پشاور، جامعۃ الشہید عارف الحسینی میں ’’عظمت شہداء و استقبال محرم‘‘ کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام امن ایوارڈ کے لیے پاکستان کی جانب سے تجویز کرنے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس تجویز کو واپس لینے پر زور دیا گیا۔ کانفرنس سے مرکزی خطاب بزرگ عالم دین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کیا۔ اسلام ٹائمز۔ جامعۃ الشہید سید عارف حسین الحسینی پشاور میں ’’عظمت شہداء و استقبال محرم‘‘ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں صوبہ بھر سے آئے علماء نے شرکت اور خطاب کئے۔ علماء نے محرم الحرام کی مجالس میں ایسی تقاریر پر زور دیا جو مطابق قرآن و فرامین محمد و آل محمد ہوں، ساتھ ہی امت میں اتحاد بڑھانے اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے مفید ہوں۔ مقررین نے محرم الحرام سے پہلے دو اسلامی اور ہمسایہ ممالک (پاکستان اور ایران) کے کفار یعنی گجرات کے قصاب مودی سرکار اور غاصب اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں پاکستان اور ایران کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے محرم الحرام میں اس حوالے سے گفتگو کی ضرورت پر زور دیا۔ آخر میں ضلع کرم کی مشکلات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام امن ایوارڈ کے لیے پاکستان کی جانب سے تجویز کرنے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس تجویز کو واپس لینے پر زور دیا گیا۔ کانفرنس سے مرکزی خطاب بزرگ عالم دین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پر زور دیا
پڑھیں:
جب بلتستان ایک پرچم تلے جمع ہوا
اسلام ٹائمز: یہ اجتماع صرف ایک برسی کی رسم نہیں بلکہ ملتِ تشیع بلتستان کے لیے امید، عزم اور بیداری کا پیغام بن کر ختم ہوا۔ مرکزی جامع مسجد سکردو سے گونجتی تکبیر کی صدائیں، حاضرین کے دلوں میں اتحاد کی حرارت اور قائدین کی بصیرت افروز باتیں اس دن کو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے رقم کر گئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب بلتستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ اختلافات کے باوجود ایک پرچم تلے اکٹھا ہو کر ملت کی بقاء اور شہیدِ قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کے مشن کو آگے بڑھانا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ تحریر: آغا زمانی
سکردو کی فضاؤں میں اس دن ایک الگ ہی سکون اور سنجیدگی تھی۔ موسم کی خنکی میں کہیں دور سے آتی ہوا مرکزی جامع مسجد کے بلند مینار سے ٹکرا کر جیسے ملت کے دلوں میں اتحاد کی صدا جگا رہی تھی۔ یہ 15 صفر المظفر 1447ھ اور 10 اگست 2025ء کا دن تھا۔ قائدِ محبوب، شہیدِ مظلوم علامہ سید عارف حسین الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی 37ویں برسی کا دن۔ جامع مسجد کے صحن میں لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ سفید عمامے، سیاہ دستاریں، ہاتھوں میں تسبیح اور چہروں پر سنجیدگی کا سایہ۔ یہ سب اس بات کا ثبوت تھے کہ یہاں صرف ایک یاد تازہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک عہد دہرانے کے لیے جمع ہوا گیا ہے۔ یہ اجتماع ایک منفرد منظر پیش کر رہا تھا۔ امامیہ آرگنائزیشن بلتستان ریجن، مجلس وحدت المسلمین، اسلامی تحریک، آئی ایس او، تحریک بیداری امت مصطفیٰ اور جے ایس او۔ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع تھے۔
یہ تقریب اتحاد بین المومنین کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ اس کا سہرا امامیہ آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ریجن کے ذمہ داروں کو جاتا ہے، کیونکہ ہر سال قائدِ شہید کی برسی کا پروگرام آئی او تنہاء کرتی تھی، اس سال آئی او بلتستان ریجن کے مسئولین نے احساس کیا کہ شہید قائد کی برسی کے اجتماع کو اجتماعی انداز میں منعقد کیا جائے۔ انہوں نے باقی متحرک اور فعال مذہبی تنظیموں سے رابطے بڑھائے، الحمدللہ تمام تنظیموں کے مسئولین نے بھی ذمہ داری کو خلوص سے محسوس کیا اور سب تنظیموں کی کوششوں سے اس بار شہید قائد کی برسی پر مشترکہ ملی اتحاد کی خوبصورت تصویر نظر آئی۔ اجتماع میں بزرگ عالم و داعی وحدت علامہ شیخ محمد حسن جعفری حفظہ اللہ بھی شریک ہوئے۔
جب تقریر کا سلسلہ شروع ہوا تو سامعین کی نظریں منبر کی طرف جم گئیں۔ بلتستان ریجن کے مسئول اصغر علی جوادی کی پرجوش آواز نے آغاز کیا۔ پھر قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغروی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے فرزند اور کراچی کی جامع مسجد نورِ ایمان کے امام جمعہ علامہ مرزا یوسف حسین نے حاضرین کے دلوں کو گرما دیا۔ معروف مذہبی اسکالر علامہ شیخ ڈاکٹر یعقوب بشوی کی مدلل گفتگو اور صدر انجمن امامیہ بلتستان، نائب امام جمعہ و جماعت مرکزی جامع مسجد سکردو علامہ سید باقر الحسینی کے الفاظ میں ایک درد بھی تھا اور پیغام بھی۔ گلگت سے تشریف لائے ہوئے امام جمعہ علامہ سید راحت الحسینی کی آواز میں بھی ملت کے زخموں کا کرب جھلک رہا تھا۔ تقریب کی نظامت برادر قاسم کے ذمہ تھی، جو ایک ایک مقرر کو احترام اور وقار کے ساتھ دعوتِ خطاب دے رہے تھے۔
