data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ایران نے گزشتہ ماہ آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے کی تیاری کر لی تھی۔

ذرائع کے مطابق اگرچہ ایران نے آبنائے ہرمز میں سرنگیں نصب نہیں کیں، تاہم اس نے خلیج فارس میں بحری جہازوں پر بارودی سرنگیں لوڈ کی تھیں۔ انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ آیا ایران نے بعد میں یہ سرنگیں جہازوں سے ہٹائی تھیں یا نہیں۔

ذرائع کے مطابق امریکی انٹیلی جنس نے سیٹلائٹ اور خفیہ ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔

دوسری جانب خلیجی کشیدگی کے باوجود عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 10 فیصد کم ہوئی ہیں۔

آبنائے ہرمز سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے یومیہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انٹیلی جنس ایران نے

پڑھیں:

اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (دوسری قسط)

سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاء اللہ شاکری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔ ترجمہ: علی واحدی

سوال: حالیہ برسوں میں، ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے شعبوں میں چین کے نمایاں شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے۔ آپ کے خیال میں پاک چین تعلقات ایران کے لیے کیا فائدے رکھتے ہیں؟
آپ نے دیکھا کہ چین کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ جنوبی ایشیا کی طرف ہے جو پاکستان کے داخلی راستے سے گزرتا ہے اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی چین کو بحیرہ عمان کے گرم پانیوں سے ملاتا ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کی دوسری جہت، جس کا تعلق خلیج فارس اور وسطی ایشیا کے حصے سے ہے، ایران کے ساتھ تعلق کے بغیر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان ایران مثلث ایک بہت ہی بامعنی مثلث ہوگی اور اقتصادی راہداریوں کی تشکیل کے ذریعے چین کے سٹریٹیجک منصوبوں کو پاکستان سے مزید  جوڑ سکے گی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی قومی صلاحیتیں قائم کی ہیں۔ پاکستان کے برعکس، جو چین کا وہاں صلاحیت بڑھانے کا انتظار کر رہا ہے، ہم نے پہلے ہی صلاحیت تیار کر لی ہے۔ یعنی ہمارے پاس تقریباً 280 ملین ٹن بندرگاہ کی گنجائش ہے۔

ہماری ریلوے مکمل طور پر ملک گیر ہے، یعنی یہ جنوب کو شمال سے ملاتی ہے، اور ہماری مشرقی مغربی ریلوے بھی زیر تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ چابہار سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے اس لنک کو مکمل طور پر مکمل کر دے گی۔ کوئٹہ سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے ایک سو سال پرانی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں مواصلاتی نیٹ ورک یا تو تیار ہیں یا ان کا ایک چھوٹا سا حصہ زیر تعمیر ہے، جو انشاء اللہ ہماری مقامی صلاحیتوں سے تعمیر کیا جائے گا۔ یقیناً ان صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے چینی حکومت سرمایہ کاری کر سکتی ہے اور اس مسئلے کو ایران اور چین کے درمیان طویل المدتی تزویراتی تعاون کی دستاویز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

سوال: پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ملٹری، سیکورٹی اور سیاسی ڈپلومیسی کے حوالے سے جو دیرینہ تعلقات ہیں، کیا ہم ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو سہل بنانے میں اسلام آباد کے کردار پر اعتماد کر سکتے ہیں؟
دیکھیں ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔

اگر پاکستان تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ سفارتی تقاضوں کو اس طرح پہنچا سکتا ہے جس سے ایران اور امریکہ کے درمیان تبادلے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ہمیں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستانی بھی خطے کے بعض ممالک کے حوالے سے ثالثی کے لیے تیار تھا۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکی اس کام کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیں گے، لیکن میرے خیال میں اگر پاکستان اس سلسلے میں قابل قدر کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی آزادی اور خودمختاری کے نظرئے کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچانا چاہیے۔

