فیصل ایدھی نے شرجیل میمن کے بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ دراصل ایدھی فاؤنڈیشن کی اپنی کاوش ہے، جس پر وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی ہے، جہاں ایک طرف سندھ حکومت نے اس منصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، وہیں دوسری جانب ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے اسے اپنا ذاتی منصوبہ قرار دے کر حکومتی دعوؤں کو مسترد کر دیا۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے حال ہی میں ایک تقریب میں اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت معروف فلم ساز ستیش آنند کے اشتراک سے ایدھی صاحب کی زندگی پر فلم بنا رہی ہے، تاہم فیصل ایدھی نے اس بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ دراصل ایدھی فاؤنڈیشن کی اپنی کاوش ہے، جس پر وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔ فیصل ایدھی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے پہلے ہی ایک معروف ڈرامہ اداکار و پروڈیوسر کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا، ستیش آنند نے بعد میں رابطہ کیا تو انہیں مطلع کر دیا گیا کہ یہ منصوبہ پہلے ہی کسی اور کے ساتھ طے پا چکا ہے۔‘‘

فیصل ایدھی نے زور دے کر کہا کہ فلم کا تمام تر تخلیقی کنٹرول فاؤنڈیشن کے پاس ہوگا۔ اس فلم کا اسکرپٹ معروف مصنفہ تہمینہ درانی کی کتاب ’ایدھی: آ مرر ٹو دی بلائنڈ‘ پر مبنی ہوگا، جس میں ایدھی صاحب نے خود اپنی زندگی کے اہم واقعات قلمبند کیے تھے۔ فیصل ایدھی کے مطابق، فلم میں ایدھی کی والدہ اور اہلیہ بلقیس ایدھی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت دی جائے گی، کیونکہ ان خواتین نے ایدھی کی شخصیت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ کیلئے ایدھی صاحب سے منسلک تمام اہم مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں ان کا آبائی گاؤں بانٹوا (گجرات، بھارت) بھی شامل ہے۔ فیصل ایدھی نے واضح کیا کہ اگر بھارت میں شوٹنگ ممکن نہ ہو سکی تو اس مقام کو اسٹوڈیو میں ہی تیار کیا جائے گا۔

جب فیصل ایدھی سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ خود اپنے والد کا کردار ادا کریں گے، تو انہوں نے انتہائی سادگی سے جواب دیا: ’’میں اداکار نہیں ہوں، اس لیے یہ کردار نبھانا میرے لیے ممکن نہیں، یہ فیصلہ فلم کے ہدایتکار اور پروڈیوسر کریں گے کہ ایدھی صاحب کا کردار کون ادا کرے گا۔‘‘ فیصل ایدھی نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ فلم نہ صرف ایدھی صاحب کی بے مثال خدمات کو خراج تحسین پیش کرے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثال بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ فلم عالمی معیار کی ہو، تاکہ آنے والی نسلیں ایدھی صاحب کی قربانیوں اور خدمات سے آگاہ ہو سکیں۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تنازع کے بعد فلم بنانے کا اصل حق کسے ملتا ہے اور کون اس عظیم انسان کی زندگی کو پردہ سیمیں پر پیش کرنے کا حق دار ٹھہرتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فیصل ایدھی نے ہوئے کہا کہ ایدھی صاحب

پڑھیں:

عوام دشمن حکومت کے سیاہ کارناموں میں ایک اور اضافہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251003-03-5

 

اسامہ تنولی

صوبہ سندھ پر گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے مسلط کردہ حکومت کے پے در پے سیاہ کارناموں نے اہل سندھ کو تنگ، عاجز اور بے زار کر ڈالا ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اپنے عہد حکومت میں اس وجہ سے سندھ کے ناکام ترین وزرائے اعلیٰ میں سر فہرست ثابت ہوئے ہیں۔ موصوف نے گزشتہ دنوں جس طرح سے پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری کی منظوری کے بعد ایک بار پھر سے اپنی کابینہ میں جو ایک نیا ردو بدل کیا ہے اسے سیاسی مبصرین اس لیے بھی مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں کہ ماضی کی طرح اب بھی بہ ظاہر محض وزارتوں کے قلمدانوں اورچہروں کی اس تبدیلی کے لا یعنی عمل کا کوئی بھی حقیقی فائدہ عوام کو ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ سندھ حکومت میں شامل وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج درحقیقت نااہلوں کا ایک ٹولہ ہے جس کا کام صرف بدعنوانی کے ذریعے سے مال جمع کرنا ہی رہ گیا ہے۔ بھان متی کے اس کنبے کو صوبے کے عوام کے مسائل کے حل میں اگر رتی برابر بھی کوئی دلچسپی ہوتی تو آج صوبے اور ان کی حالت اس قدر خراب اور خستہ ہرگز نہ ہوتی۔ اس لیے عوام اور سیاسی مبصرین کی یہ رائے بالکل درست اور صائب معلوم ہوتی ہے کہ سندھ کی کابینہ میں وزراء کی تبدیلی دراصل سیاسی اور گروہی مفادات کے حصول کے لیے کی گئی ہے نہ کہ صوبے اور عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر۔ وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی محض چہروں میں تبدیلی ہے۔ جس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ پالیسیوں کو تبدیل کیے بغیر سندھ حکومت کے نا اہل ناکام ترین بدنام اور رسوائے زمانہ وزراء خواہ جس بھی نئی وزارت کا قلمدان سنبھالیں گے اپنی اوچھی حرکتوں سے اس کا بھی بٹا بٹھا کر ہی دم لیں گے۔

