Daily Sub News:
2025-06-26@16:35:58 GMT

حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ

حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ WhatsAppFacebookTwitter 0 26 June, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

حضرت عمر فاروقؓ، اسلام کے دوسرے خلیفہ، انسانی تاریخ کی سب سے بااثر اور قابلِ تقلید شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ کی زندگی بہادری، عدل، انکساری اور اسلام کے لیے غیر متزلزل وابستگی کا ایک خوبصورت امتزاج تھی۔ حضرت عمرؓ اپنے بے خوف مزاج، تیز فہم و فراست اور احساسِ ذمہ داری کے سبب مشہور تھے، اور آپ نے نہ صرف ایک عظیم حکمران بلکہ ایک مدبر ریاست دان کے طور پر بھی مقام حاصل کیا جن کی میراث آج بھی اقتدار اور ایمان کے ایوانوں میں گونجتی ہے۔ آپ صرف خلافت کے وارث نہ تھے بلکہ ان اقدار کا مجسم پیکر تھے جن کی تعلیمات ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دی تھیں، اور جن کی صحبت اور اعتماد آپؓ کو بے حد عزیز تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمر ہوتا۔” (ترمذی، حدیث 3686)
یہ اس بلند مرتبے کی گواہی ہے جو حضرت عمرؓ کو ابتدائی مسلم معاشرے میں حاصل تھی۔ آپؓ ان دس جلیل القدر صحابہؓ میں بھی شامل تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی، جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ، رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابیوں میں سے تھے، جن کا اسلام قبول کرنا مکہ میں مظلوم مسلمانوں کے لیے تقویت اور حوصلے کا باعث بنا۔ آپؓ کا ایمان لانا ایک ایسا فیصلہ کن موڑ تھا کہ مسلمان پہلی بار بیت اللہ میں علانیہ نماز ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ آپؓ کا ایمان مضبوط، غیر متزلزل اور خالص تھا—جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت پر مبنی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت اور عقیدت مزید گہری ہوتی چلی گئی، اور یہی جذبہ آپؓ کے ہر فیصلے اور ہر عمل کی رہنمائی کرتا رہا۔

خود قرآن مجید نے ایسے صحابہ کرامؓ کی راستبازی کی گواہی دی ہے:
”محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں…”
(سورۃ الفتح، 48:29)
یہ آیت حضرت عمرؓ کی صفات کی عکاسی کرتی ہے، جو باطل کے خلاف سخت گیر اور مومنوں کے لیے نہایت نرم دل تھے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وصال کے بعد خلافت کی ذمہ داری حضرت عمرؓ کے کاندھوں پر آئی۔ آپؓ کا دورِ حکومت اگرچہ عظیم فتوحات اور اسلامی سلطنت کی وسعت کے حوالے سے جانا جاتا ہے، مگر یہ محض زمینوں کی ہوس سے نہیں بلکہ عدل، مساوات اور عوامی فلاح پر مبنی تھا۔ فارس سے لے کر روم تک، آپؓ کی عسکری قیادت نے بڑے بڑے سلطنتوں کو شکست دی، لیکن آپؓ کی انفرادیت تلوار سے زیادہ اُن اصولوں میں تھی جنہیں آپؓ نے تھاما ہوا تھا۔ فتح کے بعد بھی انکساری اور اقتدار میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا گہرا احساس آپؓ کے کردار کا نمایاں وصف تھا۔
حضرت عمرؓ راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں بھیس بدل کر گشت کرتے تاکہ اپنی رعایا کے حالات خود دیکھ سکیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ عدل و انصاف معاشرے کے سب سے نچلے طبقے تک پہنچے۔ آپؓ کی انتظامی بصیرت نے ایسی حکمرانی کی بنیاد رکھی جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن گئی۔ آپؓ نے ہجری تقویم کا آغاز کیا، دیوان (سرکاری رجسٹر) قائم کیا، پنشن کا نظام متعارف کرایا، سڑکیں اور نہریں تعمیر کروائیں، مختلف علاقوں میں قاضی مقرر کیے اور بیت المال (عوامی خزانہ) کی بنیاد رکھی۔ آپؓ نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف کا برتاؤ یقینی بنایا، انہیں تحفظ دیا اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی۔

آپؓ کی حکمرانی اتنی مثالی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ابن ماجہ، حدیث 106”بے شک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق رکھ دیا ہے۔”
متعدد مواقع پر قرآن کی آیات حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئیں۔ مثلاً بدر کے قیدیوں کے بارے میں، پردے کے حکم کے بارے میں، اور شراب کی حرمت کے سلسلے میں۔ ان مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

