UrduPoint:
2025-11-19@03:13:54 GMT

معززینِ شہر کے درمیان گناہگار 'بازاری عورتیں‘

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

معززینِ شہر کے درمیان گناہگار 'بازاری عورتیں‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) دو جون کو دارالحکومت اسلام آباد میں، 17 سالہ ثناء یوسف کا قتل ہوا۔ پہلی خبر جو سامنے آئی وہ کچھ اس طرح کی ہیڈ لائن کے ساتھ تھی کہ 17 سالہ جوان ٹک ٹاکر قتل۔ یوں جیسے اس کی شناخت، اس کا انسان ہونا، اس کی جوان موت سب ایک پلیٹ فارم کے لیبل تلے دبا دی گئی۔ ٹک ٹاکر ہونے کو ہی گالی بنا دیا گیا ہو۔

خبر کی پیشکش ہی یہ طے کر گئی کہ یہ بچی اب صرف ایک "ٹک ٹاکر" تھی، اور اس کے حق میں یا خلاف رائے دینا بھی اسی شناخت کے تحت ہو گا۔

سوشل میڈیا پر کیا ہوا؟ زیادہ تر بحث اس بات پر رہی کہ آخر ایک لڑکی ویڈیوز کیوں بناتی تھی؟ کہاں آتی جاتی تھی؟ ماں باپ نے کیوں چھوٹ دی؟ قاتل کون تھا، قتل کیوں ہوا، اس پر کم اور لڑکی کے کردار پر زیادہ گفتگو ہوئی۔

(جاری ہے)

یہ کردار کشی کرنے والے اور عزت کے معیار طے کرنے والے بھی اس معاشرے کے معزز مرد ہی تھے۔

دوسرا تماشا ایک مشہورٹی وی چینل پر عید کے موقع پر ہوا، جہاں شو میں چار مرد اور دو خواتین مہمان کے طور پر موجود تھیں۔ ارے معذرت، ان میں سینیئر صحافی بھی شامل تھے۔

بات چیت میں سیاسی وابستگیاں تو کھل کر سامنے آئیں ہی لیکن اصل طوفان اس وقت اٹھا، جب ایک اداکارہ نے سینیئر صحافی کے بارے میں سوال پر یہ کہا، ''اگر یہ صحافی نہ ہوتے تو باہر کسی ملک میں واش روم کلینر ہوتے کیونکہ انہیں حسیناؤں کے واش رومز میں جانے کا بہت شوق ہے۔

‘‘

بس پھر کیا تھا! سوشل میڈیا کے معززینِ شہر نے زمین و آسمان ایک کر دیے۔ یہی لوگ جو پاکستان میں ''سویپرز کو عزت دو‘‘ کی مہمات میں پیش پیش ہوتے ہیں، اچانک یہ جملہ اس صحافی کی توہین اور صحافت پر حملہ قرار دینے لگے۔ جبکہ اسی پروگرام میں اسی سینیئر صحافی نے میزبان کے ایک سوال پر کہا تھا، ''مذکورہ اداکارہ پھول کے ساتھ لگا کانٹا ہیں‘‘اور اس کانٹے کی تشریح پروگرام کے میزبان نے جس غیر مہذب اور گھٹیا انداز میں کی، وہ معززینِ شہر کے لیے قطعاً غیر اہم رہی۔

کیوں کہ عزت صرف مرد کی ہونی چاہیے۔ عورت کے لیے کچھ بھی کہنے کی سب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ وہی صحافی ہیں، جو اپنے کالموں میں سابق خاتونِ اول بشریٰ بی بی کے لیے استعاروں اور اشاروں میں بار بار تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے رہے۔ کہیں انہیں "جادوگرنی" کہیں "پردے کے پیچھے بیٹھی سازش رچانے والی عورت" کہیں "خان کی عقل پر قبضہ جمانے والی باپردہ پیرنی" کے طور پر پیش کیا۔

بار بار ان کے ملبوسات، ان کے روحانی رجحانات، ان کے کردار اور یہاں تک کہ ان کے تلفظ کو نشانہ بنایا۔ تب بہت ہی کم لوگوں نے اسے تحقیر قرار دیا اور زیادہ تر معززینِ شہر کے منہ بند رہے کیونکہ ہدف ایک خاتون تھیں۔ ہر بار یہی ہوا، جملہ مرد نے کہا تو "مزاح"، عورت نے کہا تو "گناہ"۔ طنز مرد کا ہو تو "ادب" عورت کا ہو تو "بازاری پن۔

"

اور ہر بار یہی سوال باقی رہ گیا: کیا معزز ہونا صرف مرد کا حق ہے؟ کیا عورت کو اپنی رائے، اپنی زبان کھولنے، اپنا ردِعمل دینے کا کوئی حق نہیں؟ کیا طنز کرنے، جملہ کسنے کا اختیار صرف مردوں کو ہے؟ کیوں ہر بار عورت کو ہی بازاری اور قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے؟ بس سوال کرنے کی ہمت چاہیے اور شاید جواب سننے کی بھی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے

پڑھیں:

