مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کے فیصلہ کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا۔

پی ٹی آئی نے خط میں کہا کہ مخصوص نشستوں پر نظرثانی کے مختصر فیصلے کا 12 ججز کا دستخط شدہ آرڈر آف دی کورٹ جاری کیا جائے۔

 پی ٹی آئی نے سلمان اکرم راجہ کے توسط سے رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان کو خط لکھا۔ 

خط کے مطابق 27 جون کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کا مختصر فیصلہ دیا، فیصلے کے آرڈر آف دی کورٹ میں صرف 10 ججز کے دستخط شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے سپریم کورٹ فیصلہ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کتنی مخصوص نشستیں بحال ہوئیں؟ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی

خط کے مطابق جسٹس صلاح الدین پنہور کے بنچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 12 ججز کے دستخط ہونا لازم ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے الگ رائے دی اور جسٹس مظہر اور جسٹس حسن اظہر کی رائے بھی الگ ہے۔

خط کے مطابق تمام جج صاحبان کے الگ الگ فیصلوں کی مصدقہ نقول فراہم کی جائیں۔

یاد رہے کہ 27 جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواستیں منظور کی تھیں، فیصلے کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی۔

عدالت عظمیٰ کے آئینی فل بینچ نے نظرِ ثانی درخواستوں پر فیصلہ دیا اور جسٹس امین الدین خان نے مختصر فیصلہ سنا دیا، جس کے مطابق مخصوص نشستیں ن لیگ، پی پی اور دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں سپریم کورٹ کے مطابق

پڑھیں:

مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 02 اکتوبر2025ء ) سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا پہے کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا ، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔

(جاری ہے)

حریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔

یصلے میں کہا گیا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے سنی اتحاد کونسل اور اس کے چیئرمین کا کنڈکٹ قابل ستائش نہیں تھا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دو دن ابتدائی دلائل دیے اور کیس میں تاخیر پیدا کرنے کیلئے دو درخواستیں دیں، مخصوص نشستوں کے کیس کو پریس نے بہت توجہ دی حالانکہ قانون بالکل واضح ہے اور کیس آسان تھا، سنی اتحاد کونسل نے نظرثانی دائر ہی نہیں کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی تو یہ کہتے رہے اس ہار میں بھی میری جیت ہے۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نہ سپریم کورٹ میں فریق تھی، نہ پشاور ہائی کورٹ اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں فریق تھی، پی ٹی آئی کے جن امیدواروں کو ریٹرنگ افسران نے آزاد قرار دیا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہیں نہیں کہا پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑسکتی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سمیت کچھ پی ٹی آئی امیدواروں نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، 2024ء کے عام انتخابات میں بڑے بڑے نامور وکلاء نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، تعجب ہے ان نامور وکلاء میں سے کسی وکیل نے بھی آزاد قرار دینے کے ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدواران نے غلط سمجھا کہ انھیں آزاد قرار دے دیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط سمجھنے کے برابر کے ذمہ دار ہیں، سپریم کورٹ مکمل انصاف 184 کے تحت کرسکتی ہے، مکمل انصاف کے نام پر اس فریق کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا جو مقدمے میں فریق ہی نہ ہو، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے مرکزی کیس فیصلے میں پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا جس کا اسے اختیار ہی نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججز کا اقلیتی ججوں کو نکال کر اپنے طور پر خصوصی بنچ تشکیل دینا غیر قانونی ہے، ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی، آئین میں دی ہوئی ٹائم لائن تو پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں دی گئی واضح ٹائم لائنز کو تبدیل کرنا اختیارات کی تقسیم کی تکون کے نظریہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا حدود سے تجاوز بھی ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا کہ وہ آئینی کی تشریح کرتے کرتے آئین کو ہی دوبارہ تحریر کر ڈالے، سپریم کورٹ یا اس کے کسی جج کو قطعی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرے۔

متعلقہ مضامین

  • مخصوص نشستیں کیس: آئین لکھنے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کو بغیر فریق بنے ریلیف ملا، برقرار نہیں رہ سکتا: سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس، نظرثانی درخواستوں کی منظوری کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا
  • مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • مخصوص نشستیں کیس، فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس: فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس: مصطفیٰ نواز کھوکھر کی رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل دائر
  • بادشاہت نہیں جو چاہیں کریں، قانون دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