تہذیبوں کا تصادم اور پاکستان کی آزمائش
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
تاریخ کے اوراق میں کبھی کبھی ایسے لمحے نمودار ہوتے ہیں جوسطحی نگاہوں سے محض ملاقاتیں دکھائی دیتے ہیں،مگر بصیرت کی نگاہ میں وہ تاریخ کے دھارے بدلنے والے لمحے بن جاتے ہیں۔ دنیا ایک نئے عبوری دورسے گزررہی ہے۔روس و یوکرین کی جنگ کے شعلے ابھی ختم نہیں ہوئے کہ مشرقِ وسطی کابگڑتامنظرنامہ،ایک نیاسوالیہ نشان لیے سامنے آ گیا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کاپراناتصوراب محض تھیوری نہیں بلکہ حقیقت بن چکا ہے۔ایران اوراسرائیل کے مابین بڑھتی کشیدگی نے ایک ایسادھواں اٹھادیاہے جس کی لپٹیں خلیج فارس سے ہوتی ہوئی،واشنگٹن،تل ابیب، تہران،بیجنگ، ماسکو اورنئی دہلی تک پہنچ چکی ہیں۔ایران کاحیفہ اورتل ابیب پرحملہ،اس بات کی علامت ہے کہ مشرقِ وسطی کے جنگی افق پر اب صرف عسکری حملے نہیں بلکہ علامتی تہذیبی واربھی شامل ہوچکے ہیں۔
بین الاقوامی تناظرمیں تہذیبی تصادم اور صف بندی کی نئی بساط بچھاکردنیاکانقشہ تبدیل کرنے کی سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ کلیدی عالمی مظاہرمیں امریکااسرائیل کابے مثال حلیف کا کرداراداکرتے ہوئے تمام عالمی قوانین اور اخلاقیات کوپاؤں تلے مسل رہا ہے جبکہ ایران اپنے دفاعی نظریے کواسلامی مزاحمت کالباس پہنا چکا ہے۔ روس،امریکاکی عسکری مداخلت کامخالف اور چین خاموشی سے اپنی موجودگی مستحکم کر رہا ہے۔ یورپی ممالک چاہنے کے باوجوداس بحران میں کھل کرکرداراداکرنے سے قاصرہیں۔
عرب ریاستیں تذبذب میں ہیں۔سعودی عرب مصالحت پرمائل،امارات محتاط اور قطر دودھاری پالیسی پرکھڑاایک بڑی آزمائش میں مبتلا ہے کہ اس نے اربوں ڈالراپنی گرہ سے لگاکر ہزاروں میل دوربسنے والے قصرسفید کے مکین کو اپنی سریع الحرکت افواج کو علاقہ کاسب سے بڑا بحری اڈہ بناکرپیش کردیااوراب اگراس اڈے کونشانہ بنایاجاتاہے توقطرکی برسوں کی محنت کے بعدجاری خوشحالی خاکسترہوسکتی ہے۔اس سارے تناظر میں اگرکسی ملک کی ایک ’’خاموش موجودگی‘‘ عالمی حلقوں میں توجہ حاصل کر رہی ہے تووہ پاکستان ہے۔
دنیاکے افق پرجب افلاک سیاست کے ستارے گردش میں آتے ہیں،اورتہذیبوں کے مابین کشیدگی کی بجلیاں کڑکنے لگتی ہیں،تب ایک خاموش ملاقات بھی گونج دارپیغام بن جاتی ہے۔ واشنگٹن کی سنگین فضامیں جب جنرل عاصم منیر، پاکستان کی عسکری قیادت کاپیکرِوقار،وائٹ ہاس کی دہلیزپرقدم رکھتاہے،تویہ محض ایک رسمی مصافحہ نہیں ہوتابلکہ تہذیبوں کے مابین ایک خاموش مکالمہ آغازپاتاہے۔پاکستان کا کردار نہایت پیچیدہ اورحساس نوعیت کاہے۔بطورایک ایٹمی اسلامی ریاست،اس کی پوزیشن دنیابھرمیں منفرد ہے۔جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے غیرمعمولی ملاقات اسی حساسیت کا مظہر ہے۔
یہ ملاقات محض ایران واسرائیل کے تنائو کے تناظرمیں نہیں دیکھی جاسکتی،کیونکہ درحقیقت یہ مکالمہ اس بڑے منظرنامے کا ایک جزہے جس میں طاقت کی بساط پرنئی چالیں چلی جارہی ہیں۔یہ اس وقت ہواجب مشرقِ وسطی میں آتش وآہن کے بادل چھائے ہوئے ہیں،حیفہ کی بندرگاہیں جل رہی ہیں،تل ابیب دھواں دھواں ہے،اورتہران کے ایوانوں میں صدائے احتجاج گونج رہی ہے۔
حالیہ دنوں واشنگٹن میں وائٹ ہاس کے درودیوارایک ایسی ہی ملاقات کے گواہ بنے جب جنرل عاصم منیراورامریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے مابین ایک غیرمعمولیاورشیڈول سے طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کومحض رسمی مصافحہ نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے تہذیبی مکالمے،عسکری توازن، سفارتی چالاکی اورمستقبل کی عالمی سیاست کی تمہید کے طورپردیکھاجاناچاہیے۔
اس ملاقات کی گونج صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی فضاتک محدودنہیں،بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی دھڑکتی ہوئی نبض، ایران اور اسرائیل کے درمیان سلگتاہواتنازع،اورمسلم دنیا کے مجموعی موقف سے مربوط ہے۔ٹرمپ اورجنرل منیر کی ملاقات میں مشرق وسطی کے حالاتِ حاضرہ، بالخصوص ایران واسرائیل کشیدگی،پرتفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ یہ ملاقات محض پروٹوکول کا حصہ نہیں رہی بلکہ اسے واشنگٹن میں اسٹریٹیجک کامیابی کے طور پردیکھاجارہاہے۔ٹرمپ نے جنرل منیرکا ’’شکریہ‘‘ اداکیاکہ انہوں نے بھارت کے ساتھ ممکنہ جنگ کوروکنے میں کرداراداکیا۔
امریکی تجزیہ نگاربارباراس ملاقات کو ’’شراکت داری میں نئی پیش رفت‘‘قراردے رہے ہیں۔اس کے پیشِ نظرپاکستانی فوج نے خطے میں اپنی عسکری ساکھ برقراررکھی جبکہ سفارتی سطح پربھی امریکاکے ساتھ تعلقات مستحکم ہوئے،خاص کراس وقت جب پاکستان توازن برقراررکھتے ہوئے چین کے ساتھ بھی جدید دفاعی لین دین کررہاہے۔
صدرٹرمپ نے ملاقات کے بعدجوجملے ادا کیے، وہ محض رسمی سفارتی جملے نہیں،بلکہ اس بات کا عندیہ تھے کہ ایران کے حوالے سے ان کی معلومات اورتعلقات گہرے ہیں:’’ وہ ( جنرل عاصم منیر) ایران کوبہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ شایددوسروں سے بہتر‘‘۔یہ جملہ فقط ایک شخصیت کی معلومات کااظہارنہیں،بلکہ امریکاکی داخلی پالیسی اوراسرائیل کی پشت پرموجودامریکی ذہنیت کی سفارتی علامت کی بھی ایک جھلک ہے۔ گویاایران کے ساتھ ان کی دانستہ خاموش وابستگی اب بے نقاب ہورہی ہے۔ ایسے بیانات سفارتی چالوں میں کئی بار’’مذاکرات کے دروازے‘‘ کھلے رکھنے کاحربہ ہوتے ہیں۔
ٹرمپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ، بظاہر سیاسی لطافت میں لپٹے ہوئے،درحقیقت ایک غیرمعمولی فہم کی غمازی کرتے ہیں۔ وہ ایران کو ’’شایددوسروں سے بہتر‘‘جانتے ہیں، ایک ایسا اعتراف جوبسااوقات بادلوں کے پیچھے چھپے سورج کی ماننداپنی روشنی نہیں دکھاتامگرگرمی ضرور دیتا ہے۔ان کے یہ الفاظ کہ’’ہم اس صورتحال سے خوش نہیں‘‘،سفارتی ادب کاوہ قرینہ ہے جس میں بیزاری کی تلخی خوش گفتاری کی شکرمیں لپیٹ دی جاتی ہے۔پاکستان،جوازل سے ہی تلوارکی دھار اورپل صراط پرچلنے کاعادی رہاہے،ایک بارپھراس تاریخ کے موڑپرکھڑاہے جہاں اسے اپنی پالیسی کاکمال دکھاناہوگانہ بے نیازی کادعوی،نہ بے نیازی کی ہزیمت،بلکہ حکمت کی روشنی اورخودداری کی رہنمائی۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ کے مابین کے ساتھ رہی ہے
پڑھیں:
کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ
اسلام ٹائمز: یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)
