Daily Ausaf:
2025-06-27@13:38:18 GMT

موجودہ امریکہ سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اقوام متحدہ کا دستور خودمختار قوموں کو اپنے انفرادی اور اجتماعی دفاع کا حق دیتا ہے، لیکن صرف مسلح حملے کی صورت میں۔ ہمارے صدر نے ہمارے قریب تین اتحادیوں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ جنگ کو ’’آخری چارۂ کار‘‘ کے طور پر رد کرتے ہوئے فوجی حملوں میں پہلے کرے گا۔‘‘ (ص ۱۴۰)
’’دوسرے ملکوں کو ’’بدی کا محور‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں امکانی ہدف قرار دے دیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی سفارتکاری کے ذریعے ان کے ساتھ اختلافات کو سلجھانے کے عمومی دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہمارے لیے ہر ملک نے جو تقریباً یک زبان ہو کر ہمدردی کا اظہار اور حمایت و امداد کا وعدہ کیا تھا، وہ ہماری اس پالیسی کے اپنانے سے ختم ہو گیا ہے۔ اب ہم دہشت گردی کے خطرے کو محدود اور کم کرنے کی اپنی طویل اور اہم ترین کوشش میں نسبتاً اکیلے ہو گئے ہیں۔‘‘ (ص ۱۴۱)
’’ایک عیسائی اور بین الاقوامی بحران سے حد درجہ متاثر سمجھے جانے والے صدر کی حیثیت سے میں ایک منصفانہ جنگ کے اصولوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عراق پر یکطرفہ حملہ ان معیارات پر پورا نہیں اترتا۔‘‘ (ص ۱۴۳)
’’ہم اور ہمارے اتحادی برطانوی فیصلہ کر چکے ہیں کہ سویلین ہلاکتوں کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ حقیقی اور مطبوعہ اعداد و شمار میں بہت فرق ہے۔ برطانیہ کے ایک مؤقر جریدے لینسیٹ (Lancet) نے رپورٹ دی ہے کہ اتحادی فوجیوں (خصوصاً ایئرفورس) نے ایک لاکھ غیر فوجی عراقیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ امریکی سرکاری ذرائع نے صرف چوبیس ہزار کا تخمینہ لگایا ہے۔ یعنی صرف انہی ہلاکتوں تک محدود رکھا ہے جن کی خبریں مغربی ذرائع ابلاغ دے چکے ہیں، اصل تعداد ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔‘‘ (ص ۱۴۷)
’’ہماری حکومت کا ایک سب سے زیادہ عجیب فیصلہ امریکیوں کے جانی نقصان سے عوام کو لاعلم رکھنا ہے۔ ہمارے لیڈر شاذ ہی زخمیوں کا ذکر کرتے یا ان کی عیادت کرنے جاتے ہیں۔ اور ڈوور ایئرفورس بیس ڈیلاویئر کے مضافاتی قبرستان میں پہنچائے جانے والے تابوتوں کے بارے میں عوام کو خبر نہ ملنے دینے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ہلاک ہونے والے فوجی جوانوں کی ماؤں اور بیویوں کی جانب سے مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں جنہیں ڈوور یا دوسرے فوجی اڈوں پر اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھنے نہیں دی گئیں۔‘‘ (ص ۱۴۶)
’’جب امریکہ نے ۲۰۰۵ء کے شروع میں عراق میں جمہوریت کی طرف پہلا قدم اٹھایا تو شیعہ اور کردوں نے سنی منحرفین اور دہشت گرد گروپوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود جرأت اور آزادی کے ساتھ وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ اگلے مراحل یعنی آئین کو تحریر کرنے اور پھر ایک نمائندہ حکومت تشکیل دینے کے حوالے سے میں اس وقت یہ کتاب لکھتے ہوئے تو کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا، تاہم اس حوالے سے بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے کہ سنی تعاون کریں گے یا نہیں، اور یہ کہ مذہبی قوانین کتنے غالب ہوں گے؟
