Express News:
2025-06-27@01:57:18 GMT

غدار کون، کھیل کیا ہے ؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

آج کل تحریک انصاف میں عجب ماحول ہے۔ سب ایک دوسرے کو ٹاؤٹ اور غدار کہہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا سیاسی دشمنوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوتا تھا۔ لیکن آج کل تحریک انصاف کی پاکستان کی قیادت خود ہی اس کا شکار نظر آرہی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اپنے ہی قائدین کو اسٹبلشمنٹ کا ٹاؤٹ اور کپتان کا غدار قرار دے رہا ہے۔

مجھے نہیں معلوم آپ سوشل میڈیا کتنا دیکھتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ گنڈا پور سمیت تمام کے پی قیادت کی تصاویر لگا کر غدار کے پوسٹر لگائے جا رہے ہیں۔ انھیں کپتان کا غدار کہا جا رہا ہے۔ کے پی حکومت کو اسٹبلشمنٹ کی حکومت قرار دیا جا رہا ہے۔

بانی تحریک انصاف نے دس جون کو ہدایت کی تھی کہ ان سے مشاورت کے بغیر بجٹ پاس نہ کیا جائے۔ انھوں نے واضح ہدایت کی تھی جب تک وہ اجازت نہ دیں بجٹ پیش بھی نہ کیا جائے۔ اس کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ کپتان کی مشاورت کے بغیر بجٹ پیش بھی ہوگیا اور پاس بھی ہوگیا۔ دیکھا جائے تو کپتان کی حکم عدولی ہو گئی ہے۔

کپتان سے غداری ہو گئی ہے۔ کپتان کا سوشل میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا کہ جب کپتان نے اجازت کے بغیر بجٹ پیش کرنے سے منع کیا تھا تو بجٹ پیش ہی کیوں کیا گیا پھر پاس کیوں کیا گیا۔ اس لیے کپتان کی بہن نے اس بڑے جرم پر کہا ہے کہ کپتان مائنس ہوگیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا کپتان کو مائنس کرنے کا کھیل کامیاب ہوگیا ہے۔ کپتان کی پارٹی نے اسے خود ہی مائنس کر دیا ہے۔ کسی مخالف کی کیا ضرورت ہے۔

دوسری طرف یہ دلیل ہے کہ اگر بجٹ پاس نہ کیا جاتا تو حکومت ختم ہو جاتی۔ صوبے میں وفاقی حکومت مالیاتی ایمرجنسی لگا دیتی، گورنر راج لگ جاتا، تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جاتی۔ غرض کہ ایسے ڈراؤنے منظر نامے پیش کیے جا رہے ہیں کہ لگ رہا ہے کہ اگر بجٹ پاس نہ ہوتا تو کے پی میں قیامت آجاتی۔ اس لیے تحریک انصاف کی کے پی حکومت کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ ایک طرف سیاسی قیامت تھی دوسری طرف کپتان کی حکم عدولی تھی۔ اس لیے انھوں نے سیاسی قیامت سے بچنے کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ وہ غدار نہیں ہیں۔ وہ مظلوم ہیں۔

یہ تو حقیقت ہے کہ اگر 30جون تک بجٹ پاس نہ ہوتا تو کے پی کی تحریک انصاف کی حکومت کے مالیاتی اختیارات ختم ہو جاتے۔ حکومت تو قائم رہتی لیکن اس کے پاس ایک روپیہ بھی خرچنے کے اختیارات نہ ہوتے۔ وزیر اعلیٰ کی سرکاری گاڑی میں پٹرول بھی نہیں ہوتا۔ سب کام رک جاتے۔ آخر سب کچھ پیسے سے ہی چلتا ہے۔ ویسے تو آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی حکومت بجٹ پاس نہ کروا سکے تو وہ حکومت ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ تو وہ صورتحال ہے کہ بجٹ پیش ہو اور ارکان اسمبلی بجٹ کے خلاف ووٹ دے دیں۔ لیکن شائد آئین میں کہیں ایسی کسی صورتحال کا ذکر نہیں کہ اگر کوئی حکومت بجٹ ہی پیش نہ کرے تو کیا ہوگا۔ بجٹ ناکام ہونے کی صورتحال کا لکھا ہوا ہے۔ بجٹ پیش ہی نہ کیا جائے تو کیا ہو گا۔