سوال: ایک طویل تاریخ کے ساتھ ایک سفارت کار کے طور پر، اس خطے (برصغیر اور وسطی ایشیا) میں ایک طرف ایران اور افغانستان کے درمیان اور دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کی کشیدگی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اور یہ بھی کہ اس علاقے میں چین کے اقدامات کیا ہیں؟
آپ نے دیکھا ہے کہ آجکل آبی وسائل کو بانٹنے والے ممالک کے درمیان آبی سفارت کاری  ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں آنے والے کچھ دریا چین سے نکلتے ہیں اور ہمارے ہاں دریائے ہلمند کا مسئلہ  افغانستان کے ساتھ چل رہا ہے جس پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح اتفاق ہوا اور پھر مختلف ادوار میں اس کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں جن ممالک کو ہائیڈرو پولیٹکس سے شدید خطرہ ہے ان میں سے ایک پاکستان ہے، کیونکہ ہندوستانیوں نے کہا  ہے کہ ہم دریائے سندھ کے معاہدے کو معطل کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ پاکستان کے 80 فیصد آبی وسائل کو متاثر اور محدود کر دے گا۔ اس مسئلے کا ہمارے اور افغانستان کے درمیان پانی کے تناؤ سے بالکل بھی موازنہ نہیں نہیں کی سکتا ہے (تقریباً 500 ملین کیوبک میٹر کے اعداد و شمار کے ساتھ)۔

سندھ طاس یا سندھ آبی معاہدے میں بہت وسیع بحث شامل ہے، اس طرح کہ پاکستان کے تقریباً 80% لوگوں کی روزی روٹی ان دریاؤں سے وابستہ ہے۔ اس لیے میری رائے میں پانی کے مسئلے کو کبھی بھی دوسرے تنازعات کا یرغمال نہیں بنانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اتفاق کیا گیا ہے اور کسی کو بھی ان آبی وسائل کو یرغمال نہیں بنانا چاہیئے جو دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان مشترک ہیں۔ یہ اس مسئلے سے متعلق تمام بین الاقوامی قانونی قواعد اور انسانی ہمدردی کے تحفظات کی تحریف کو ظاہر کرتا ہے۔ ان وسائل میں سمندر کی طرح پانی کے وسائل بھی شامل ہیں جو ملکوں کے درمیان مشترک ہیں اور یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان اور ایران اور افغانستان دونوں کے درمیان حل ہونا چاہیئے۔

سوال: اگر آپ آخر میں کسی خاص نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم استفادہ کریں گے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں علمی اور سائنسی تعلقات بہت کمزور ہیں، آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں متعلقہ تعلیمی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہیں، ہم ایران اور پاکستان کے درمیان اس رابطہ کو بہت قوی و مضبوط کرسکتے ہیں۔

اصل لنک:
https://ana.ir/fa/news/991353/

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (دوسری قسط)
  • ٹرمپ یوکرین کے اہم علاقے روس کے حوالے کرنے کو تیار، زیلنسکی پر دباؤ کی تیاری
  • عنوان: موجودہ عالمی حالات
  • چینی درآمد کرنے کیلئے کم بولی کی پیشکش مسترد، مہنگی پیش کش قبول کرلی گئی
  • نیتن یاہو ایک پاگل اور قاتل شخص ہے، سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس سربراہ
  • ٹرمپ کی کنفیوژن
  • اگر کوئی دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے یا گھر میں بارودی مواد رکھتا ہے تو اسے نتائج بھگتنا پڑیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر کی طلباء کیساتھ خصوصی نشست
  • بھارت کی ایک اور سبکی ۔۔۔اورپاکستان نےایک اور سفارتی کامیابی حاصل کرلی
  • کلاوڈ برسٹ کی پیشگی اطلاع دینے والا ڈوپلر ریڈار کیوں دستیاب نہیں؟
  • ٹرمپ کا پاک بھارت جنگ کے درمیان 6 سے 7 طیارے گرائے جانے کا دعویٰ