حکمران شیعہ جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ شادی، طلاق اور وراثت کے معاملات میں شریعت کو اعلٰی اتھارٹی ہونا چاہیے۔ اگر عورتوں کے حقوق، جو کہ صدر صدام حسین کے دور میں محفوظ تھے، امریکہ کی سرپرستی اور حفاظت میں قائم ہونے والی نئی جمہوری حکومت کے دور میں ختم ہو جائیں گے تو یہ ستم ظریفی ہو گی۔‘‘ (ص ۱۴۹)
’’ایک بنیادی سوال جو آخری حاصل (Final outcome) کا تعین کرے گا، یہ ہے کہ کیا امریکی لیڈر عراق میں مستقل فوجی اڈوں کے قیام اور معیشت پر غلبہ پانے پر اصرار کریں گے، یا یہ واضح کریں گے کہ ہم نے اپنے فائدے کے لیے مستقل موجودگی کو برقرار رکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہوا؟ ہماری قوم ہمیں درپیش بین الاقوامی چیلنجوں کا بنیادی جواب دینے کے معاملے پر واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے۔ یہ بات تقریباً متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ امریکی سرزمین کبھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو گی۔ امریکہ کو ایسی نسبتاً کمزور تنظیموں کی طرف سے دہشت گردی کا خطرہ رہے گا جو امریکہ کی بے پناہ فوجی قوت کے کسی بھی پہلو کو چیلنج کرنے کی امید نہیں کر سکتیں۔ ہمارا بہترین جواب کیا ہے؟ کیا انسانی حقوق کے تاریخی چیمپئن کا کردار ادا کرنا ہمارے لیے بہتر ہے، یا خطروں کا جواب دینے کے لیے اپنے اعلٰی ملکی اور بین الاقوامی معیارات کو ترک کر دینا؟‘‘ (ص ۱۵۱)
’’اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ ہماری حکومت کی طرف سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار عالمی ماحول کے تحفظ کے دو جماعتی تاریخی وعدوں سے انحراف کے سلسلے کی محض ایک اور المناک کڑی ہے۔ خداوند کی دنیا کا تحفظ ہماری ایک ذاتی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘‘ (ص ۱۶۷)
’’یہ بات فخر کیے جانے کے قابل ہے کہ امریکہ میں اوسط خاندان کی سالانہ آمدنی پچپن ہزار ڈالر ہے، لیکن ہمیں ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے آدھے سے زیادہ لوگ دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندہ ہیں، جبکہ ایک ارب بیس کروڑ لوگوں کو صرف ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ صرف لمحہ بھر کے لیے تصور کریں کہ ہمیں ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنا ہو تو کیا ہو گا؟ صرف ایک ڈالر کھانے کے لیے، رہائش کے لیے اور لباس کے لیے۔ واضح بات ہے کہ حفظان صحت اور تعلیم کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور ہماری عزت نفس اور روشن مستقبل کی امید کا باقی رکھنا تو مشکل ہو گا۔‘‘ (ص ۱۶۶)
’’ہمارا پورا معاشرہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ تقسیم کالے، گورے یا ہسپانوی کے درمیان ہو، بلکہ یہ تقسیم امیر اور غریب کے درمیان ہے۔ ہم میں سے بے شمار لوگوں کو تو کسی ایک غریب سے بھی واقفیت نہیں ہے۔‘‘ (ص ۱۷۰)
یہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی کتاب ’’امریکہ کا اخلاقی بحران‘‘ کے چند اقتباسات ہیں۔ جو نہ صرف گزشتہ نصف صدی کے دوران امریکی پالیسیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ امریکی قوم کی اجتماعی نفسیات کا بھی اس سے کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ اور عالم اسلام اور مغرب کے درمیان اس وقت جو کشمکش جاری ہے اس کا ایک مجموعی منظر بھی نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے درمیان سے زیادہ کے لیے

