UrduPoint:
2025-08-17@00:27:37 GMT

معززینِ شہر کے درمیان گناہگار 'بازاری عورتیں‘

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

معززینِ شہر کے درمیان گناہگار 'بازاری عورتیں‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) دو جون کو دارالحکومت اسلام آباد میں، 17 سالہ ثناء یوسف کا قتل ہوا۔ پہلی خبر جو سامنے آئی وہ کچھ اس طرح کی ہیڈ لائن کے ساتھ تھی کہ 17 سالہ جوان ٹک ٹاکر قتل۔ یوں جیسے اس کی شناخت، اس کا انسان ہونا، اس کی جوان موت سب ایک پلیٹ فارم کے لیبل تلے دبا دی گئی۔ ٹک ٹاکر ہونے کو ہی گالی بنا دیا گیا ہو۔

خبر کی پیشکش ہی یہ طے کر گئی کہ یہ بچی اب صرف ایک "ٹک ٹاکر" تھی، اور اس کے حق میں یا خلاف رائے دینا بھی اسی شناخت کے تحت ہو گا۔

سوشل میڈیا پر کیا ہوا؟ زیادہ تر بحث اس بات پر رہی کہ آخر ایک لڑکی ویڈیوز کیوں بناتی تھی؟ کہاں آتی جاتی تھی؟ ماں باپ نے کیوں چھوٹ دی؟ قاتل کون تھا، قتل کیوں ہوا، اس پر کم اور لڑکی کے کردار پر زیادہ گفتگو ہوئی۔

(جاری ہے)

یہ کردار کشی کرنے والے اور عزت کے معیار طے کرنے والے بھی اس معاشرے کے معزز مرد ہی تھے۔

دوسرا تماشا ایک مشہورٹی وی چینل پر عید کے موقع پر ہوا، جہاں شو میں چار مرد اور دو خواتین مہمان کے طور پر موجود تھیں۔ ارے معذرت، ان میں سینیئر صحافی بھی شامل تھے۔

بات چیت میں سیاسی وابستگیاں تو کھل کر سامنے آئیں ہی لیکن اصل طوفان اس وقت اٹھا، جب ایک اداکارہ نے سینیئر صحافی کے بارے میں سوال پر یہ کہا، ''اگر یہ صحافی نہ ہوتے تو باہر کسی ملک میں واش روم کلینر ہوتے کیونکہ انہیں حسیناؤں کے واش رومز میں جانے کا بہت شوق ہے۔

‘‘

بس پھر کیا تھا! سوشل میڈیا کے معززینِ شہر نے زمین و آسمان ایک کر دیے۔ یہی لوگ جو پاکستان میں ''سویپرز کو عزت دو‘‘ کی مہمات میں پیش پیش ہوتے ہیں، اچانک یہ جملہ اس صحافی کی توہین اور صحافت پر حملہ قرار دینے لگے۔ جبکہ اسی پروگرام میں اسی سینیئر صحافی نے میزبان کے ایک سوال پر کہا تھا، ''مذکورہ اداکارہ پھول کے ساتھ لگا کانٹا ہیں‘‘اور اس کانٹے کی تشریح پروگرام کے میزبان نے جس غیر مہذب اور گھٹیا انداز میں کی، وہ معززینِ شہر کے لیے قطعاً غیر اہم رہی۔

کیوں کہ عزت صرف مرد کی ہونی چاہیے۔ عورت کے لیے کچھ بھی کہنے کی سب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ وہی صحافی ہیں، جو اپنے کالموں میں سابق خاتونِ اول بشریٰ بی بی کے لیے استعاروں اور اشاروں میں بار بار تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے رہے۔ کہیں انہیں "جادوگرنی" کہیں "پردے کے پیچھے بیٹھی سازش رچانے والی عورت" کہیں "خان کی عقل پر قبضہ جمانے والی باپردہ پیرنی" کے طور پر پیش کیا۔

بار بار ان کے ملبوسات، ان کے روحانی رجحانات، ان کے کردار اور یہاں تک کہ ان کے تلفظ کو نشانہ بنایا۔ تب بہت ہی کم لوگوں نے اسے تحقیر قرار دیا اور زیادہ تر معززینِ شہر کے منہ بند رہے کیونکہ ہدف ایک خاتون تھیں۔ ہر بار یہی ہوا، جملہ مرد نے کہا تو "مزاح"، عورت نے کہا تو "گناہ"۔ طنز مرد کا ہو تو "ادب" عورت کا ہو تو "بازاری پن۔

"

