Daily Ausaf:
2025-11-11@03:19:20 GMT

موجودہ امریکہ سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اقوام متحدہ کا دستور خودمختار قوموں کو اپنے انفرادی اور اجتماعی دفاع کا حق دیتا ہے، لیکن صرف مسلح حملے کی صورت میں۔ ہمارے صدر نے ہمارے قریب تین اتحادیوں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ جنگ کو ’’آخری چارۂ کار‘‘ کے طور پر رد کرتے ہوئے فوجی حملوں میں پہلے کرے گا۔‘‘ (ص ۱۴۰)
’’دوسرے ملکوں کو ’’بدی کا محور‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں امکانی ہدف قرار دے دیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی سفارتکاری کے ذریعے ان کے ساتھ اختلافات کو سلجھانے کے عمومی دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہمارے لیے ہر ملک نے جو تقریباً یک زبان ہو کر ہمدردی کا اظہار اور حمایت و امداد کا وعدہ کیا تھا، وہ ہماری اس پالیسی کے اپنانے سے ختم ہو گیا ہے۔ اب ہم دہشت گردی کے خطرے کو محدود اور کم کرنے کی اپنی طویل اور اہم ترین کوشش میں نسبتاً اکیلے ہو گئے ہیں۔‘‘ (ص ۱۴۱)
’’ایک عیسائی اور بین الاقوامی بحران سے حد درجہ متاثر سمجھے جانے والے صدر کی حیثیت سے میں ایک منصفانہ جنگ کے اصولوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عراق پر یکطرفہ حملہ ان معیارات پر پورا نہیں اترتا۔‘‘ (ص ۱۴۳)
’’ہم اور ہمارے اتحادی برطانوی فیصلہ کر چکے ہیں کہ سویلین ہلاکتوں کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ حقیقی اور مطبوعہ اعداد و شمار میں بہت فرق ہے۔ برطانیہ کے ایک مؤقر جریدے لینسیٹ (Lancet) نے رپورٹ دی ہے کہ اتحادی فوجیوں (خصوصاً ایئرفورس) نے ایک لاکھ غیر فوجی عراقیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ امریکی سرکاری ذرائع نے صرف چوبیس ہزار کا تخمینہ لگایا ہے۔ یعنی صرف انہی ہلاکتوں تک محدود رکھا ہے جن کی خبریں مغربی ذرائع ابلاغ دے چکے ہیں، اصل تعداد ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔‘‘ (ص ۱۴۷)
’’ہماری حکومت کا ایک سب سے زیادہ عجیب فیصلہ امریکیوں کے جانی نقصان سے عوام کو لاعلم رکھنا ہے۔ ہمارے لیڈر شاذ ہی زخمیوں کا ذکر کرتے یا ان کی عیادت کرنے جاتے ہیں۔ اور ڈوور ایئرفورس بیس ڈیلاویئر کے مضافاتی قبرستان میں پہنچائے جانے والے تابوتوں کے بارے میں عوام کو خبر نہ ملنے دینے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ہلاک ہونے والے فوجی جوانوں کی ماؤں اور بیویوں کی جانب سے مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں جنہیں ڈوور یا دوسرے فوجی اڈوں پر اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھنے نہیں دی گئیں۔‘‘ (ص ۱۴۶)
’’جب امریکہ نے ۲۰۰۵ء کے شروع میں عراق میں جمہوریت کی طرف پہلا قدم اٹھایا تو شیعہ اور کردوں نے سنی منحرفین اور دہشت گرد گروپوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود جرأت اور آزادی کے ساتھ وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ اگلے مراحل یعنی آئین کو تحریر کرنے اور پھر ایک نمائندہ حکومت تشکیل دینے کے حوالے سے میں اس وقت یہ کتاب لکھتے ہوئے تو کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا، تاہم اس حوالے سے بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے کہ سنی تعاون کریں گے یا نہیں، اور یہ کہ مذہبی قوانین کتنے غالب ہوں گے؟
