اپنی چھت، اپنا گھر پراجیکٹ کا مقصد عوام کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے:مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
ویب ڈیسک :وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ اپنی چھت، اپنا گھر پراجیکٹ کا مقصد عوام کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے.
اپنے ایک بیان میں مریم نواز نے کہا ہے کہ عوام سے کیا ایک اور وعدہ پورا کردیا، اپنی چھت، اپنا گھر پراجیکٹ کا مقصد عوام کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے، اپلائی کرنے والے ہر فرد کو سیاسی وابستگی سے بالا قرضے مل رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ عوام کے گھر بنانے کا ریکارڈ قائم کیا، اپنے ریکارڈ خود ہی توڑیں گے، قائد نواز شریف کا عوامی خدمت کا وژن عملی صورت اختیار کرچکا ہے،ان کا کہنا ہے کہ لوگوں نے جھوٹے نعرے لگائے مگر ہم نے عوام کے لیے گھر بنائے۔
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: پشاورہائیکورٹ کےچیف جسٹس کیلئے جسٹس عتیق شاہ کا نام منظور
.
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: عوام کے لیے
پڑھیں:
تاریخ کے دو رُخ | ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) تاریخ میں زیادہ تر اُن افراد کا تذکرہ ہے جن کے پاس طاقت اور اقتدار تھا۔ ان کے نزدیک عام انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ عام لوگوں کا قتل عام اور آبادیوں کو تباہ و برباد کرنا ان کا مشغلہ تھا۔ دوسری جانب ایسے دانشور تھے جو دولت اقتدار سے علیحدہ رہتے ہوئے غربت اور افلاس کی زندگی گزارتے تھے اور انہی حالات میں نئی فکر اور سوچ کو جنم دیتے تھے۔
تاریخ ان دونوں پہلوؤں کی نمائندگی کرتی ہے۔تاریخ میں دیے ہوئے واقعات جن کا تعلق گزرے ہوئے ادوار سے ہوتا ہے، تلخ بھی ہیں اور خوشگوار بھی اور فرد کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ تاریخ کی تکمیل میں کن چیزوں کو شامل کیا جائے۔ کیا ان کے حکمرانوں کو جنہوں نے اپنی طاقت کی بنیاد پر فتوحات حاصل کیں، دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا اور لوگوں کو غلام بنایا۔
(جاری ہے)
فتوحات کبھی بھی پرامن نہیں ہوتی ہیں۔ یہ جنگوں کی خونریزی کے نتیجے میں ملتی ہیں جہاں ہزاروں فوجیوں کی جانیں جاتیں ہیں۔ مگر ان کا صلہ حکمرانوں کو ملتا ہے۔ فتوحات ان کی طاقت میں اور اضافہ کر دیتی ہیں۔تیرہویں صدی میں منگولوں نے جب فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تو وسط ایشیا کے شہروں کو جن میں ثمرقند اور بخارا شامل تھے ،قتل گاہیں بنا دیا، اور اپنی خونریزی کی وجہ سے لوگوں میں خوف اور دہشت پیدا کر دی۔
تاریخ میں ایسے حکمرانوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو انسانوں کے قتل عام میں خوشی اور لذت محسوس کرتے تھے۔ ایران کے قاچار خاندان کے ایک حکمران کا مشغلہ یہ تھا کہ جب وہ سرخ لباس پہن کر دربار میں آتا تھا تو اس کے سامنے میدان میں مجرموں اور قیدیوں کو لایا جا تا تھا جہاں جلاد ایک ایک کر کے ان کا سر قلم کر تے تھے۔ مقتولوں کے سر اور لاشیں اس کے لیے مسرت کا باعث تھیں۔
جب وہ سبز رنگ کا لباس پہن کر آتا تھا تو اس کے سامنے لائے ہوئے قیدیوں کو معاف کر دیا جا تا تھا۔ اپنے اس عمل کے پس منظر میں اسے اپنی ذات پر فخر تھا کہ جسے چاہے وہ قتل کروا دے اور جسے چاہے وہ معاف کروا دے۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جب وہ انڈونیشیا کے جزائر میں گیا تو وہاں ایک حکمراں سے ملنے کے لیے اس کے دربار میں جانا ہوا۔
اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ درباریوں میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر سلطان کو آداب کیا اور اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے اس نے سلطان سے کہا کہ وہ اپنا سر کاٹ کر اسکی خدمت میں پیش کرےگا۔ ساتھ ہی اس نے سلطان سے درخواست کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے خاندان کی دیکھ بھال کرے۔ ابن بطوطہ کے لیے واقعہ حیران کن تھا۔ابن بطوطہ ہندوستان میں محمد تغلق کے عہد میں آیا تھا۔
اس نے دربار میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ روز مرہ کا معمول تھا کہ جسے سزائے موت دی جاتی تھی تو فوراﹰ ہی اسے باہر لے جا کر جہاں جلاد قتل کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اس کی گردن کاٹ دی جاتی تھی۔تاریخ میں ایسے بہت سے حکمران گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے مخالفوں کو بے دردی سے قتل کروایا ۔
عثمانی سلطان محمد فاتح نے جس نے 1453 میں قسطنطینیہ فتح کیا تھا، یہ قانون بنایا تھا کہ جب کوئی نیا سلطان تخت نشین ہو تو اپنے تمام بھائیوں کو قتل کرا دے تاکہ خانہ جنگی کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ ایک زمانے تک اس پر عمل ہوتا رہا مگر نئے سلطان کے لیے تخت نشینی کے بعد بھائیوں کا قتل اس کے جشن تخت نشینی کو آلودہ کر دیتا تھا۔ اس لیے انہیں قتل کرنے کے بجائے محلوں میں قید کر دیا جا تا تھا جو قفس کہلاتے تھے۔جہاں ایک طرف قتل و غارت گری اور خونریزی تھی تو دوسری جانب وہ مقرین اور فلسفی تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی علم کے حصول میں گزاری اور حکمرانوں کے دربار سے دور رہے۔ قدیم یونان میں ہیراکلیٹس جو ایک فلسفی تھا، اس نے اور اس کے دوسرے فلسفی ساتھیوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی جائیدادیں اور دولت کو لوگوں میں تقسیم کر دیں گے۔ اور خود علم کے حصول میں اپنی زندگی وقف کر دیں گے۔
انکی دلیل یہ تھی کہ غربت اور افلاس میں ان کی دنیاوی خواہشات ختم ہو جائیں گی، اور وہ اپنی ساری توجہ نئی فکر کو پیدا کرنے پر دیں گے۔ ان کے نزدیک غربت فرد کو تمام مشکلات سے آزاد کر دیتی ہے۔ اس کے بعد اسے نہ تو کسی کی سرپرستی کی خواہش ہوتی ہے اور نہ ہی عیش و عشرت پسندیدہ ہوتی ہے۔ اس کی مثال دیو جانس کلبی کی ہے جس نے تمام دنیاوی تعلقات ختم کر دیے تھے۔دوسری مثال ایپیکورس کی ہے جو ایتھنز کے ایک باغ میں اپنے شاگردوں سمیت رہتا تھا۔ اس کا کھانا روٹی اور زیتون کا تیل ہوتا تھا۔ باقی وقت شاگردوں کے ساتھ علمی گفتگو میں گزارتا تھا۔ ZENO ایک اور فلسفی تھا جو بازار میں ایک دکان کے چھجے کے نیچے اپنے شاگردوں کو فلسفہ پڑھا تا تھا۔ اس کا فلسفہ STOIC تھا۔ رومی عہد میں SENECA مشہور STOIC فلسفی تھا جب رومی شہنشاہ نیرو نے اس سے خودکشی کے لیے کہا تو اس نے اپنے شاگردوں کو بلایا اور وہ خود کوچ پر لیٹا اور اپنے ہاتھ کی رگ کو کاٹ لیا۔
جب اس کا خون ابھی جاری تھا تو اپنے شاگردوں سے فلسفے پر گفتگو کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خون بہہ جانے سے اس کی موت واقع ہو گئی۔موجودہ عہد میں مشہور فلسفی سپینوزا نے ساری زندگی غربت میں گزاری اور فلسفے کو نئی فکر دی۔ اسی طرح سے سینٹ سیمون مفلسی کی حالت میں پانی سے روٹی کھاتا رہا اور سوشلزم کے خیالات دیتا رہا۔
المیہ یہ ہے کہ تاریخ میں وہ لوگ جنہوں نے انسانیت کو قتل کیا وہ فاتح اور ہیرو ہیں اور وہ دانشور اور مفکرین جنہوں نے دنیا کو بدلنے کے لیے نئے خیالات و افکار دیے ان کا ذکر تاریخ میں حاشیے پر ہے۔