27 ویں ترمیم: اتنی جھنجھناہٹ کیوں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251119-03-5
’’سیلف میڈ بنو‘‘ کی نصیحت سنتے عمر گزاردی لیکن سوائے اپنی مٹی خراب کرنے، معلمی اور کالم لکھنے کے ٹوپی میں کوئی کلغی نہ سجا سکے۔ اگر کسی کو بزعم خود عہدوں کی فیکٹری لگاتے، عہدے تراشتے اور وصولتے دیکھا تو وہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ہیں۔ پہلے اعزاز اور عہدے دعائوں کا نتیجہ ہوتے تھے اب ان کے لیے زور لگانا پڑتا ہے۔ آکاش دیوتا مہر ثبت نہ کرے تو پارلیمان کے ذریعے عطا کروانے کا اہتمام کرلیا جاتا ہے۔

جس طرح کھانے کی سب خرابیوں کی وجہ مرچ کی کمی اور زیادتی باور کرائی جاتی ہے اسی طرح جمہوریت کی خامیوں کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے بے محابا، متواتر اور مسلسل ترامیم۔ لیکن یہی ترامیم حکومتوں اور جرنیلوں کے لیے چاندنی راتوں کا سماں پیدا کردیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آئین میں ترامیم ہوسکتی ہیں، ترامیم کی جاسکتی ہیں، تو کون ہے جو طاقت رکھتے ہوئے اس طرف منہ اٹھائے نہ چلا آئے؟؟ 27 ویں ترمیم نے فیلڈ مارشل عاصم منیرکے آنگن میں جو ستارے جگمگائے ہیں ان کی تفصیل میں کتنا ہی کسرِ نفسی سے کام لیا جائے پھر بھی شب بھر ایک ہی نام کا چرچا رہتا ہے۔ عاصم منیر

٭ فیلڈ مارشل… جنرل عاصم منیر۔۔ پانچ ستارہ عہدہ، جسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔

٭ وہ پاک آرمی کے سربراہ ہوں گے جس سے مراد ہے چیف آف آرمی اسٹاف۔

٭ چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) یہ وہ نیا عہدہ ہے جو 27 ویں ترمیم کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف COAS کے عہدے کے ساتھ ساتھ وہ یہ عہدہ بھی سنبھالیں گے۔

٭ وہ تینوں افواج (بری، بحری اور فضا ئی) پر بھی آئینی کمانڈ رکھتے ہیں۔ وہ سب سے اعلیٰ آئینی کمانڈر ہوں گے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے۔

٭ ستائیسویں ترمیم کے تحت نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کا ایک نیا ڈھانچہ قائم کیا گیا ہے اور چیف آف ڈیفنس فورسز یعنی فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اس کمانڈ کی پالیسی، نگرانی اور متعلقہ اعلیٰ تقرریوں میں مشاورتی وسفارشاتی کردار حاصل ہے۔

٭ چیف آف ڈیفنس فورسز کی مدت 5 سال ہے۔ وہ 27 نومبر 2025 سے چارج سنبھالیں گے جو 27 نومبر 2030 کو ختم ہوگی جس میں مزید توسیع کا امکان موجود ہے بشرط یہ کہ حکومت اور قانون اس کی منظوری دیں۔

٭ وہ تا حیات قانونی استثنیٰ کے حقدار ہوں گے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عبوری یا عام عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے سے کافی حدتک تحفظ حاصل ہوگا۔

٭ انہیں عہدے سے ہٹانے کا طریقہ بھی پارلیمنٹ میں مواخذے کی طرز (impeachment-like) کی طرح ہوگا۔ یعنی انہیں اس عہدے سے ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت درکار ہوگی۔

٭ بطور فیلڈ مارشل ان کا عہدہ، رینک، مراعات اور یونیفارم کے حقوق مستقل ہوں گے۔

٭ ان کو پوسٹ کمانڈ ڈیوٹیز دی جاسکیں گی یعنی کمانڈ ختم ہونے کے بعد بھی حکومت انہیں ریاستی مفاد کی ذمے داری دے سکتی ہے۔

٭ چونکہ وہ CDF اور نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کی اعلیٰ سطحوں سے منسلک ہوں گے لہٰذا ان کے پاس نہ صرف فیصلہ سازی بلکہ اسٹرٹیجک نیو کلیئر اثاثوں کے حوالے سے بھی کلیدی کردار ہوگا۔

ان تفصیلات میں ’’تا حیات‘‘ پر سب کے بھٹّے لگے ہوئے ہیں حالانکہ پاکستان میں جب جب کوئی بھی جرنیل براہ راست نازل ہوا یا جمہوریت کے پہلو میں کہنیاں مارتا، اسے کنٹرول کرتا، تشریف فرما رہا اس نے شہر آرزو سے واپسی کے تالے کی چابی دریا برد کرنے کو اپنا حق سمجھا ہے۔ کبھی براہ راست اعلان کردیا کبھی اعلان نہیں کیا۔ فرق کچھ نہیں۔ پاکستان میں فوج کے سربراہ ہمیشہ ہی نظام کے سر پر چڑھ کے ناچتے رہے ہیں، جان محفل رہے ہیں۔ اب اگر فیلڈ مارشل اقتدار کے ایوانوں میں آئینی طور پر بہت زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوگئے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فیلڈ مارشل کے آنریری اور اعزازی عہدے کو تاحیات اور باوردی کردیا گیا، ایک آئینی تحفظ فراہم کردیا گیا ہے، اس کی فنکشنل اور آپریشنل شکل اور ڈیوٹی بنادی گئی ہے، اس کو Love اور Hate کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے حقائق کی نظرسے دیکھیے۔ مودی کا آپریشن سیندور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ماضی میں بھی حسب موقع جرنیلوں کو نوازا جاتا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیرکی سربراہی میں پاک فوج نے وہ کرکے دکھایا ہے جو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا، دنیا حیران ہے اور تسلیم کررہی ہے۔