میں سمجھتا ہوں یہ تو درست ہے کہ حکومت پیسے نہیں خرچ کر سکے گی۔ نظام حکومت مفلوج ہو جائے گا۔ ملازمین کی تنخواہیں بھی نہیں دی جا سکیں گی۔ اسپتالوں میں ادویات بھی نہیں ہونگی۔ لیکن پھر بھی اسمبلی موجود ہوگی۔ وزیر اعلیٰ موجود ہوگا، کابینہ موجود ہوگی، وہ تو موجود رہیں گے۔ ایک آئینی بحران ضرور ہوگا۔ ایک مالی بحران تو ضرور ہوگا، ترقیاتی کام رک جائیں گے۔ کسی کو کوئی ادائیگی نہیں ہو سکے گی۔ لیکن یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ حکومت ختم ہو جائے گی۔

بانی تحریک انصاف کا آخری ٹوئٹ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بجٹ پاس ہونے پر خوش نہیں۔ وہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور ایک سرپلس بجٹ پیش کرنے پر خوش نہیں۔ اس لیے انھوں نے پھر کہا کہ مجھے آکر ملیں۔ ان کے ٹوئٹ میں صاف نظر آرہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کے پی کے بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا نہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف جانے اور وفاقی حکومت جانے۔ کے پی کا کیا تعلق۔ یقیناً اس طرح وفاقی حکومت کے لیے مسائل پیدا ہونگے۔ بلکہ وفاقی حکومت ہی نہیں پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہونگے۔

آئی ایم ایف کا پروگرام رک سکتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت ایک بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف نے پہلے بھی پاکستان کے آئی ایم ایف کے پروگرام کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ شوکت ترین اور تحریک انصاف کے پنجاب اور کے پی کے وزرا خزانہ کی آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں شوکت ترین انھیں آئی ایم ایف کا پروگرام خراب کرنے کا کہہ رہے تھے۔ اسی آڈیو کال میں پنجاب کے تحریک انصاف کے وزیر خزانہ محسن لغاری نے کہا کہ اس سے پاکستان کو تو نقصان نہیں ہوگا۔ تو شوکت ترین نے جواب دیا کہ آپ پاکستان کو نہیں خان کو دیکھیں۔ آج بھی وہی پروگرام لگتا ہے کہ کپتان جیل میں بیٹھ کر یہ سوچ رہا ہے کہ اگر اس کی حکومت آئی ایم ایف کی ڈیل خراب کر دے تو یہ اسٹبلشمنٹ اور حکومت اس کے پاؤں میں گر جائے گی۔ سب اس سے بات کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

دوسری طرف کے پی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ یہ ایک خطرناک کھیل ہے ۔ اس وقت اسٹبلشمنٹ بہت مضبوط ہے۔ تحریک انصاف کا آخری ٹرمپ کارڈ بھی ناکام ہوگیا ہوا ہے۔ لوگ احتجاج کے لیے باہر نہیں آرہے۔ تحریکیں ناکام ہو گئی ہیں۔

اسلام آباد پر چڑھائی ممکن نہیں۔ عدلیہ سے ریلیف مل نہیں رہا۔ ایک سہارا ہے کے پی کی حکومت ساری تحریک انصاف کے پی کی حکومت پر زندہ ہے۔ اس کی بھی قربانی ہوگئی تو سیاسی طورپر زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ سب مارے جائیں گے۔ دوسری طرف کپتان سوچ رہا ہے کہ میں تو جیل میں ہوں ۔ مجھے اس حکومت کا کیا فائدہ ہے۔ یہ حکومت مجھے کوئی ریلیف نہیں دلا سکی۔ مجھے رہا نہیں کروا سکی۔ اسلام آباد پر چڑھائی نہیں کر سکی۔ ایک مالیاتی حملہ کر کے دیکھتے ہیں شائد داؤ لگ جائے۔

تحریک انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی نے تحریک انصاف کی کے پی حکومت کو بجٹ پاس کرنے کی اجازت دی۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا پولیٹیکل کمیٹی کپتان کے حکم کو بدل سکتی ہے، اتنی با اختیار تو نہیں، اسے تو روزانہ کے معاملات دیکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کی اتنی اوقات کہ کپتان کی ہدایات کے بر عکس کوئی فیصلہ کر دے۔ اس لیے اسے بھی غداروں کی لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ گنڈا پور کا موقف ہے کہ انھیں اور ان کی ٹیم کو ملنے کی اجازت ہی نہیں مل رہی۔ وہ کیسے ملیں۔ لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ گنڈاپور کو ملنے کی اجازت نہیں ملی۔ لیکن بیرسٹر سیف کی ملاقات ہوگئی۔ اب کیا ہوگا۔ کھیل دلچسپ ہے۔

