Express News:
2025-11-19@10:06:54 GMT

مسلم لیگ (ن) کی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

برسوں بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ماضی کے مسلم لیگ (ن) کے سابق اہم رہنما چوہدری نثار علی خان سے ان کے گھر جا کر ملاقات کی۔ چوہدری نثار ، نواز شریف کابینہ کے اہم ترین، مضبوط و بااختیار وزیر کے طور پر وزیر اعظم کی کچن کابینہ کا حصہ ہوتے تھے۔ چوہدری نثار اپنے علاقے کی اہم سیاسی شخصیت اور قدآور وفاقی وزیر شمار ہوتے ہیں۔

میاں نواز شریف نے چوہدری نثارکی بات نہیں مانی تھی اور اسی وجہ سے بالاتروں کی مخالفت مول لینا پڑی تھی جس کے نتیجے میں دو تہائی اکثریت کے حامی وزیر اعظم کو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل قرار دیا گیا اور وہ سڑکوں پر آکر مظاہرے کرتے رہے اور قید میں بھی رہے۔

اس موقع پر نواز شریف اور چوہدری نثار علی کے راستے الگ ہوگئے تھے مگر بانی پی ٹی آئی کی پوری کوشش کے باوجود وہ پی ٹی آئی میں اس لیے شامل نہیں ہوئے تھے کہ اس طرح انھیں پی ٹی آئی کے جلسوں میں نواز شریف کے خلاف تقریریں سننا پڑتیں اور کرنا بھی پڑتیں۔ مسلم لیگ ن سے الگ ہوکر وہ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لیتے رہے اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اس ظرف کا مظاہرہ نہیں کیا تھا کہ وہ 2018 کے الیکشن میں اپنے سابق اہم رہنما کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا نہ کرتی جس کے نتیجے میں (ن) لیگ اور چوہدری نثار دونوں ہارے اور پی ٹی آئی کا غلام سرور خان جیتا تھا جس نے پی ٹی آئی حکومت میں وزیر ہوا بازی بن کر پی آئی اے کے پائلٹس کے بارے متنازعہ بیان دیا تھا۔

 نااہلی کے بعد نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا تھا تاہم چوہدری نثار ان کی کابینہ میں شامل نہیں ہوئے تھے، اگر چوہدری نثار کو وزیر اعظم بنایا جاتا تو نواز شریف اور بالاتروں کی دوریاں ختم ہو سکتی تھیں اور بالاتروں کو نیا وزیر اعظم لانے کا تجربہ نہ کرنا پڑتا ۔

ویسے مسلم لیگ (ن) میں اپنوں کے لیے پالیسی بھی عجیب ہے یا وہاں بھی حال بانی پی ٹی آئی والا ہے اور مختلف بھی ہے۔ (ن) لیگ کے الیکشن ہارے ہوئے پرانے (ن) لیگی غلام دستگیر کے صاحبزادے کو (ن) لیگی حکومت میں وزارت بھی دی گئی پھر خرم دستگیر کو بھارت سے جنگ کے بعد بلاول بھٹو کی زیر قیادت وفد میں شامل کرکے باہر جانے کا موقعہ دیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما سعید کرمانی، میاں جاوید لطیف، نواز شریف کی حمایت میں اپنی سینیٹر شپ عدالتی فیصلے سے گنوانے والے نہال ہاشمی، سابق وزیر اعلیٰ کے پی مہتاب عباسی، سابق گورنر سندھ زبیر عمر اور بہت سے سینئر کہاں ہیں؟ انھیں (ن) لیگ نہیں پوچھ رہی۔ کسی وجہ سے (ن) لیگ سے ناراض سابق وزرائے اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، ارباب غلام رحیم، سابق وزیر اعلیٰ و سابق گورنر بلوچستان نواب ثنااللہ رئیسانی اور جنرل عبدالقادرکیوں (ن) لیگ سے الگ ہوئے تھے۔

کیوں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں جانے پر مجبور ہوئے تھے، انھیں (ن) لیگ بھول گئی اور پوچھا تک نہیں گیا کہ انھیں کیا شکایات تھیں۔ سندھ سے (ن) لیگ چھوڑ کر پی پی میں جانے والوں کو اہمیت نہ دے کر سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا خاتمہ کرایا گیا مگر ناراض رہنماؤں کو منانے کی روایت مسلم لیگ (ن) میں ہے ہی نہیں جب کہ سیاست سے غیر متعلق ہو جانے والے سابق اسپیکر الٰہی بخش سومرو یا (ن) لیگی پالیسی سے خفا ہو جانے والے ایسے نظرانداز کیے گئے جیسے ان کی (ن) لیگ کے لیے خدمات تھی ہی نہیں۔

ایبٹ آباد جیسے (ن) لیگی گڑھ سے (ن) لیگ کی شکست پر سوچنا چاہیے تھا کہ ایسا کیوں ہوا۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) ایک صوبائی نشست بھی جیت نہ سکی تھی یہ شکست لمحہ فکریہ ہونی چاہیے تھی مگر پرواہ تک نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں (ن) لیگ خود کو پنجاب تک محدود کر چکی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کہیں بہتر ہے جس کی پنجاب میں قابل ذکر عوامی نمایندگی ہے۔ اپنے پرانے رہنماؤں کو نظرانداز رکھنا بھی (ن) لیگی ہمدردوں کی مایوسی کا سبب ہے مگر (ن) لیگی قیادت کو اپنوں کے ساتھ اس سلوک کی کوئی فکر نہیں جس کی وجہ سے (ن) لیگ پنجاب تک محدود ہوگئی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے نتیجے میں چوہدری نثار نواز شریف پی ٹی آئی مسلم لیگ ہوئے تھے

پڑھیں:

