نصیرالدین شاہ نے دِلجیت دوسانجھ کی حمایت میں کیا مؤقف اختیار کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
معروف اداکار نصیرالدین شاہ نے فلم ’سردار جی 3‘ کے تنازع میں گھِرے اداکار و گلوکار دِلجیت دوسانجھ کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے سیاسی حلقوں پر سخت تنقید کی ہے۔
نصیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ ’جملہ پارٹی‘ کے سیاسی کارندے دِلجیت پر حملے کے موقع کی تلاش میں تھے، اور اب پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر کی فلم میں موجودگی کو بہانہ بنا کر ان پر چڑھ دوڑے ہیں۔
نصیرالدین شاہ نے فیس بک پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ میں دِلجیت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہوں۔ ’جملہ پارٹی‘ کا گندے ہتھکنڈوں والا شعبہ کب سے موقع کی تلاش میں تھا، اور اب انہیں موقع مل گیا ہے۔ فلم کی کاسٹنگ کا فیصلہ دِلجیت کا نہیں، بلکہ ڈائریکٹر کا تھا۔ لیکن چونکہ ڈائریکٹر کو کوئی نہیں جانتا اور دِلجیت عالمی شہرت یافتہ ہیں، اس لیے تمام نزلہ اُن پر گرایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ’ہندوستانی پیسہ ڈوبے گا‘، سردار جی 3 کی بھارت میں پابندی پر جاوید اختر بھی بول پڑے
انہوں نے کہا کہ یہ وہی عناصر ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے عام لوگوں کے درمیان ذاتی روابط ختم ہو جائیں۔ یہ غنڈے چاہتے ہیں کہ ہر بھارتی اپنے پاکستانی رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ منقطع کر دے۔ میرے بھی وہاں قریبی رشتہ دار اور دوست ہیں، اور کوئی مجھے اُن سے ملنے یا محبت بھیجنے سے نہیں روک سکتا۔ اور جو مجھ سے کہیں گے کہ ’پاکستان چلے جاؤ‘، اُن کے لیے میرا جواب ہے کَیلَاسا چلے جاؤ‘۔
واضح رہے کہ دِلجیت دوسانجھ کو اُس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے فلم ’سردار جی 3‘ کا ٹریلر سوشل میڈیا پر شیئر کیا، جس میں پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر مرکزی کردار میں شامل ہیں۔ بھارتی فلمی تنظیموں نے اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے نہ صرف دِلجیت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، بلکہ ’فلم بارڈر 2‘ سے ان کا نام ہٹانے اور بھارتی وزیراعظم و وزیرداخلہ کو خط لکھ کر اقدامات کا تقاضا کیا۔
ادھر ایک انٹرویو میں دِلجیت نے کہا کہ انہوں نے فلم فروری 2024 میں سائن کی تھی، جو پہلگام حملے سے قبل کا واقعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروڈیوسرز نے فلم میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اور جب انہوں نے اسے بھارت کے علاوہ دیگر ممالک میں ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا تو میں اُن کے ساتھ کھڑا ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
دلجیت دوسانجھ سردار جی 3 نصیرالدین شاہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دلجیت دوسانجھ نصیرالدین شاہ نصیرالدین شاہ لجیت دوسانجھ انہوں نے نے فلم د لجیت
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دیئے جانے کی حمایت
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اگست2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دیئے جانے کی حمایت کی ہے۔ ٹی آر ٹی اردو کی رپورٹ کے مطابق اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےامریکی صدر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کی صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ حالات کا مشاہدہ کر سکیں اور علاقے سے خبریں فراہم کر سکیں ۔انہوں نے کہا کہ میں صحافیوں کے غزہ میں داخلے کے حق میں ہوں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں صحافت ایک بہت خطرناک ذمہ داری ہے لیکن میں چاہوں گا کہ ایسا ہو ۔امریکی صدر کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب دنیا بھر سے 100 سے زیادہ صحافیوں، فوٹوگرافروں اور جنگی نامہ نگاروں نے غزہ میں جاری قتل و غارت گری کی آزادانہ کوریج کے لیے غیر ملکی صحافیوں کو علاقے میں’’ فوری اور بلا رکاوٹ داخلے‘‘ کی اجازت دیئے جانے کے مطالبے پر مبنی ایک درخواست پر دستخط کیے ہیں ۔(جاری ہے)
مذکورہ درخواست "رائٹ ٹُو رپورٹ" نامی مہم کا حصہ ہے، جسے ایوارڈ یافتہ جنگی فوٹوگرافر آندرے لیون نے شروع کیا تھا۔ اس پر دنیا کے مشہور صحافتی اداروں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات جیسے الیکس کرافورڈ (اسکائی نیوز)، مہدی حسن، کرسٹیان امان پور (سی این این)، کلاریسا وارڈ اور معروف جنگی فوٹوگرافر ڈان مککلن نے دستخط کیے ہیں۔درخواست گزاروں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں آزادانہ اور شفاف رپورٹنگ کی اجازت دے اور کہا ہے کہ جنگ کے آغاز سے بین الاقوامی میڈیا پر عائد کی گئی پابندی عوام کے جاننے کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آزادی صحافت کے لئے کام کرنے والے گروپوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا اسرائیل سے پابندیاں ہٹانے کی اپیل کی اور خبردار کیا ہے کہ غزہ سے آزادانہ رپورٹنگ کی غیر موجودگی نے عالمی عوام کو محدود اور فوجی ذرائع کے منظور شدہ بیانیوں اور مقامی صحافیوں کے کام پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان مقامی صحافیوں کی اکثریت بھی جنگ میں قتل کی جا چُکی ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل نے اکتوبر 2023 سے جاری قتل عام اور نسل کُشی کے بعد سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