معززینِ شہر کے درمیان گناہگار 'بازاری عورتیں‘
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) دو جون کو دارالحکومت اسلام آباد میں، 17 سالہ ثناء یوسف کا قتل ہوا۔ پہلی خبر جو سامنے آئی وہ کچھ اس طرح کی ہیڈ لائن کے ساتھ تھی کہ 17 سالہ جوان ٹک ٹاکر قتل۔ یوں جیسے اس کی شناخت، اس کا انسان ہونا، اس کی جوان موت سب ایک پلیٹ فارم کے لیبل تلے دبا دی گئی۔ ٹک ٹاکر ہونے کو ہی گالی بنا دیا گیا ہو۔
خبر کی پیشکش ہی یہ طے کر گئی کہ یہ بچی اب صرف ایک "ٹک ٹاکر" تھی، اور اس کے حق میں یا خلاف رائے دینا بھی اسی شناخت کے تحت ہو گا۔سوشل میڈیا پر کیا ہوا؟ زیادہ تر بحث اس بات پر رہی کہ آخر ایک لڑکی ویڈیوز کیوں بناتی تھی؟ کہاں آتی جاتی تھی؟ ماں باپ نے کیوں چھوٹ دی؟ قاتل کون تھا، قتل کیوں ہوا، اس پر کم اور لڑکی کے کردار پر زیادہ گفتگو ہوئی۔
(جاری ہے)
یہ کردار کشی کرنے والے اور عزت کے معیار طے کرنے والے بھی اس معاشرے کے معزز مرد ہی تھے۔دوسرا تماشا ایک مشہورٹی وی چینل پر عید کے موقع پر ہوا، جہاں شو میں چار مرد اور دو خواتین مہمان کے طور پر موجود تھیں۔ ارے معذرت، ان میں سینیئر صحافی بھی شامل تھے۔
بات چیت میں سیاسی وابستگیاں تو کھل کر سامنے آئیں ہی لیکن اصل طوفان اس وقت اٹھا، جب ایک اداکارہ نے سینیئر صحافی کے بارے میں سوال پر یہ کہا، ''اگر یہ صحافی نہ ہوتے تو باہر کسی ملک میں واش روم کلینر ہوتے کیونکہ انہیں حسیناؤں کے واش رومز میں جانے کا بہت شوق ہے۔
‘‘بس پھر کیا تھا! سوشل میڈیا کے معززینِ شہر نے زمین و آسمان ایک کر دیے۔ یہی لوگ جو پاکستان میں ''سویپرز کو عزت دو‘‘ کی مہمات میں پیش پیش ہوتے ہیں، اچانک یہ جملہ اس صحافی کی توہین اور صحافت پر حملہ قرار دینے لگے۔ جبکہ اسی پروگرام میں اسی سینیئر صحافی نے میزبان کے ایک سوال پر کہا تھا، ''مذکورہ اداکارہ پھول کے ساتھ لگا کانٹا ہیں‘‘اور اس کانٹے کی تشریح پروگرام کے میزبان نے جس غیر مہذب اور گھٹیا انداز میں کی، وہ معززینِ شہر کے لیے قطعاً غیر اہم رہی۔
کیوں کہ عزت صرف مرد کی ہونی چاہیے۔ عورت کے لیے کچھ بھی کہنے کی سب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ وہی صحافی ہیں، جو اپنے کالموں میں سابق خاتونِ اول بشریٰ بی بی کے لیے استعاروں اور اشاروں میں بار بار تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے رہے۔ کہیں انہیں "جادوگرنی" کہیں "پردے کے پیچھے بیٹھی سازش رچانے والی عورت" کہیں "خان کی عقل پر قبضہ جمانے والی باپردہ پیرنی" کے طور پر پیش کیا۔
بار بار ان کے ملبوسات، ان کے روحانی رجحانات، ان کے کردار اور یہاں تک کہ ان کے تلفظ کو نشانہ بنایا۔ تب بہت ہی کم لوگوں نے اسے تحقیر قرار دیا اور زیادہ تر معززینِ شہر کے منہ بند رہے کیونکہ ہدف ایک خاتون تھیں۔ ہر بار یہی ہوا، جملہ مرد نے کہا تو "مزاح"، عورت نے کہا تو "گناہ"۔ طنز مرد کا ہو تو "ادب" عورت کا ہو تو "بازاری پن۔
"اور ہر بار یہی سوال باقی رہ گیا: کیا معزز ہونا صرف مرد کا حق ہے؟ کیا عورت کو اپنی رائے، اپنی زبان کھولنے، اپنا ردِعمل دینے کا کوئی حق نہیں؟ کیا طنز کرنے، جملہ کسنے کا اختیار صرف مردوں کو ہے؟ کیوں ہر بار عورت کو ہی بازاری اور قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے؟ بس سوال کرنے کی ہمت چاہیے اور شاید جواب سننے کی بھی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
عالیہ بھٹ اپنی ننھی سی بیٹی کے لیے ای میل کیوں لکھتی ہیں؟
عالیہ بھٹ نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی راہا کے لیے باقاعدگی سے ای میلز لکھتی ہیں، جو وہ اسے اس وقت تحفے میں دیں گی جب راہا 18 سال کی ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:رنبیر کپور سے شادی کا فیصلہ کیوں کیا، عالیہ بھٹ نے بتا دیا
ریئلٹی شو ’ٹو مچ وِد کاجول اینڈ ٹوئنکل‘ میں گفتگو کے دوران کاجول نے عالیہ سے پوچھا کہ کیا یہ خیال انہیں فلم ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ سے ملا؟
عالیہ نے ہنستے ہوئے کہا، نہیں، کسی نے بتایا تھا کہ ایک ماں اپنی بیٹی کے لیے ایسا کرتی تھی، تو میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی یہ کروں، یہ روزانہ کی ای میل نہیں ہوتی، بلکہ مہینے میں ایک ای میل جس میں میں راہا کے بارے میں چھوٹی چھوٹی باتیں لکھتی ہوں، جیسے وہ کس چیز سے خوش ہوئی یا میں اس کے لیے کیا خواہش رکھتی ہوں۔
عالیہ کے مطابق میں چاہتی ہوں جب وہ 18 سال کی ہو تو یہ سب پڑھ کر جانے کہ اس کی ماں اس کے بارے میں کیسا محسوس کرتی تھی، ہو سکتا ہے وہ 12 یا 13 سال کی عمر میں ہی یہ مانگ لے۔
یہ بھی پڑھیں:عالیہ بھٹ فٹ رہنے کے لیے کونسے دیسی کھانے کھاتی ہیں؟
اداکارہ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ ای میلز راہا کی پیدائش کے دن سے لکھنا شروع کیں۔
اپنی شادی کے حوالے سے عالیہ بھٹ نے بتایا کہ انہوں نے اور رنبیر کپور نے گھر پر چھوٹی تقریب میں شادی کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔
ان کے بقول ہم دونوں بہت گھریلو مزاج کے لوگ ہیں اور زیادہ سماجی تقریبات میں نہیں جاتے، ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی میں صرف وہ لوگ ہوں جو واقعی قریب ہیں، ہم نے سوچا کہ بڑی تقریب کے بجائے چھٹیوں میں ان جگہوں پر جائیں گے جنہیں شادی کے لیے سوچا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ای میل ٹوینکل کہنہ رنبئر کپور روہا عالیہ بھٹ