علامہ سید باقر الحسینی نے جب مائیک سنبھالا تو مسجد کے اندر ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ ان کی آواز میں ایک درد بھرا سوال تھا: "قائد سید شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کو آج 37 برس گزر گئے، مگر ملت اس کے بعد دوبارہ متحد نہ ہو پائی۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت نکل چکے ہیں۔ پوری ملت کو ایک بیانیہ پر متفق ہونا ہوگا۔" وہ لمحہ اور بھی سنجیدہ ہوگیا، جب انہوں نے کہا: "ہم نے پاکستان کی سالمیت کے لیے اتحاد بین المسلمین کا راستہ اپنایا، لیکن ہمارے اخلاص کو ہماری مجبوری نہ سمجھا جائے۔۔ ورنہ گلی گلی سے مختار نکل آئیں گے۔" ان کا لہجہ ایک طرف اتحاد کا درس دے رہا تھا تو دوسری طرف ظلم کے خلاف ایک خاموش اعلانِ جنگ بھی تھا۔ انہوں نے ملت کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "ہم نے پاکستان میں بیس ہزار شہداء دیئے ہیں۔ 1994ء کے انتخابات میں گلگت بلتستان کی تاریخ ساز کامیابی کے بعد ملت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا، مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری۔"
جامع مسجد میں سجائے گئے اسٹیج کے ڈائس پر موجود علامہ سید راحت الحسینی کی نگاہیں حاضرین پر جمیں تھیں اور ان کے الفاظ گویا دل کے نہاں خانوں کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ ان کی آواز میں وہی وقار اور ٹھہراؤ تھا، جو ایک بزرگ قائد کی پہچان ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ لہجے میں ملت کے لیے فکر کی آگ بھی دہک رہی تھی۔ "وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہی تھی کہ ملت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو۔۔ اور آج الحمدللہ اہلیانِ بلتستان نے یہ کر دکھایا ہے۔" یہ جملہ گونجتے ہی مجمع میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف فخر سے دیکھنے لگے، جیسے اس اجتماع میں شریک ہونا خود ایک کارنامہ ہو۔ علامہ سید راحت الحسینی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "قائد محبوب، شہیدِ مظلوم علامہ سید عارف حسین الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کا یہ عظیم الشان اجتماع، ملتِ تشیع بلتستان کے نام پر، ایک تاریخی قدم ہے۔ آپ سب لائقِ تحسین ہیں۔ مگر یاد رکھیں۔۔ اس اتفاق کو برقرار رکھنا اصل امتحان ہے۔"
پھر ان کی آواز میں محبت اور اعتراف کا ایک رنگ گھل گیا: "مردِ مجاہد آغا علی رضوی اور آغا باقر الحسینی، خدا کی خاص نعمت ہیں۔ اے مومنو۔۔ ان کا ساتھ دو۔" وہ لمحہ اور زیادہ سنجیدہ ہوگیا، جب علامہ نے ماضی کا ایک زخم چھیڑ دیا: "گلگت بلتستان میں ایک ابنِ زیاد کی حکومت تھی۔۔ وہ حکومت جس کا بیان آج بھی دل کو تڑپا دیتا ہے۔۔۔۔ کہ شیعوں کو میں نے سو سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔" مجلس کے کچھ چہروں پر غصے اور بے بسی کے آثار ابھر آئے۔ علامہ نے ان کے جذبات کو پڑھ لیا اور کہا: "اسمبلی میں نڈر، غیرت مند نمائندے منتخب کریں۔ بلتستان میں ایسے جوانوں کو آگے لائیں، جو جرات اور بصیرت رکھتے ہوں۔ یاد رکھیں۔۔ جس حکومت کو عوام منتخب نہ کریں، وہ عوام کے تحفظات کی حفاظت نہیں کر سکتی۔"
پھر انہوں نے ایک ایسی تلخ حقیقت بیان کی، جو سب کے دل پر چوٹ کر گئی: "وفاق اور گلگت بلتستان میں اداروں کی حکومت ہے، عوامی حکومت نہیں۔ جب کسی ادارے نے حکومت بنائی ہو تو اسے عوام سے کیا لینا دینا۔؟ پولیس اور بعض اداروں میں کچھ ایسے بھی ہیں، جو محض دو ہزار روپے کے عوض ملت کے راز بیچ دیتے ہیں۔ آغا باقر کی ویڈیو اور آغا ضیاءالدین کے خلاف رپورٹ۔۔ انہی غداروں کی کارستانی ہے۔" ان کے آخری جملے نے ہال میں ایک خاموش عزم کی لہر دوڑا دی۔ یہ محض ایک تقریر نہیں تھی، یہ ایک نسخۂ شفا تھا۔۔ زخموں سے چور ملت کے لیے اور آنے والے کل کے لیے ایک نقشۂ راہ۔
یوں یہ اجتماع صرف ایک برسی کی رسم نہیں بلکہ ملتِ تشیع بلتستان کے لیے امید، عزم اور بیداری کا پیغام بن کر ختم ہوا۔ مرکزی جامع مسجد سکردو سے گونجتی تکبیر کی صدائیں، حاضرین کے دلوں میں اتحاد کی حرارت اور قائدین کی بصیرت افروز باتیں اس دن کو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے رقم کر گئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب بلتستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ اختلافات کے باوجود ایک پرچم تلے اکٹھا ہو کر ملت کی بقاء اور شہیدِ قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کے مشن کو آگے بڑھانا ہی حقیقی کامیابی ہے۔