UrduPoint:
2025-07-01@21:48:38 GMT

معززینِ شہر کے درمیان گناہگار 'بازاری عورتیں‘

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

معززینِ شہر کے درمیان گناہگار 'بازاری عورتیں‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) دو جون کو دارالحکومت اسلام آباد میں، 17 سالہ ثناء یوسف کا قتل ہوا۔ پہلی خبر جو سامنے آئی وہ کچھ اس طرح کی ہیڈ لائن کے ساتھ تھی کہ 17 سالہ جوان ٹک ٹاکر قتل۔ یوں جیسے اس کی شناخت، اس کا انسان ہونا، اس کی جوان موت سب ایک پلیٹ فارم کے لیبل تلے دبا دی گئی۔ ٹک ٹاکر ہونے کو ہی گالی بنا دیا گیا ہو۔

خبر کی پیشکش ہی یہ طے کر گئی کہ یہ بچی اب صرف ایک "ٹک ٹاکر" تھی، اور اس کے حق میں یا خلاف رائے دینا بھی اسی شناخت کے تحت ہو گا۔

سوشل میڈیا پر کیا ہوا؟ زیادہ تر بحث اس بات پر رہی کہ آخر ایک لڑکی ویڈیوز کیوں بناتی تھی؟ کہاں آتی جاتی تھی؟ ماں باپ نے کیوں چھوٹ دی؟ قاتل کون تھا، قتل کیوں ہوا، اس پر کم اور لڑکی کے کردار پر زیادہ گفتگو ہوئی۔

(جاری ہے)

یہ کردار کشی کرنے والے اور عزت کے معیار طے کرنے والے بھی اس معاشرے کے معزز مرد ہی تھے۔

دوسرا تماشا ایک مشہورٹی وی چینل پر عید کے موقع پر ہوا، جہاں شو میں چار مرد اور دو خواتین مہمان کے طور پر موجود تھیں۔ ارے معذرت، ان میں سینیئر صحافی بھی شامل تھے۔

بات چیت میں سیاسی وابستگیاں تو کھل کر سامنے آئیں ہی لیکن اصل طوفان اس وقت اٹھا، جب ایک اداکارہ نے سینیئر صحافی کے بارے میں سوال پر یہ کہا، ''اگر یہ صحافی نہ ہوتے تو باہر کسی ملک میں واش روم کلینر ہوتے کیونکہ انہیں حسیناؤں کے واش رومز میں جانے کا بہت شوق ہے۔

‘‘

بس پھر کیا تھا! سوشل میڈیا کے معززینِ شہر نے زمین و آسمان ایک کر دیے۔ یہی لوگ جو پاکستان میں ''سویپرز کو عزت دو‘‘ کی مہمات میں پیش پیش ہوتے ہیں، اچانک یہ جملہ اس صحافی کی توہین اور صحافت پر حملہ قرار دینے لگے۔ جبکہ اسی پروگرام میں اسی سینیئر صحافی نے میزبان کے ایک سوال پر کہا تھا، ''مذکورہ اداکارہ پھول کے ساتھ لگا کانٹا ہیں‘‘اور اس کانٹے کی تشریح پروگرام کے میزبان نے جس غیر مہذب اور گھٹیا انداز میں کی، وہ معززینِ شہر کے لیے قطعاً غیر اہم رہی۔

کیوں کہ عزت صرف مرد کی ہونی چاہیے۔ عورت کے لیے کچھ بھی کہنے کی سب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ وہی صحافی ہیں، جو اپنے کالموں میں سابق خاتونِ اول بشریٰ بی بی کے لیے استعاروں اور اشاروں میں بار بار تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے رہے۔ کہیں انہیں "جادوگرنی" کہیں "پردے کے پیچھے بیٹھی سازش رچانے والی عورت" کہیں "خان کی عقل پر قبضہ جمانے والی باپردہ پیرنی" کے طور پر پیش کیا۔

بار بار ان کے ملبوسات، ان کے روحانی رجحانات، ان کے کردار اور یہاں تک کہ ان کے تلفظ کو نشانہ بنایا۔ تب بہت ہی کم لوگوں نے اسے تحقیر قرار دیا اور زیادہ تر معززینِ شہر کے منہ بند رہے کیونکہ ہدف ایک خاتون تھیں۔ ہر بار یہی ہوا، جملہ مرد نے کہا تو "مزاح"، عورت نے کہا تو "گناہ"۔ طنز مرد کا ہو تو "ادب" عورت کا ہو تو "بازاری پن۔

"

اور ہر بار یہی سوال باقی رہ گیا: کیا معزز ہونا صرف مرد کا حق ہے؟ کیا عورت کو اپنی رائے، اپنی زبان کھولنے، اپنا ردِعمل دینے کا کوئی حق نہیں؟ کیا طنز کرنے، جملہ کسنے کا اختیار صرف مردوں کو ہے؟ کیوں ہر بار عورت کو ہی بازاری اور قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے؟ بس سوال کرنے کی ہمت چاہیے اور شاید جواب سننے کی بھی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر رسمی تجارت عروج پر

پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ تجارتی تعلقات 2019 سے معطل ہیں، 2018 میں دو طرفہ تجارت کا حجم 2 ارب 41 کروڑ ڈالر تھا جو 2024 میں گھٹ کر صرف 1 ارب 20 کروڑ ڈالر رہ گیا۔2019 میں پاکستان کی بھارت کو برآمدات 54 کروڑ 75 لاکھ ڈالر تھیں، جو 2024 میں کم ہو کر صرف 4 لاکھ 80 ہزار ڈالر رہ گئیں۔

اس کے باوجود، غیر رسمی تجارت عروج پر ہے، الجزیرہ نے بھارت کی گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (جی ٹی آر آئی) کے حوالے سے گزشتہ ماہ رپورٹ کیا تھا کہ بھارت کی پاکستان کو غیر رسمی برآمدات کا تخمینہ سالانہ 10 ارب ڈالر ہے۔یہ غیر رسمی تجارت دبئی (یو اے ای)، کولمبو (سری لنکا) اور سنگاپور کی بندرگاہوں کے ذریعے کی جا رہی ہے۔

بھارت کی برآمدات میں ادویات، پیٹرولیم مصنوعات، پلاسٹک، ربڑ، نامیاتی کیمیکلز، رنگ، سبزیاں، مصالحے، کافی، چائے، ڈیری مصنوعات اور اناج شامل ہیں، جب کہ پاکستان کی بھارت کو اہم برآمدات میں تانبا، شیشہ، نامیاتی کیمیکلز، گندھک، پھل، میوے اور کچھ تیل دار بیج شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وہ خاموش نہیں رہیں گی
  • نادیہ خان محلے کی عورت بن کر نہ چیخیں، وقار سے بات کریں: ثروت گیلانی
  • غزہ: اسرائیلی بمباری میں فلسطینی فلمساز اور صحافی اسماعیل ابو حطاب شہید
  • اسرائیل کی غزہ پر بمباری، متعدد فلسطینی صحافی شہید
  • یہ امتیاز کیوں؟
  • دمے کا مرض ختم کیوں نہیں ہوتا؟
  • جماعت اسلامی کی سینئر صحافی طارق محمود سے ڈکیتی کی مذمت
  • کاشف سعید شیخ و دیگر کا سینئر صحافی جاوید اصغر چودھری سے اظہار تعزیت
  • کلوئی صحافی پر حملے کیخلاف صحافیوں کا شدید احتجاج
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر رسمی تجارت عروج پر