پڑھیں:

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ

اسلام ٹائمز: یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)

دنیا کی تاریخ میں کچھ جنگیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف بارود کے دھوئیں میں نہیں لکھی جاتیں بلکہ قوموں کے عزم، نظریات، عقیدے اور استقلال کے لہو سے رقم ہوتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان 1980ء میں شروع ہونے والی جنگ بھی ایسی ہی ایک جنگ تھی۔ اس جنگ میں صدام حسین نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کی۔ مہلک کیمیکل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایران کے بے شمار نڈر، فدائی اور مخلص جوان شہید ہوئے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایران، باوجود عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کے، نہ جھکا، نہ ٹوٹا، نہ بکا۔ ایران کی قوم نے اپنے نومولود انقلاب کے آغاز ہی میں جس دلیری، شعور، اور ایمانی طاقت کا مظاہرہ کیا، وہ ایک زندہ معجزہ ہے۔ آج 46 سال بعد، یہ انقلاب صرف ایران کے گلی کوچوں میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ جس نظام کو عالمی سامراج "موقّت خروش" سمجھ رہا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور دشمن یہ مان چکا ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑنا اب اس کے بس میں نہیں۔

اب آتے ہیں حالیہ جنگی منظرنامے کی طرف۔ ایران اور اسرائیل کے مابین جو تصادم اس وقت جاری ہے، وہ درحقیقت دہائیوں کی پراکسی جنگوں کا براہ راست رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ لڑائی نہ تو اچانک شروع ہوئی ہے، نہ ہی کسی محدود دائرے تک محدود ہے۔ حزب اللہ لبنان کی قیادت کا قتل، اسماعیل ہانیہ کے خاندان پر حملہ، شام میں رجیم چینج اور ایران کو تنہا کرنے کی منظم کوششیں۔ یہ سب اس طویل منصوبے کا حصہ تھیں جسے امریکہ، یورپ، اسرائیل، اور ہندوستان نے مل کر ترتیب دیا۔ ان طاقتوں نے نہ صرف ایران کے خلاف اندرونی غداروں کو استعمال کیا بلکہ جاسوسی نیٹ ورک، ڈرون بیسز اور حساس اہداف کو نشانہ بنانے جیسی خطرناک سازشیں بھی تیار کیں لیکن ایران نے کمال مہارت، سیاسی بصیرت اور انٹیلیجنس برتری سے ان تمام سازشوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنی دفاعی پوزیشن کو بحال کر کے اسرائیل کو کرارا جواب دیا۔

جب امریکہ نے دیکھا کہ اسرائیل میدانِ جنگ میں ہانپ رہا ہے تو خود براہِ راست کود پڑا۔ مگر ایران نے نہ صرف اس حملے کا بھی بھرپور جواب دیا بلکہ امریکہ کو یہ باور کرا دیا کہ اب "دھمکی" کا دور گزر چکا ہے۔ یہ "ردِ عمل" کا دور ہے۔ فی الحال اگرچہ ایک عارضی جنگ بندی نافذ ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ایران اس وقت دفاعی و تزویراتی لحاظ سے مکمل برتری رکھتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، یورپ اور ہندوستان اپنے تمام تر وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران واقعی اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ ایران کی اولین ترجیحات میں اسرائیل کی مکمل نابودی شامل ہے۔ ایران اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج کا غاصب اڈہ سمجھتا ہے۔ ایک ناجائز وجود جو ظلم، دہشت اور استعماری مفادات کا محافظ ہے۔ تاہم، ایران اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے درست وقت، بین الاقوامی حالات اور علاقائی توازن کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔

ممکن ہے، جب وقت موافق ہوا، تو ایران یہ مقصد بھی حاصل کر گزرے اور دنیا ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کو دیکھے۔ جہاں تک اس جنگ کی مدت کا تعلق ہے، تو یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ انجام کب اور کیسے ہوگا  اور دنیا کا ضمیر کس طرف کھڑا ہوگا؟

متعلقہ مضامین

  • ہم موجودہ حکومت گراتے ہیں تو کیا بے یقینی پیدا نہیں ہو گی؟ قمر زمان کائرہ
  • کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ
  • سابق بھارتی افسر نے پاکستان کے ناقابلِ شکست ہونے کا اعتراف کرلیا
  • ایران نے اسرائیل و امریکہ کا غرور خاک میں ملا دیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ باضابطہ طور پر نوبیل انعام 2026 کیلئے نامزد،حکومتی نمائندہ ہڈی کارٹر نے خط لکھ دیا
  • ڈونلڈ جے ٹرمپ، اسرائیل-ایران جنگ بندی میں کردار پر نوبل امن انعام کیلئے نامزد
  • بابراعظم یا کوہلی؛ کِس کی کور ڈرائیو زیادہ بہتر۔۔۔
  • ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل-ایران جنگ بندی میں کردار پر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر دیا گیا
  • واٹس ایپ دیگر ایپس کے مقابلے میں زیادہ مضبوط سیکیورٹی فراہم کرتا ہے، میٹا
  • ایران کی شاندار فتح اور مستقبل کی پلاننگ