کیا کپتان گنڈاپور کو مستعفی ہونے کا کہے گا۔ ابھی تک نہیں کہا۔ کیا کپتان خود ہی اپنی کے پی حکومت ختم کر دے گا۔ شائد کپتان بحران پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس میں حکومت چلی جائے تو شہید ہو جائے۔ اسے خود ختم کرنا تو خود کشی ہوگی۔ وہ حکومت کی شہادت چاہتا ہے۔ اس لیے کھیل جاری ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو ا ئی ایم ایف وفاقی حکومت نہ کیا جائے کے پی حکومت سوشل میڈیا بجٹ پاس نہ وزیر اعلی رہا ہے کہ ہے کہ اگر کی حکومت کہ کپتان کپتان کی نہیں ہو بجٹ پیش اس لیے بھی نہ ہیں کہ گیا ہے کیا ہو کے لیے

پڑھیں:

ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں؛ بجٹ نے ثابت کردیا یہ سسٹم نہیں چل سکتا: شاہد خاقان

ویب ڈیسک : عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے، بجٹ نے ثابت کردیا کہ یہ سسٹم نہیں چل سکتا۔

پارٹی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ میں کوئی تبدیلیاں نہیں،  30 سال پرانا جیسا بجٹ ہے۔ اکاؤنٹنگ کا ہے اخراجات کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی  گئی۔ نئے ٹیکس لگا کر اور قرضہ لے کر حکومت اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔

صدر مملکت کا 11 بھارتی پراکسی دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین

انہوں نے کہا کہ ایسے بجٹ سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ معیشت یا ملک کے معاملات پر ایسے بجٹ کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔ بتایا جاتا ہے کہ میکرو اکنامک استحکام آگیا ہے، کموڈیٹی کی قیمت خاص طور پر خام تیل کم ترین سطح پر ہے ۔ حکومت اپنے معاملات درست نہ کرے، اصلاحات نہ کرے تو نمو کو ختم کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرتی ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس حکمت عملی کا اثر مالیاتی خسارے پر بھی پڑتا ہے لیکن اس سے غریب آدمی متاثر ہوتا ہے۔ 4 سال میں ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ شرح سود کو بلند رکھا گیا ۔ گیس بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ ان معاملات کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی ذمے داری روزگار کی فراہمی ہے۔ 4 سال میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔

مسعود پیزشکیان کا پاکستان کی مستقل حمایت پرشہباز شریف کا شکریہ 

سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بجٹ میں کوئی ریلیف نظر نہیں آتا ۔ کسی طبقے کو ریلیف نہیں ملا ۔ حکومت نے اپنے اخراجات میں کسی مد میں بھی کمی نہیں کی۔ وزرا کی تنخواہ میں 188 فیصد، اراکین اسمبلی نے اپنی تنخواہیں 400 فیصد بڑھا دیں، چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی بے پناہ اضافہ کرایا ۔ یہ اضافہ بیک ڈیٹ سے لاگو ہوگا  اور اس سے حکومتی نمائندوں کی سوچ ظاہر ہوتی ہے ۔

سربراہ عوام پاکستان پارٹی نے مزید کہا کہ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں ۔تقریباً آدھا پاکستان غریب ہے، 4کروڑ لوگ بدترین غربت کا شکار ہیں۔ حکمران طبقہ اپنی تنخواہیں بڑھانے میں مصروف ہے۔ 1988ء  سے 2018ء  تک تنخواہوں میں 20/25 فیصد اضافہ ہوا۔ اب یکمشت سیکڑوں فیصد اضافہ ہوا۔

ایران میں تمہارے فیصلہ کن ایکشن پر شکریہ! نیٹو کے سربراہ کا صدر ٹرمپ کو پیغام

انہوں نے کہا کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، حکمرانوں کی سوچ دیوالیہ ہوگئی۔ حکمرانوں کو عوام کا احساس نہیں اپنی جیب کا احساس ہے جب کہ دوسری طرف حکومت نے اپنے اخراجات میں بھی بے حد اضافہ کیا ۔ مرغی پر بھی 10 روپے فی چوزہ ٹیکس لگا دیا گیا ۔ ایف ای ڈی کے ذریعے حکومت کو مرغی سے اربوں روپے وصول ہوں گے۔ کیا یہ رقم حکومت اپنے اخراجات سے کم کرکے خسارہ پورا نہیں کرسکتی؟۔ کیا وزرا اور اراکین اسمبلی اپنی تنخواہوں میں کمی نہیں کرسکتے تھے؟۔