حکمران شیعہ جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ شادی، طلاق اور وراثت کے معاملات میں شریعت کو اعلٰی اتھارٹی ہونا چاہیے۔ اگر عورتوں کے حقوق، جو کہ صدر صدام حسین کے دور میں محفوظ تھے، امریکہ کی سرپرستی اور حفاظت میں قائم ہونے والی نئی جمہوری حکومت کے دور میں ختم ہو جائیں گے تو یہ ستم ظریفی ہو گی۔‘‘ (ص ۱۴۹)
’’ایک بنیادی سوال جو آخری حاصل (Final outcome) کا تعین کرے گا، یہ ہے کہ کیا امریکی لیڈر عراق میں مستقل فوجی اڈوں کے قیام اور معیشت پر غلبہ پانے پر اصرار کریں گے، یا یہ واضح کریں گے کہ ہم نے اپنے فائدے کے لیے مستقل موجودگی کو برقرار رکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہوا؟ ہماری قوم ہمیں درپیش بین الاقوامی چیلنجوں کا بنیادی جواب دینے کے معاملے پر واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے۔ یہ بات تقریباً متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ امریکی سرزمین کبھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو گی۔ امریکہ کو ایسی نسبتاً کمزور تنظیموں کی طرف سے دہشت گردی کا خطرہ رہے گا جو امریکہ کی بے پناہ فوجی قوت کے کسی بھی پہلو کو چیلنج کرنے کی امید نہیں کر سکتیں۔ ہمارا بہترین جواب کیا ہے؟ کیا انسانی حقوق کے تاریخی چیمپئن کا کردار ادا کرنا ہمارے لیے بہتر ہے، یا خطروں کا جواب دینے کے لیے اپنے اعلٰی ملکی اور بین الاقوامی معیارات کو ترک کر دینا؟‘‘ (ص ۱۵۱)
’’اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ ہماری حکومت کی طرف سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار عالمی ماحول کے تحفظ کے دو جماعتی تاریخی وعدوں سے انحراف کے سلسلے کی محض ایک اور المناک کڑی ہے۔ خداوند کی دنیا کا تحفظ ہماری ایک ذاتی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘‘ (ص ۱۶۷)
’’یہ بات فخر کیے جانے کے قابل ہے کہ امریکہ میں اوسط خاندان کی سالانہ آمدنی پچپن ہزار ڈالر ہے، لیکن ہمیں ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے آدھے سے زیادہ لوگ دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندہ ہیں، جبکہ ایک ارب بیس کروڑ لوگوں کو صرف ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ صرف لمحہ بھر کے لیے تصور کریں کہ ہمیں ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنا ہو تو کیا ہو گا؟ صرف ایک ڈالر کھانے کے لیے، رہائش کے لیے اور لباس کے لیے۔ واضح بات ہے کہ حفظان صحت اور تعلیم کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور ہماری عزت نفس اور روشن مستقبل کی امید کا باقی رکھنا تو مشکل ہو گا۔‘‘ (ص ۱۶۶)
’’ہمارا پورا معاشرہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ تقسیم کالے، گورے یا ہسپانوی کے درمیان ہو، بلکہ یہ تقسیم امیر اور غریب کے درمیان ہے۔ ہم میں سے بے شمار لوگوں کو تو کسی ایک غریب سے بھی واقفیت نہیں ہے۔‘‘ (ص ۱۷۰)
یہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی کتاب ’’امریکہ کا اخلاقی بحران‘‘ کے چند اقتباسات ہیں۔ جو نہ صرف گزشتہ نصف صدی کے دوران امریکی پالیسیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ امریکی قوم کی اجتماعی نفسیات کا بھی اس سے کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ اور عالم اسلام اور مغرب کے درمیان اس وقت جو کشمکش جاری ہے اس کا ایک مجموعی منظر بھی نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے درمیان سے زیادہ کے لیے

پڑھیں:

امریکہ، انتخابات میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب

اسلام ٹائمز: کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نهاد عوض کے مطابق غزہ جنگ اور اس کے دوران منظرِ عام پر آنے والی قتل و محاصرے کی تصاویر جو امریکہ کی براہِ راست اسرائیلی حمایت سے منسلک تھیں، انہوں نے امریکی مسلم رائے عامہ کو سیاسی سطح پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق بہت سے مسلمانوں نے صرف فلسطین کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ واشنگٹن کی پالیسی ترجیحات کے خلاف احتجاج کے طور پر سیاست میں قدم رکھا، جہاں امریکی مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسامہ ابو ارشید کا خیال ہے کہ مقامی اور ریاستی سطح پر یہ کامیابیاں مستقبل میں کانگریس اور وفاقی مناصب تک رسائی کے لیے ایک کلیدی قدم ثابت ہوں گی۔ خصوصی رپورٹ:

چند دہائیاں پہلے تک امریکہ کی سیاست میں مسلمانوں کی موجودگی محض علامتی سمجھی جاتی تھی، لیکن حالیہ انتخابات نے ثابت کیا کہ ایک نئی نسل کے مسلم سیاست دان اب ایسی طاقت بن کر ابھرے ہیں جو منظم سیاسی سرگرمی، عوامی اعتماد، اور عالمی حالات، خصوصاً غزہ جنگ کے ردِعمل کی بنیاد پر عدم نمائندگی کی دیواروں کو توڑ کر اثرورسوخ کے حقیقی مناصب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ 

ایک تاریخی موڑ
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں متعدد مسلم امیدواروں کی کامیابی، ملک کی سیاسی و سماجی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق امریکی سیاسی ڈھانچے میں مسلمانوں کی موجودگی اب اس سطح تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ نہ صرف داخلی پالیسی سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعتیں اپنے اندرونی اختلافات اور بڑھتی ہوئی تقسیم کا سامنا کر رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں اور مبصرین نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ کامیابیاں اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی مسلمان سیاست کے حاشیے سے نکل کر مرکزی دھارے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب ان کی شرکت محض علامتی نہیں بلکہ طاقت اور نمائندگی کی حقیقی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ پیش رفت مسلمانوں کے لیے فعال شہری حیثیت کو مضبوط کرتی ہے اور انہیں ایسے سیاسی و سماجی اوزار فراہم کرتی ہے جن سے وہ اپنے حقوق کا دفاع اور نئے نظریات و زاویے پیش کر سکیں۔ الجزیرہ نے لکھا کہ مسلم امیدواروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ان کی کامیابیوں کا سب سے اہم سبب رہا۔

اس اضافے نے انتخابی کامیابی کے امکانات کو بڑھایا، بالخصوص ایسے ماحول میں جہاں اسلامی تنظیموں نے منظم حمایت اور وسائل مہیا کیے۔ یہ تمام عوامل مل کر امریکی مسلم برادری کے لیے وفاقی سطح پر مزید کامیابیوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں، اگرچہ انہیں اب بھی کئی چیلنجز اور بعض اوقات مخالفتوں کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، یہ پیش رفت گزشتہ ہفتے کے انتخابات کے دوران سامنے آئی جب امریکہ کی مختلف ریاستوں سے 76 مسلمان امیدوار میدان میں اترے اور 38 امیدوار کامیاب ہو کر میئر، ریاستی اسمبلیوں کے اراکین اور ڈپٹی گورنر جیسے مناصب تک پہنچے۔

کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے مطابق یہ نتائج تاریخی ریکارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کامیابیوں میں سب سے نمایاں واقعہ زهران ممدانی کا نیویارک کے میئر کے طور پر انتخاب ہے، یہ اس شہر کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کوئی مسلمان اس منصب تک پہنچا ہے۔ نیویارک خصوصاً معیشت اور میڈیا کے میدان میں امریکہ کا سب سے بڑا اور اثر انگیز شہر ہے۔ اسی طرح غزاله ہاشمی ریاست ورجینیا کی ڈپٹی گورنر منتخب ہوئیں۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے ان نتائج کو ایک بے مثال ریکارڈ اور امریکی مسلم برادری کے عروج کی علامت قرار دیا۔

اسباب اور پس منظر:
الجزیرہ کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی انتخابی کامیابیوں میں نمایاں اضافہ ایک ایسے سیاسی، تنظیمی اور سماجی عوامل کے مجموعے کا نتیجہ ہے جنہوں نے امریکی سیاسی نظام میں ان کی بے مثال موجودگی کے لیے زمین ہموار کی۔ یہ عوامل ایک جانب امریکہ میں مسلم برادریوں کی منظم و منصوبہ بند سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ہیں، اور دوسری جانب ان کا تعلق امریکی معاشرے کی اندرونی تبدیلیوں اور ریپبلکن و ڈیموکریٹ جماعتوں کے اندر بڑھتی ہوئی خلیج سے ہے۔ 

کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نهاد عوض نے اس پیش رفت کو مسلم برادری کے اندر ایک مؤثر ادارہ جاتی ڈھانچے کے قیام کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ ڈھانچہ مالیاتی کمیٹیوں، سیاسی لابیز، تربیتی و بااختیاری اداروں پر مشتمل ہے جو اب محض اخلاقی حمایت تک محدود نہیں رہے، بلکہ مسلم امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے پیشہ ورانہ وسائل فراہم کرتے ہیں، جن میں اسٹریٹجک منصوبہ بندی، مالی وسائل کا انتظام، اور میڈیا میسجنگ شامل ہے۔ یہ پیغامات مذہبی و شناختی موضوعات کے ساتھ ساتھ امریکی ووٹر کے حقیقی مسائل جیسے روزگار، صحت اور تعلیم پر بھی مرکوز ہوتے ہیں۔

عوض کے بقول غزہ جنگ اور اس کے دوران منظرِ عام پر آنے والی قتل و محاصرے کی تصاویر جو امریکہ کی براہِ راست اسرائیلی حمایت سے منسلک تھیں، انہوں نے امریکی مسلم رائے عامہ کو سیاسی سطح پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق بہت سے مسلمانوں نے صرف فلسطین کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ واشنگٹن کی پالیسی ترجیحات کے خلاف احتجاج کے طور پر سیاست میں قدم رکھا، جہاں امریکی مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسامہ ابو ارشید کا خیال ہے کہ یہ پیش رفت دراصل امریکی شناخت کے مستقبل پر جاری بڑے مکالمے کا حصہ ہے۔

ان کے مطابق آیا دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ ایک کثیرالثقافتی اور مساوات پر مبنی معاشرہ بنے گا یا ایک بند، نسل پرستانہ معاشرہ کی سمت بڑھے گا، دباؤ، امتیازی قوانین اور منفی میڈیا مہمات کے باوجود اس مکالمے میں مسلمانوں کی شمولیت ان کی مطابقت پذیری اور اثراندازی کا ثبوت ہے، یہ احساس صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ امریکی نوجوانوں، ترقی پسند ڈیموکریٹس اور بعض ریپبلکن شخصیات نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ امریکی امور کے ماہر محمد علاء غانم کے مطابق مقامی اور ریاستی سطح پر یہ کامیابیاں مستقبل میں کانگریس اور وفاقی مناصب تک رسائی کے لیے ایک کلیدی قدم ثابت ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
  • ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
  • امریکہ، انتخابات میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب
  • دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ
  • موجودہ پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کے برعکس ہے‘ اسلم فاروقی
  • پاکستان میں ترقی کا ماڈل
  • موجودہ صورتحال میں عسکری ادارے کا مضبوط ومنظم ہونا قومی مفاد میں ہے، ملک احمد خان
  • موضوع: سوڈان میں یو اے ای نواز گروہوں کی نسل کشی
  • موجودہ پاکستان علامہ اقبالؒ کے خواب کے برعکس ہے، اسلم فاروقی
  • بنگلہ دیش کے موجودہ حالات ’دور آزمائش‘ ہے، علامہ بابونگری