میں توجہ حاصل کر رہی ہے تووہ پاکستان ہے۔
دنیاکے افق پرجب افلاک سیاست کے ستارے گردش میں آتے ہیں،اورتہذیبوں کے مابین کشیدگی کی بجلیاں کڑکنے لگتی ہیں،تب ایک خاموش ملاقات بھی گونج دارپیغام بن جاتی ہے۔ واشنگٹن کی سنگین فضامیں جب جنرل عاصم منیر، پاکستان کی عسکری قیادت کاپیکرِوقار،وائٹ ہاس کی دہلیزپرقدم رکھتاہے،تویہ محض ایک رسمی مصافحہ نہیں ہوتابلکہ تہذیبوں کے مابین ایک خاموش مکالمہ آغازپاتاہے۔پاکستان کا کردار نہایت پیچیدہ اورحساس نوعیت کاہے۔بطورایک ایٹمی اسلامی ریاست،اس کی پوزیشن دنیابھرمیں منفرد ہے۔جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے غیرمعمولی ملاقات اسی حساسیت کا مظہر ہے۔
یہ ملاقات محض ایران واسرائیل کے تنائو کے تناظرمیں نہیں دیکھی جاسکتی،کیونکہ درحقیقت یہ مکالمہ اس بڑے منظرنامے کا ایک جزہے جس میں طاقت کی بساط پرنئی چالیں چلی جارہی ہیں۔یہ اس وقت ہواجب مشرقِ وسطی میں آتش وآہن کے بادل چھائے ہوئے ہیں،حیفہ کی بندرگاہیں جل رہی ہیں،تل ابیب دھواں دھواں ہے،اورتہران کے ایوانوں میں صدائے احتجاج گونج رہی ہے۔
حالیہ دنوں واشنگٹن میں وائٹ ہاس کے درودیوارایک ایسی ہی ملاقات کے گواہ بنے جب جنرل عاصم منیراورامریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے مابین ایک غیرمعمولیاورشیڈول سے طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کومحض رسمی مصافحہ نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے تہذیبی مکالمے،عسکری توازن، سفارتی چالاکی اورمستقبل کی عالمی سیاست کی تمہید کے طورپردیکھاجاناچاہیے۔
اس ملاقات کی گونج صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی فضاتک محدودنہیں،بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی دھڑکتی ہوئی نبض، ایران اور اسرائیل کے درمیان سلگتاہواتنازع،اورمسلم دنیا کے مجموعی موقف سے مربوط ہے۔ٹرمپ اورجنرل منیر کی ملاقات میں مشرق وسطی کے حالاتِ حاضرہ، بالخصوص ایران واسرائیل کشیدگی،پرتفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ یہ ملاقات محض پروٹوکول کا حصہ نہیں رہی بلکہ اسے واشنگٹن میں اسٹریٹیجک کامیابی کے طور پردیکھاجارہاہے۔ٹرمپ نے جنرل منیرکا ’’شکریہ‘‘ اداکیاکہ انہوں نے بھارت کے ساتھ ممکنہ جنگ کوروکنے میں کرداراداکیا۔
امریکی تجزیہ نگاربارباراس ملاقات کو ’’شراکت داری میں نئی پیش رفت‘‘قراردے رہے ہیں۔اس کے پیشِ نظرپاکستانی فوج نے خطے میں اپنی عسکری ساکھ برقراررکھی جبکہ سفارتی سطح پربھی امریکاکے ساتھ تعلقات مستحکم ہوئے،خاص کراس وقت جب پاکستان توازن برقراررکھتے ہوئے چین کے ساتھ بھی جدید دفاعی لین دین کررہاہے۔
صدرٹرمپ نے ملاقات کے بعدجوجملے ادا کیے، وہ محض رسمی سفارتی جملے نہیں،بلکہ اس بات کا عندیہ تھے کہ ایران کے حوالے سے ان کی معلومات اورتعلقات گہرے ہیں:’’ وہ ( جنرل عاصم منیر) ایران کوبہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ شایددوسروں سے بہتر‘‘۔یہ جملہ فقط ایک شخصیت کی معلومات کااظہارنہیں،بلکہ امریکاکی داخلی پالیسی اوراسرائیل کی پشت پرموجودامریکی ذہنیت کی سفارتی علامت کی بھی ایک جھلک ہے۔ گویاایران کے ساتھ ان کی دانستہ خاموش وابستگی اب بے نقاب ہورہی ہے۔ ایسے بیانات سفارتی چالوں میں کئی بار’’مذاکرات کے دروازے‘‘ کھلے رکھنے کاحربہ ہوتے ہیں۔
ٹرمپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ، بظاہر سیاسی لطافت میں لپٹے ہوئے،درحقیقت ایک غیرمعمولی فہم کی غمازی کرتے ہیں۔ وہ ایران کو ’’شایددوسروں سے بہتر‘‘جانتے ہیں، ایک ایسا اعتراف جوبسااوقات بادلوں کے پیچھے چھپے سورج کی ماننداپنی روشنی نہیں دکھاتامگرگرمی ضرور دیتا ہے۔ان کے یہ الفاظ کہ’’ہم اس صورتحال سے خوش نہیں‘‘،سفارتی ادب کاوہ قرینہ ہے جس میں بیزاری کی تلخی خوش گفتاری کی شکرمیں لپیٹ دی جاتی ہے۔پاکستان،جوازل سے ہی تلوارکی دھار اورپل صراط پرچلنے کاعادی رہاہے،ایک بارپھراس تاریخ کے موڑپرکھڑاہے جہاں اسے اپنی پالیسی کاکمال دکھاناہوگانہ بے نیازی کادعوی،نہ بے نیازی کی ہزیمت،بلکہ حکمت کی روشنی اورخودداری کی رہنمائی۔
(جاری ہے)