بخاری، حدیث 402 ”اللہ اور اس کا رسول عمر سے متفق ہیں۔”
اپنے بلند مرتبے اور عظیم کارناموں کے باوجود حضرت عمر فاروقؓ نے زاہدانہ زندگی گزاری۔ آپؓ موٹے کپڑے پہنتے، سادہ کھانا کھاتے اور کبھی عام لوگوں سے فاصلے پر نہ رہے۔ ایک موقع پر جب ایک شخص نے آپؓ سے آپ کی قمیص کی لمبائی کے بارے میں سوال کیا تو آپؓ نے اس معاملے کو عوام کے سامنے کھول کر بیان کیا، جو آپؓ کی شفاف اور جوابدہ حکمرانی کا روشن ثبوت ہے۔ آپؓ صرف حکمران نہ تھے بلکہ عوام کے خادم تھے، اور ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ یہ نہ پوچھ لے کہ تمہاری رعایا میں سے کوئی ایک شخص بھی بھوکا کیوں سویا۔
آپؓ نے قرآن مجید کی اس ہدایت کے عین مطابق حکمرانی کی:

بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حقداروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔
(سورۃ النساء، 4:58)
حضرت عمرؓ نے اس آیت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا، اور ایک وسیع و عریض اور متنوع سلطنت کے سچے امانت دار کی حیثیت سے زندگی گزاری۔
جب ہم تاریخ کی روشنی میں حضرت عمرؓ کی زندگی کو دیکھتے ہیں، تو آج کے مسلم دنیا کے حالات خود بخود ہمارے ذہن میں اُبھر آتے ہیں۔ اندرونی خلفشار، بیرونی دباؤ، معاشی بحرانوں اور سیاسی انتشار میں گھری ہوئی مسلم اُمت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی دنیا کے رہنماؤں کو حضرت عمر فاروقؓ کو صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ الٰہی رہنمائی پر مبنی قیادت کے نمونے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اُنہیں حضرت عمرؓ کی فراست، بصیرت، جرا?ت اور سب سے بڑھ کر اللہ پر غیر متزلزل توکل کو اپنانا چاہیے۔ یہ اوصاف محض نظریاتی تصورات نہیں، بلکہ آج کی مسلم اقوام کو تقسیم، انحصار اور شکست خوردگی کے شکنجوں سے نکالنے کے لیے ناگزیر ہتھیار ہیں۔
اگر آج کے مسلم رہنما حضرت عمرؓ کی صفات کا صرف ایک حصہ بھی اپنا لیں، تو وہ نئی طاقت اور مقصد سے سرشار ہو سکتے ہیں۔ ان کا اللہ پر توکل کوئی ساکت جذبہ نہ تھا—بلکہ متحرک، جری اور عمل، مشاورت (شوریٰ) اور عدل سے جُڑا ہوا تھا۔ ان کی جرا?ت غرور نہیں تھی—بلکہ اصولوں پر مبنی اور احتساب کے دائرے میں محدود تھی۔ ان کی دوراندیشی چالاکی نہیں تھی—بلکہ اخلاص اور ایثار پر مبنی تھی۔ صرف ایسے کردار کے ذریعے ہی آج کے رہنما اس دور کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اسلامی دنیا کی وہ عظمت دوبارہ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں، جو کبھی اس کا شعار تھی۔
حضرت عمرؓ کی شہادت یکم محرم کو اس وقت ہوئی جب وہ مسجدِ نبوی میں فجر کی نماز کی امامت کر رہے تھے، اور ایک فارسی غلام ابو لولوہ فیروز نے حملہ کر کے آپؓ کو زخمی کیا۔ ان آخری لمحات میں بھی آپؓ کے دل میں انتقام یا غصے کا کوئی جذبہ نہ تھا، بلکہ صرف عدل اور خلافت کی پرامن منتقلی کی فکر تھی۔ آپؓ کا مدفن رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں مسجدِ نبوی کے مقدس حجرے میں ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ آپؓ کو زندگی اور موت دونوں میں نبی کریم ﷺ سے قرب حاصل تھا۔
حضرت عمرؓ نہ صرف ایک عظیم اور عادل اسلامی ریاست کے معمار تھے، بلکہ وہ ان تمام اصولوں کا عملی پیکر تھے جنہیں اسلام نے ہمیشہ بلند مقام دیا ہے—عدل، انکساری، تقویٰ، نظم و ضبط اور خدمت خلق۔ جیسے جیسے دنیا پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، اُن کے اصولوں کو قیادت میں یاد رکھنا اور زندہ کرنا محض تعظیم کا تقاضا نہیں بلکہ وقت کی شدید ضرورت ہے۔ ان کی زندگی اور شہادت حکمرانوں اور عوام دونوں کے لیے ایک لازوال سبق ہے کہ حقیقی طاقت زمینوں پر قبضے میں نہیں، بلکہ اللہ کی نگرانی میں انسانیت کی خدمت میں ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کی غزہ میں دہشت گردی بڑھ گئی، امداد کے متلاشی 80 فلسطینی شہید ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟ میزانیہ اور زائچہ مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوال جھوٹے دیو قامتوں کا زوال TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق

پڑھیں:

حکومت آزادکشمیر جعلی سٹیٹ سبجیکٹ کے حامل شخص کو تحفظ دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، محمد فاروق حیدر

ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ آزاد کشمیر کے منتخب ایوان کے اندر جب عوامی مسائل پر بات نہیں ہو گی تو لوگوں میں احساس محرومی بڑھے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ حکومت آزاد کشمیر ایک جعلی اسٹیٹ سبجیکٹ کے حامل شخص کو تحفظ دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے کابینہ کسی غیر ریاستی کو ریاستی شہری نہیں بنا سکتی، اس حوالے سے تمام آئینی قانونی فورمز پر اس کے خلاف چارہ جوئی کرینگے۔سید شوکت شاہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک قابل مذمت، ایوان کی عزت و تکریم قائم رکھنا سپیکر کی ذمہ داری ہے، مہاجرین کے خلاف نہیں لیکن ان کا نام استعمال کر کہ جعلسازی کرنے والوں کا راستہ روکیں گے، آزاد کشمیر میں برادریوں کی اجارہ داری ہے، چھوٹی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں، کیا ان کا جینے کا حق نہیں، یہ رویہ بدلنا ہو گا طاقتور کے لیے الگ اور کمزور کے لیے الگ قانون نہیں ہونا چاہیے۔ قانون ساز اسمبلی سیکرٹریٹ میں آزاد کشمیر بھر سے آئے وفود سے بات چیت کرتے ہوئے راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ این ٹی ایس میرٹ لسٹ میں انتظاریہ فہرست میں موجودہ امیدواران کی اگلے امتحان تک خالی آسامیوں پر عارضی تقرریوں کے بجائے مستقل تقرریاں کی جائیں یہ امر افسوسناک ہے کہ پاس کرنے والوں کی قطعی عارضی تقرریاں کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے مقابلے کا امتحان پاس کیا ہے ان کی مستقل بنیادوں پر تقرریاں ہونی چاہیں حکومت کی نا کوئی سمت ہے نا ہی پالیسی جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ آزاد کشمیر کے منتخب ایوان کے اندر جب عوامی مسائل پر بات نہیں ہو گی تو لوگوں میں احساس محرومی بڑھے گا، قانون ساز اسمبلی کی کاروائی براہ راست مقامی کیبل آپریٹرز اور سوشل میڈیا کے اوپر نشر ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ان کے منتخب نمائندے ایوان میں ان کی ترجمانی کیسے کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایم کیو ایم کے وفد کی سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب سے ملاقات
  • ایرانی معیشت سے پابندیاں ہٹیں تو مطلب ہوگا ایران جیت گیا، نیتن یاہو کو شکست ہوگئی: عادل نجم
  • ایران کی کامیاب مزاحمتی حکمت عملی پر میرواعظ عمر فاروق کی مبارکباد
  • تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا
  • حکومت آزادکشمیر جعلی سٹیٹ سبجیکٹ کے حامل شخص کو تحفظ دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، محمد فاروق حیدر
  • جموں و کشمیر کا وجود ختم کرنے کی سازشیں آج بھی جاری ہیں، فاروق عبداللہ
  • بابراعظم یا کوہلی؛ کِس کی کور ڈرائیو زیادہ بہتر۔۔۔
  •  یہود ہو یا ہنود وہ شیعہ اور سنی کی تمیز سے ہٹ کر اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے، فاروق خان سعیدی 
  • ایران کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا اگلا ہدف عرب ممالک ہیں، فاروق عبداللہ