پاکستان کو پائیدار معاشی ترقی کیلئےبرآمدات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،  گوہر اعجاز 

انہوں نے مزید کہا کہ چینی کا شوق ہر حکومت کو ہوتا ہے۔ شوگر مل مالکان کا سیاست سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ ہوتا ہے۔ ہر حکومت کو چینی ایکسپورٹ کا بہت شوق ہوتا ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی چینی ایکسپورٹ ہوئی ۔ اس وقت بھی ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کی گئی جب قیمت 130 روپے تھی ۔ اب چینی 210 روپے ہے تو ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی امپورٹ کی جارہی ہے ۔ چینی کے کھیل میں ساڑھے 14 ارب روپے غریب کی جیب سے نکال لیے۔

ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قاتل کا اعتراف جرم؛قتل کی وجہ سامنے آگئی

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپنے اخراجات کم نہیں کیے اور پنشنرز پر ٹیکس لگا دیا گیا ۔ یہ کون سا انصاف ہے ؟۔ اپنی مراعات تنخواہ بڑھا کر پنشن پر ٹیکس بڑھا دیا ۔منافع اسکیموں میں سرمایہ کاری پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ عوام مہنگائی اور ملکی حالات کی وجہ سے تنگ ہیں ۔ ریلیف دینا پاکستان میں ناممکن بات ہوگئی  ہے۔ ریلیف یہ ہوسکتا تھا کہ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے ، حکومت اس میں بھی ناکام ثابت ہوئی۔ٹیکس کا نظام مکمل طور پر بدلنا ہوگا ۔ بجٹ نے ثابت کردیا کہ یہ نظام نہیں چل سکتا ۔ ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 62 فیصد ٹیکس کمپنیوں پر ہوگا تو وہ کیسے ترقی کریں گی ؟۔ روزگار کہاں سے مہیا ہوگا؟ نمو کہاں سے آئے گی۔ خطے میں کون سے ممالک کمپنیوں سے 60 فیصد ٹیکس لے رہے ہیں؟۔ حکومت سارا پیسہ مارکیٹ سے اٹھا لے گی تو انڈسٹری ترقی نہیں کرے گی، روزگار نہیں ملے گا۔ اخراجات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی کے لیے 3800 ارب روپے رکھے گئے  ہیں۔ ایم پی ایز، ایم این ایز کی اسکیمیں بہت بڑھا دی گئی ہیں،  اسی کے ذریعے ووٹ لیا جاتا ہے اور ان ہی اسکیموں کی رقم ہزاروں ارب روپے تک بڑھ چکی ہے۔ وفاق غریب سے غریب اور صوبے امیر ہورہے ہیں۔ سود کی ادائیگی دفاع کے اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ 8000 ارب روپے اس سال سود کی مد میں خرچ ہوں گے۔ خسارہ اور سود بڑھتا رہے گا کوئی اصلاحات نہیں کی جا رہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ آئی ایم ایف نہیں بناتا حکومت بناتی ہے۔ بجٹ آئی ایم ایف شرائط کے اندر بنانا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرے۔ پی ایس ڈی پی کا بڑا حصہ کرپشن میں جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی سے ایف بی آر میں شفافیت آئے گی۔ اگر ایف بی آر کے نظام کو بہتر نہ بنایا گیا تو ملک سے سرمایہ باہر جائے گا۔

Ansa Awais Content Writer

متعلقہ مضامین

  • علیمہ خان فساد کی جڑ، عمران خان کا کوئی رشتہ دار لیڈر بننے کی کوشش نہ کرے، شیر افضل
  • جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں اچانک ری اینٹری، وجہ کیا ہے؟
  • ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں، بجٹ نے ثابت کردیا یہ سسٹم نہیں چل سکتا، شاہد خاقان عباسی
  • ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں؛ بجٹ نے ثابت کردیا یہ سسٹم نہیں چل سکتا، شاہد خاقان
  • ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں؛ بجٹ نے ثابت کردیا یہ سسٹم نہیں چل سکتا: شاہد خاقان
  • بجٹ کے بعد سے ہمارے خلاف غدار اور مائنس ون کی مہم چلائی جارہی ہے، وزیر اعلیٰ گنڈا پور
  • عمران خان نے حکم دیا تو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کردیں گے. بیرسٹر گوہر
  • بانی تحریک انصاف کو دنیا کے بڑے بڑے مائنس نہیں کر سکتے: بیرسٹر گوہر
  • بانی نے حکم دیا تو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کردیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی