بجلی 10 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: نیپرا نے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے مئی کے مہینے کے لیے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 10 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست پر سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جو ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے بعد جاری کیا جائے گا۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں ہونے والی سماعت کے دوران سی پی پی اے نے مؤقف اختیار کیا کہ گیس کی قیمتوں میں متوقع اضافہ آئندہ مہینوں میں بجلی کے نرخوں میں ایک روپے فی یونٹ تک اضافے کا باعث بن سکتا ہے، جب کہ اگر بجلی کی فروخت میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا تو گردشی قرضے پر سود کی ادائیگی کے لیے صارفین پر مزید سرچارج بھی عائد کرنا پڑ سکتا ہے۔
سی پی پی اے نے نیپرا کو مئی 2025 کے لیے 10 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست دی تھی۔ اگر اتھارٹی اس اضافے کی منظوری دیتی ہے تو صارفین پر مجموعی طور پر ایک ارب 25 کروڑ روپے کا اضافی مالی بوجھ پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق مئی میں بجلی کی اوسط ریفرنس فیول لاگت 7 روپے 39 پیسے فی یونٹ رہی، جب کہ اپریل کے مہینے میں یہ قیمت 7 روپے 49 پیسے تھی، یعنی فیول لاگت میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی۔
ایجنسی نے مزید بتایا کہ اس وقت صارفین سالانہ 323 ارب روپے صرف گردشی قرضوں پر واجب الادا سود کی ادائیگی کی مد میں ادا کر رہے ہیں، جو بجلی کی بڑھتی قیمتوں کا اہم سبب ہے۔
نیپرا نے سماعت مکمل کرلی ہے اور حتمی فیصلہ جلد جاری کیے جانے کا امکان ہے، جو کہ بجلی صارفین کے لیے آئندہ مہینوں کی قیمتوں کے تعین میں اہم کردار ادا کرے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پیسے فی یونٹ کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں دیہات کی زندگی شہروں سے زیادہ مہنگی ہوگئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان میں مہنگائی کا رجحان شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ادارۂ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ستمبر میں دیہات میں مہنگائی کی شرح 5.8 فی صد جبکہ شہروں میں 5.5 فی صد رہی، یوں مجموعی سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح بڑھ کر 5.64 فی صد تک جا پہنچی ہے۔
وزارت خزانہ نے ستمبر کے لیے مہنگائی کا تخمینہ 3.5 سے 4.5 فی صد لگایا تھا، تاہم اصل شرح اس سے کہیں زیادہ نکلی، جس سے حکومتی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق جولائی سے ستمبر تک مہنگائی کی اوسط شرح 4.22 فی صد رہی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کے باعث زرعی سپلائی چین متاثر ہوئی جس سے خوراک اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ٹماٹر کی قیمت میں 65 فی صد، گندم میں 37.6 فی صد، آٹے میں 34.4 فی صد اور پیاز میں 28.5 فی صد اضافہ ہوا۔ اسی طرح آلو، انڈے، مکھن، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا، البتہ مرغی اور ماش کی دال کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت پہلی سہ ماہی میں سالانہ بنیادوں پر بڑھ گئی ہے، جس کا براہ راست اثر ٹرانسپورٹ اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر پڑا۔
معاشی ماہرین نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلند شرح سود بجٹ پر دباؤ بڑھا رہی ہے، لہٰذا شرح سود کو سنگل ڈجٹ میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ مہنگائی کے اثرات کو کچھ حد تک قابو کیا جا سکے۔