ابھی اہل سندھ موجودہ حکومت سندھ کی پست حرکتوں سے بے زار اور نالاں ہی تھے کہ بلا جواز اور بیٹھے بٹھائے سندھ کے سرکاری ملازمین کی پنشن میں من مانی غیر دانشمندانہ اصلاحات کے عاقبت نااندیشی پر مبنی فیصلے نے صوبائی حکومت کے خلاف غم، غصے اور نفرت کا ایک طوفان سا اس لیے بھی برپا کر دیا ہے کہ مذکورہ حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے اجراء سے قبل حکومت سندھ کی جانب سے وفاق کی طرح سندھی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی بے تحاشا (جسے کئی سو گنا اضافہ بھی قرار دیا جارہا ہے) کیا جا چکا ہے اور اسے یکم جولائی سے باقاعدہ لاگو بھی کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے حکومت سندھ کے سرکاری ملازمین وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی اس دو عملی اور منافقت پر شدید برہم، ناراض اور نالاں ہو کر 23 ستمبر سے سندھ بھر کے روڈوں اور راستوں پر نکل کر سخت احتجاج میں مصروف ہیں جس کے باعث سندھ بھر کے لگ بھگ تمام سرکاری اداروں میں سرکاری ملازمین کے احتجاج اور تالہ بندی کی وجہ سے سرکاری امور کی انجام دہی ٹھپ اور بند ہو چکی ہے۔ اگر چہ بلاول زرداری گزشتہ سے پیوستہ روز یہ کہہ کر سندھ کے سرکاری ملازمین کو رام کرنے کی سعی ٔ لاحاصل بھی کر چکے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ سندھ کو مذکورہ نوٹیفکیشن واپس لینے کا کہہ چکے ہیں اور یہ بھی کہ انہیں اس حوالے سے بالکل علم نہیں تھا، تاہم سرکاری ملازمین اس وضاحت اور یقین دہانی کے باوجود صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر زبردست احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری ادروں کا سارا کام ٹھپ پڑا ہو ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں سمیت تمام سرکاری امور یکسر معطل ہو کر رہ گئے ہیں، جبکہ سندھ کے سرکاری ملازمین سرعام غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے خلاف ’’ٹھگی جو ٹھاھ، سید مراد علی شاہ‘‘ کے زور دار نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔

مقام حیرت اور لائق تشویش امر یہ ہے کہ سندھ ایمپلائز الائنس (SEA) کے پلیٹ فارم سے صوبے بھر کے تمام سرکاری اداروں کے لاکھوں احتجاجی ملازمین کے اتنے بڑے پیمانے پر مسلسل کیے گئے احتجاج اور سرکاری دفاتر کی تالا بندی کے باوجود بہ ظاہر تاحال حکومت سندھ پر اس کا کوئی بھی اثر ہوتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ سیاسی مبصرین بہ طور طنز اس وجہ سے حکومت سندھ کو ’پروٹیسٹ پروف‘‘ بھی کہہ کر پکار رہے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت سندھ کے ذمے داران کی تاحال اس حوالے سے عدم دلچسپی نہ صرف قابل ِ مذمت بلکہ خود اس کے لیے بھی خطرناک ہے، کیوں کہ سرکاری ملازمین کے مذکورہ اتحاد کی جانب سے گزشتہ دن اعلان کیا گیا ہے کہ اب سندھ بھر کے سرکاری اداروں میں تالہ بندی 6 اکتوبر تک جاری رہے گی اور پھر 6 اکتوبر ہی کو ہر حال میں بلاول زرداری ہاؤس کے سامنے دھرنا بھی دیا جائے گا جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک متنازع پنشن پالیسی واپس لینے سمیت انہیں ڈی آر اے الاؤنس، زندگی ہی میں گروپ انشورنس کی رقم دینے اور دیگر کیے گئے کل چھے مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔ اس وقت حکومت سندھ کے ذمے داران ہی نہیں بلکہ پی پی پی کی قیادت بھی اس وجہ سے شدید ہدفِ تنقید بنی ہوئی ہے کہ مذکورہ مطالبات منوانے کے لیے سرکاری ملازمین کا احتجاج ویسے تو غیر منظم انداز میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تھا لیکن حکومت سندھ کی طرف اسے کوئی بھی اہمیت نہ دیے جانے کی وجہ سے اس میں 23 تا 27 ستمبر بے پناہ شدت در آئی اور اس عرصے میں سندھ کے سرکاری تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور دفاتر میں میں تالہ بندی کی وجہ سے سارے کام کاج کا سلسلہ بھی بالکل بند رہا لیکن پھر بھی اتنے بڑے پیمانے پر کیے احتجاج کو بھی حکومت سندھ نے کسی طرح کی کوئی بھی اہمیت نہیں دی ہے۔ اس کے کانوں پر تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین کو کروائی گئی اس یقین دہانی کے بعد بھی کوئی جوں تک نہیں رینگی ہے کہ ’’سرکاری ملازمین سے کوئی بھی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی اور انہیں پہلے ہی کی طرح پنشن دی جائے گی‘‘ ورنہ حکومت سندھ ضرور ہی احتجاج میں مصروف سرکاری ملازمین کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی مو ثر قدم اٹھاتی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر حکومت سندھ نے بروقت دانشمندانہ فیصلہ نہ کیا تو سرکاری ملازمین کی یہ تحریک اس کے لیے آ گے چل کر بہت بڑا خطرہ بھی بن سکتی ہے بلکہ سول نافرمانی کی تحریک میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ سرکاری ملازمین لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور اگر ان کے مطالبات وقت پر تسلیم نہ کیے گئے تو اس صورت میں ان کے غم وغصہ میں مزید اضافہ ہو جائے گا جو بہت کچھ بہا کر لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا حکومت سندھ کے ذمے داران کو چاہیے کہ وہ سندھ سروس ایکٹ 2024ء میں کی گئی تمام سرکاری ملازمین دشمن ترامیم کو فوری طور پر واپس لینے کا اعلان کرکے انہیں ختم کر دے بہ صورت دیگر جس طرح جب گیدڑ کی موت آ تی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرلیا کرتا ہے بالکل اسی طرح سے مذکورہ سرکاری ملازمین مخالف پالیسیوں کی وجہ سے ان کی حکومت کو بھی جائز مطالبات کے حصول کے لیے چلائی گئی لاکھوں سرکاری ملازمین می اس زور دار اور زبردست پرجوش تحریک سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ درایں اثناء امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ نے بھی بر محل اور بروقت سرکاری ملازمین کے اتحاد (SEA) کے 6 نکاتی جائز مطالبات کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جسے سندھ بھر کے سرکاری ملازمین کی جانب سے خوش آ ئند قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے۔

اسامہ تنولی

متعلقہ مضامین

  • فلسطین تنازع کے حل اور غزہ میں امن کیلئے پاکستان مؤثر کردار ادا کر رہا ہے، عمران گورایہ
  • پنجاب حکومت پختونخوا کی نقل کرتی ہے، صوبائی مشیر کے پی کے کا مریم نواز کے بیانات پر ردعمل
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • عوام دشمن حکومت کے سیاہ کارناموں میں ایک اور اضافہ
  • ایم ڈبلیو ایم سندھ کے تنظیمی سیٹ اپ میں تبدیلی، علامہ مقصود ڈومکی اور علامہ حیات نجفی کو اہم ذمہ داریاں تفویض
  • میں خان صاحب کو بہت پرانے زمانے سے جانتا ہوں، جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تب سے! سنیے ڈمی مبشر لقمان سے
  • مشتاق احمد خان سمیت تمام گرفتار پاکستانی فوری رہا کیے جائیں، شہباز شریف کا مطالبہ
  • سیلاب زدگان کی امداد کا تنازع، پیپلز پارٹی اورن لیگ ایک پیج پرآجائیں گے؟
  • صوبہ سندھ میں لوٹ مار کا سسٹم
  • متاثرین کو بیانات نہیں، فوری امداد چاہیے