اور ہر بار یہی سوال باقی رہ گیا: کیا معزز ہونا صرف مرد کا حق ہے؟ کیا عورت کو اپنی رائے، اپنی زبان کھولنے، اپنا ردِعمل دینے کا کوئی حق نہیں؟ کیا طنز کرنے، جملہ کسنے کا اختیار صرف مردوں کو ہے؟ کیوں ہر بار عورت کو ہی بازاری اور قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے؟ بس سوال کرنے کی ہمت چاہیے اور شاید جواب سننے کی بھی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے

پڑھیں:

شاہجہاں نے تاج محل آگرہ میں کیوں تعمیر کرایا؟

مغل بادشاہ شاہجہاں نے جب اپنی محبوب اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں تاج محل بنانے کا فیصلہ کیا، تو ان کا مقصد صرف ایک مقبرہ تعمیر کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ دنیا کے لیے محبت، فن اور عظمت کا ایک ایسا شاہکار چھوڑنا چاہتے تھے جو رہتی دنیا تک ممتاز محل سے ان کی لازوال محبت کی نشانی بن جائے۔
تاج محل نہ صرف فنِ تعمیر کا ایک بے مثال نمونہ ہے بلکہ دنیا کے سات عجائبات میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس خوبصورت مقام کی زیارت کے لیے بھارت کے شہر آگرہ کا رخ کرتے ہیں۔
تاج محل کی تعمیر اور محنت کی داستان
تاج محل کی تعمیر 1635ء میں شروع ہوئی اور یہ 20 سال کی محنت کے بعد 1653ء میں مکمل ہوا۔ اس عظیم منصوبے میں 20 ہزار سے زائد مزدور، کاریگر، فنکار اور معمار شامل تھے۔ ان کی مہارت اور محنت نے دنیا کے سامنے حسن، ہنر اور محبت کا ایسا امتزاج پیش کیا جو آج تک بے مثال ہے۔
آگرہ کا انتخاب — تین بنیادی وجوہات
شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر کے لیے آگرہ کا انتخاب تین اہم وجوہات کی بنیاد پر کیا۔
شاہجہاں کے دور میں دہلی کے بجائے آگرہ مغل سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ شاہی عدالت، دفاتر اور تمام اہم انتظامی معاملات آگرہ سے چلائے جاتے تھے، اس لیے اس شہر میں یہ عظیم یادگار تعمیر کرنا زیادہ موزوں سمجھا گیا۔
تاج محل کو دریائے جمنا کے کنارے تعمیر کیا گیا، کیونکہ یہاں کی فضا پرسکون تھی اور دریا کے بہاؤ نے عمارت کے حسن کو اور نکھار دیا۔ اس مقام پر نہ صرف منظر خوبصورت تھا بلکہ قدرتی طور پر سیلاب یا زمین کٹاؤ سے بھی عمارت محفوظ رہتی تھی۔
آگرہ کے آس پاس ماربل (سنگِ مرمر) آسانی سے دستیاب تھا، جو تاج محل کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ اس کے علاوہ شہر میں پہلے سے موجود ماہر کاریگر اور فنکار بھی آگرہ کو اس منصوبے کے لیے بہترین انتخاب بناتے تھے۔
تاج محل کی تکمیل کے کچھ عرصے بعد شاہجہاں نے دارالحکومت دہلی منتقل کر دیا، جو آج بھی بھارت کا دارالحکومت ہے۔ تاہم، تاج محل آج بھی آگرہ میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور دنیا بھر میں محبت کی ایک علامت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • سانگھڑ: گاڑی سے کراچی کے صحافی خاور حسین کی لاش ملی
  • سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کا صحافی خاور حسین کے انتقال پر اظہارِ تعزیت
  • کراچی کے صحافی خاور حسین کی سانگھڑ میں گاڑی سے لاش برآمد
  • قلم کے شہید
  • فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا سیاسی، عسکری اور معاشی وژن کیا ہے؟ سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کے انکشافات
  • سینئر صحافی رضی دادا کو ایوارڈ نہ ملنے پر اینکر زریاب عرفان اور ایثار رانا کا احتجاج، وجہ بھی بتا دی
  • شاہجہاں نے تاج محل آگرہ میں کیوں تعمیر کرایا؟
  • سٹی نیوز نیٹ ورک کی سینئر اینکر پرسن اور صحافی نسیم زہرا کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا
  • معرکہ حق میں خدمات: ایکسپریس نیوز کے اینکر جاوید چوہدری اور سینئر صحافی عامر الیاس کو تمغہ امتیاز عطا
  • سینئر صحافی انصار عباسی کی معرکہ حق ایوارڈ لینے سے معذرت