مئی کی پاک بھارت جنگ اگرچہ دورانیہ کے اعتبار سے مختصر تھی لیکن جنگی اعتبار سے یہ کثیرالجہت تھی۔ اس میں سائبر وارفیئر بھی شامل تھا، اسپیس وارفیئر، الیکٹرونک وار فیئر، میزائل وار فیئر، ڈرون وارفیئر اور انفارمیشن وارفیئر بھی تھا۔ بی بی سی کے ایک پروگرام میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے اس جنگ کی منصوبہ بندی مل کر کی تھی۔ دس تاریخ کو جب بھارت نے پاکستان پر میزائل حملہ کیا تو ہماری اس دن 97 مرتبہ باہمی مشاورت ہوئی تھی‘‘۔ یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل کی پاک بھارت جنگ اس سے کہیں زیادہ شدید اور وسعت کی حامل ہوگی جس کے لیے موجودہ کمانڈ اینڈ کنٹرول اسٹرکچر کو مزید طاقتور اور مضبوط بنانے، اس کی تنظیم نو کرنے اور مربوط کرنے کی ضرورت تھی۔ آرٹیکل 243 کی ترمیم کے ذریعے تینوں افواج کے درمیان آپریشنل پلاننگ زبردست طریقے سے مربوط کی گئی ہے۔ بھارت کے جنگی ماہرین اس آرزو میں مرے جارہے ہیں ہمارے یہاں کیڑے نکالے جارہے ہیں۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں فوجی جرنیل کی اصل طاقت آئین یا اس کی کسی شق میں نہیں ہے وہ اس کی فوج سے وابستگی، عہدے اور وردی میں ہے۔ 27 ویں ترمیم سے اس حقیقت میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پہلے چیف آف آرمی اسٹاف ہی پاکستان کا اصل حاکم ہوتا تھا اور پاکستان کی تمام سیاست کو کنٹرول کرتا تھا۔ نیول چیف اور ائر چیف کی براہ راست طاقت کچھ نہیں ہوتی تھی تو اب ان سب کو باقاعدہ آئینی طور پرفیلڈ مارشل کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے یعنی اب تینوں مسلح افواج براہ راست ایک ہی کنٹرول میں آگئی ہیں۔ اب فیلڈ مارشل فضائیہ اور بحریہ کے بھی سربراہ ہوں گے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو محض 27 ویں آئینی ترمیم سے طاقت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ ایک سنگین معاشی بحران کے شکار ملک کے لیے انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جس طرح بہتر تعاون حاصل کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بیرونی دنیا میں اپنی افواج کی طاقت کو جس موثر انداز میں پیش کیا ہے جس طرح امریکا کی حمایت انہیں حاصل ہوئی ہے، سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ ہوا ہے اس کے بعد سب فوج سے ہی رابطے کررہے ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ یہ عمران خان کے لوگ اور ان کا سوشل میڈیا سیل ہے جو سب سے بڑھ کر اس ترمیم پر شور کررہے ہیں۔ کیا عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ کی ایسی مرکزی اہمیت اور حیثیت نہیں تھی؟ کیا انہیں توسیع نہیں دی گئی تھی؟؟

بابا الف سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم: اتنی جھنجھناہٹ کیوں
  • واویلا کیوں؟
  • صحافی بینظیر شاہ کی ’جعلی‘ ویڈیو کا معاملہ:  عطا اللہ تارڑ کی ذمے داران کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی
  • وفاقی وزیر اطلاعات کا سینئر صحافی حاجی محمد نواز رضا ، طارق محمود سمیر کے کزن کے جواں سال بیٹے کی موت پر اظہار افسوس
  • پی ٹی آئی والے عمران کو عقلمند سمجھتے تھے، ایک عورت نے بیچ ڈالا: خواجہ آصف
  • جماعت اسلامی رہنمائوں کا سینئر صحافی راؤ افنان کی والدہ کی وفات پر اظہار تعزیت
  • یہ اسرائیلوے اورٹرمپوے
  • عہد ِرسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشی کردار
  • ووٹ چوری پر صحافی پیوش مشرا کا سنسنی خیز انکشاف، کانگریس نے ویڈیو جاری کردی
  • پی ٹی آئی والے عمران کو بہت عقلمند سمجھتے تھے لیکن ایک عورت نے اسے بیچ ڈالا: خواجہ آصف