دنیا کی تاریخ میں کچھ جنگیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف بارود کے دھوئیں میں نہیں لکھی جاتیں بلکہ قوموں کے عزم، نظریات، عقیدے اور استقلال کے لہو سے رقم ہوتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان 1980ء میں شروع ہونے والی جنگ بھی ایسی ہی ایک جنگ تھی۔ اس جنگ میں صدام حسین نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کی۔ مہلک کیمیکل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایران کے بے شمار نڈر، فدائی اور مخلص جوان شہید ہوئے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایران، باوجود عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کے، نہ جھکا، نہ ٹوٹا، نہ بکا۔ ایران کی قوم نے اپنے نومولود انقلاب کے آغاز ہی میں جس دلیری، شعور، اور ایمانی طاقت کا مظاہرہ کیا، وہ ایک زندہ معجزہ ہے۔ آج 46 سال بعد، یہ انقلاب صرف ایران کے گلی کوچوں میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ جس نظام کو عالمی سامراج "موقّت خروش" سمجھ رہا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور دشمن یہ مان چکا ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑنا اب اس کے بس میں نہیں۔
اب آتے ہیں حالیہ جنگی منظرنامے کی طرف۔ ایران اور اسرائیل کے مابین جو تصادم اس وقت جاری ہے، وہ درحقیقت دہائیوں کی پراکسی جنگوں کا براہ راست رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ لڑائی نہ تو اچانک شروع ہوئی ہے، نہ ہی کسی محدود دائرے تک محدود ہے۔ حزب اللہ لبنان کی قیادت کا قتل، اسماعیل ہانیہ کے خاندان پر حملہ، شام میں رجیم چینج اور ایران کو تنہا کرنے کی منظم کوششیں۔ یہ سب اس طویل منصوبے کا حصہ تھیں جسے امریکہ، یورپ، اسرائیل، اور ہندوستان نے مل کر ترتیب دیا۔ ان طاقتوں نے نہ صرف ایران کے خلاف اندرونی غداروں کو استعمال کیا بلکہ جاسوسی نیٹ ورک، ڈرون بیسز اور حساس اہداف کو نشانہ بنانے جیسی خطرناک سازشیں بھی تیار کیں لیکن ایران نے کمال مہارت، سیاسی بصیرت اور انٹیلیجنس برتری سے ان تمام سازشوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنی دفاعی پوزیشن کو بحال کر کے اسرائیل کو کرارا جواب دیا۔
جب امریکہ نے دیکھا کہ اسرائیل میدانِ جنگ میں ہانپ رہا ہے تو خود براہِ راست کود پڑا۔ مگر ایران نے نہ صرف اس حملے کا بھی بھرپور جواب دیا بلکہ امریکہ کو یہ باور کرا دیا کہ اب "دھمکی" کا دور گزر چکا ہے۔ یہ "ردِ عمل" کا دور ہے۔ فی الحال اگرچہ ایک عارضی جنگ بندی نافذ ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ایران اس وقت دفاعی و تزویراتی لحاظ سے مکمل برتری رکھتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، یورپ اور ہندوستان اپنے تمام تر وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران واقعی اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ ایران کی اولین ترجیحات میں اسرائیل کی مکمل نابودی شامل ہے۔ ایران اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج کا غاصب اڈہ سمجھتا ہے۔ ایک ناجائز وجود جو ظلم، دہشت اور استعماری مفادات کا محافظ ہے۔ تاہم، ایران اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے درست وقت، بین الاقوامی حالات اور علاقائی توازن کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔
ممکن ہے، جب وقت موافق ہوا، تو ایران یہ مقصد بھی حاصل کر گزرے اور دنیا ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کو دیکھے۔ جہاں تک اس جنگ کی مدت کا تعلق ہے، تو یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ انجام کب اور کیسے ہوگا اور دنیا کا ضمیر کس طرف کھڑا ہوگا؟