زون 5اور 7کا میچ بغیر کسی ہار جیت کے ختم
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسپورٹس ڈیسک)پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام پی سی بی ریجنل انٹر ڈسٹرکٹ سینر ( کراچی ریجن ) میں زون پانچ اور زون سات کا میچ بغیر کسی ہار جیت کے ختم ہو گیا۔ یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس پر کھیلے گئے میچ میں زون پانچ 59 اوورز میں 222 ر نز بنا کر آوٹ ہوگئی۔ محمد حسان اقبال نے 10 چو کوں کی مدد سے 55 ، محمد علی بٹ نے 7 چوکوں ایک چھکے کی مدد سے ناقابل شکست 53 اور شعیب خان نے 5 چوکوں ایک چھکے کی مدد سے 45رنز بنا ے۔ لیفٹ آرم لیگ اسپنر فواد خان نے 56 ر نز دیکر 4 اور میڈیم پیسر معراج الدین نے 35 رنز دیکر 3 کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔ جواب میں زون سات نے کھیل کے اختتام پر 64 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر پہلی اننگز میں 244 رنز بنا کر پہلی اننگز کی بر تری کی بنیاد پر 3 پوائنٹس حاصل کرلئے۔ محمد اعجاز نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 10 چوکوں 2 چھکوں کی مدد سے ناقابل شکست 90، قادر خان نے 10 چوکوں کی مد د سے 57، غنی سبحان نے 8 چوکوں کی مد د سے 51 اور حظیفہ منیر نے 25 رنز بنائے۔ محمد دانیال نے 54 رنز دیکر 2 کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔جبکہ گزشتہ دو دن کی بارش کی وجہ سے زون ایک بمقابلہ زون تین کے سی سی اے اسٹیڈیم اور زون دو اور زون چار کے درمیان بقائی کرکٹ گراونڈ پر کھیلے جا نے والے میچز تینوں دن شروع نہ ہو سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی مدد سے
پڑھیں:
سانحۂ 17 اگست
17 اگست ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے‘ مگر17 اگست1988 کا دن ایک غیرمعمولی تاریخ ہے‘ یہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا دن ہے۔ آج صدر جنرل محمد ضیاء الحق جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں تاہم وطن عزیز کو خانہ جنگی سے بچانے‘ اسلامی نظام زندگی کے عملی نفاذ کی کوشش کرنے والے‘ افغانستان میں جارحیت کے بعد پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے والے روس کو دریائے آمو کے پار دھکیلنے والے‘ راجیو گاندھی کے ماتھے کو خوف کے پسینے میں ڈبو دینے والے صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا نام زندہ جاوید ہے.
افغانستان سے روس کی واپسی ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے، اس کھیل میں انھوں مہرے ایسی ترتیب سے لگائے کہ میخائیل گورپاچوف بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے‘ صدر ضیاء الحق جنیوا معاہدے کے خلاف تھے ‘ صدر جنرل محمد ضیاء الہق چاہتے تھے کہ روس کی واپسی سے پہلے افغانستان میں نئی افغان حکومت قائم ہوجائے‘ ان کے طیارے کے حادثے پر بھارت سمیت پاکستان کے ہر دشمن ملک میں جشن کا سماں تھا۔
ان میں اس قدر جرات تھی کہ انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی قوت کے صدر کی امداد مونگ پھلی کہہ کر مسترد کردی‘ اس قدر بہادر لیڈر جب دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے اثاثوں میں محض دو لاکھ کی رقم تھی اور کوئی کارخانہ‘ فیکٹری‘ ملز اور جاگیر ان کے نام نہیں تھی.
صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے اہل پاکستان کے لیے تاریخ کے اوراق میں خوش گوار یادیں چھوڑی ہیں‘ وہ گیارہ سال تک پاکستان کے حکمران رہے‘ لہٰذا ملک میں ان کے ناقد بھی بہت ہیں اور ان کے حامی بھی بہت۔ جب جنرل محمد ضیاء الحق اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے پاس مکمل اختیار تھا‘ اس کے باوجود عاجزی انکساری کی مثال پیش کی.
اسیر بلوچ راہنماؤں کو رہا کیا‘ ملک میں کاروبار زندگی بحال کیا‘اپنے عہد میں انھوں ملک میں اسلامی نظام کی عملی کوشش کی‘پاکستان کے سیاسی نظام کو کرپشن‘ بد دیانتی سے بچانے کے لیے آئین میں آرٹیکل62.63 جیسے آرٹیکل شامل کرائے‘ ملک کی خارجہ پالیسی کو متوان‘ مضبوط اور محفوظ بنایا‘ داخلی طور پر ملک میں امن قائم کیا.
ان کے دور میں بلوچستان میں فوج کشی نہیں ہوئی بلکہ جو کچھ اس حوالے سے سیاسی ورثہ میں ملا تھا‘ 1950 میں جنرل محمد ضیاء الحق نے گائیڈ کیولری میں شمولیت اختیار کی دس سال تک اسی یونٹ میں رہے‘1955 کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی‘ اسی کالج میں انسٹرکٹر بھی رہے.
انھوں نے رسالہ کی ایک کور‘ ایک آرمڈ بریگیڈ‘ ایک آرمز ڈویژن‘ اور ایک کور کی کمانڈ کی‘ جنرل محمد ضیاء الحق‘ سابق آرمی چیف جنرل گل حسن کے اسٹاف آفیسر بھی رہے‘ 52 سال کی عمر میں ملک کے آرمی چیف مقرر ہوئے.
مجھے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو بطور والد اور بطور حکمران دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ وہ ایک کشادہ ظرف انسان تھے ان کی ذاتی زندگی کبھی بھی کسی قسم کے ہزیمت اور پشیمانی والے کام میں ملوث نہیں رہی تبلیغ اسلام ان کے ایمان کا حصہ تھا اور ان کی آرزو تھی کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے‘ آزاد خیالی اور لبرل ازم‘ مادر پدر آزادی کو مغربی معاشرے کے اثرات سے ملک کو بچانا چاہتے تھے.
ان کے دامن پر کسی قسم کے کرپشن کے داغ تلاش نہیں کرسکا‘1979 میں ملٹری کونسل نے انھیں نشان امتیاز (ملٹری) دینے کا فیصلہ کیا مگر انھوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میری کاکردگی کے حسن اور قبیح کا فیصلہ تاریخ اور آیندہ آنے والی نسل پر چھوڑ دیجیے.
وہ پانچ جولائی1977 سے 17 اگست 1988 تک ملک کے حکمران رہے‘17 اگست ان کی زندگی کا آخری اور پاکستانی قوم کے لیے قومی غم کا دن ثابت ہوا‘ اس روز ان کے طیارے کا حادثہ ہوا اور فوجی وردی میں وہ اس حادثے میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے.
جائے حادثہ بہاول پور ہوائی اڈے سے تقریباً 9 کلو میٹر دور شمال مغرب کی جانب ہے‘ حادثے کی تحقیقات کے لیے اس وقت ائر کموڈور عباس کی سربراہی میں ایک بورڈ بنایا گیا‘ جس کی تحقیقات میں کہا گیا کہ طیارے کو باہر سے کسی نے نشانہ نہیں بنایا‘ جو کچھ بھی ہوا جہاز کے اندر سے ہی ہوا.
جس طرح جہاز گرنے سے قبل اوپر نیچے ہوا اور لڑ کھڑایا اس سے اندازہ یہی کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ پائلٹس کے ساتھ کوئی طبی صحت کامعاملہ ہوا ہو‘ طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے جسٹس شفیع کمیشن بھی بنایا گیا تھا‘ یہ سب کچھ ایک واقعاتی کہانی کا ہی مواد ہے‘ ہم بطور لواحقین آج تک مطمئن نہیں ہوسکے کہ طیارہ کیوں‘ کیسے گرا‘ اور اس حادثے کے اصل محرکات کیا تھے.
اگر یہ سازش تھی تو یہ کہاں تیار ہوئی‘ کون اس میں ملوث رہا‘ کس نے کس کے کہنے پر منصوبہ بندی کی‘ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے کا مقدمہ اب اللہ کی عدالت میں ہے‘ انھوں نے اس ملک کے لیے‘ قوم کے لیے اور ملت اسلامیہ کے لیے جو کچھ کیا اب وہ سب تاریخ کا حصہ ہے.
صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کا آج37 واں یوم شہادت ہے‘ یہ ساڑھے تین عشروں کا وقت کیسے گزرا‘ اور کس کرب سے ہم دوچار رہے ہیں‘ یہ المیہ سانحہ سے بڑھ کر ہے کہ آج بھی ہم اور شہید صدر کے لاکھوں چاہنے والے ان حقائق کی تلاش میں ہے جو حادثے کا سبب بنے۔