جنات، سیاست اور ریاست

معروف اور موقر مغربی جریدے ’اکانومسٹ‘ کی حالیہ رپورٹ نے پاکستانی سیاست کے اس پراسرار گوشے کو پھر کھول کر سامنے رکھ دیا ہے جہاں حکمرانی کا تعلق مشاورت، قانون یا ریاستی نظام سے کم اور تعویزوں، کالے بکروں، صدقوں، چِلّوں، کالے جادو، بھوت پریت، جنات اور گھڑے میں پرچیاں ڈال کر فیصلے کرنے جیسے طریقوں سے زیادہ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں بڑے فیصلوں کی بنیاد وہ ’روحانی اشارے‘ تھے جو بشریٰ بی بی تک کبھی کسی مراقبے، کبھی کسی چِلّے اور کبھی کسی غیر مرئی قوت کی طرف سے پہنچائے جاتے تھے۔

پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کی تقرری ہو یا اہم تعیناتیاں، بیوروکریسی کی تبدیلیاں ہوں یا سیاسی حکمتِ عملی ہر جگہ یہ تاثر دیا گیا کہ اہم فیصلوں کے پیچھے وہ سرگوشیاں تھیں جن کا تعلق دنیا سے زیادہ کسی اَن دیکھی طاقت سے تھا۔

کبھی کالے جادو سے دشمنوں کو ’بھسم‘ کر دینے کا ذکر، کبھی صدقے کے لیے کالے بکرے کا انتظام، کبھی چِلّوں کی محفل میں سنی گئی ہدایات، اور کبھی گھڑے میں پرچیاں ڈال کر طے کیے گئے نام۔ یوں لگتا تھا جیسے ریاست کے فیصلے دنیاوی عقل سے زیادہ غیر مرئی پیغام رسانی پر چل رہے ہوں۔

لیکن ان تمام حیرت انگیز باتوں کے باوجود اصل سوال وہی ہے: کیا عمران خان اس سب سے لاعلم تھے؟ کیا وہ واقعی اس پورے سلسلے کے محض تماشائی تھے؟ یا اس پورے ماحول کو وہ خود اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے؟

عمران خان کی سیاسی شخصیت ہمیشہ سے ایسی رہی ہے کہ وہ اپنے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی ہی حکومت میں تعویز، چِلّوں، مراقبوں اور ’غیبی مشوروں‘ کے بڑھتے ہوئے اثر سے بے خبر رہے ہوں گے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اندر کوئی بھی سرگرمی اس وقت تک وزن نہیں رکھتی جب تک حکمران خود اسے اہمیت نہ دے۔

اگر یہ سب کچھ بشریٰ بی بی کے اردگرد ممکن ہو رہا تھا، تو عمران خان کی خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ فائدہ انہی کو پہنچ رہا تھا۔

مثلاً عثمان بزدار کی بطورِ وزیراعلیٰ تقرری بہت عرصے تک ایک سیاسی معمہ رہی۔ اس فیصلے کو جب روحانی مشوروں یا جنات کے اشاروں سے جوڑا گیا تو گویا ایک ایسا جواز مہیا کر دیا گیا جس سے عمران خان کی براہِ راست ذمہ داری کم دکھائی جا سکے۔ لیکن حقیقت برعکس ہے:

کمزور وزیراعلیٰ ہمیشہ طاقتور وزیراعظم کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر بزدار کی تقرری کسی مراقبے میں ملنے والے اشارے یا گھڑے کی پرچی سے ’طے‘ ہوئی، تو بھی آخری فیصلہ عمران خان نے ہی کیا اور وہی اس سے سیاسی طور پر سب سے زیادہ مستفید ہوئے۔

اسی طرح انتظامی تقرریوں اور تبدیلیوں میں اگر تعویز گنڈے، صدقے یا چِلّوں کی روشنی میں فیصلے کیے گئے، تو یہ سب اسی صورت میں اہمیت رکھتے ہیں جب حکمران انہیں روکتا نہ ہو۔ اگر کسی چِلّے میں سنی گئی ہدایت کے مطابق کوئی افسر تبدیل ہوتا تھا، اگر کسی غیر مرئی قوت کے ’اشارے‘ پر کوئی فیصلہ ہوتا تھا، تو عمران خان اس سب سے غافل نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اگر غافل تھے تو یہ مزید سنگین ہے، مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ہر بات سے آگاہ تھے اور اسے اپنے فائدے کے لیے جاری رہنے دیتے تھے۔

یہ بات بھی زیرِ غور رہنی چاہیے کہ اگر ایجنسیاں واقعی بشریٰ بی بی کے ذریعے کپتان کو پیغام پہنچاتی تھیں، تو یہ سلسلہ عمران خان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیراعظم کی شریکِ حیات تک حساس نوعیت کی باتیں پہنچ رہی ہوں اور وزیراعظم لاعلم رہیں۔ اگر وہ اسے برداشت کرتے رہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ یہ نظام اُن کے اقتدار کو سہارا دیتا تھا۔ یوں بشریٰ بی بی صرف ایک ذریعہ تھیں، اصل فائدہ عمران خان کو ہی ملتا تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پوری کہانی میں کوئی بھی مکمل طور پر پاک دامن نہیں تھا۔ نہ تعویز کرنے والے اس سب کچھ میں بے قصور تھے، نہ وہ حلقے جو ’روحانی مشورے‘ پہنچاتے تھے، اور نہ وہ حکمران جو ان اشاروں کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا۔ سب اپنے اپنے مقام پر شریکِ جرم تھے۔ جنات، کالے بکرے، بھوت پریت، چِلّے اور گھڑے کی پرچیاں چل رہی تھیں، مگر ان سرگرمیوں کے سیاسی نتائج ہمیشہ عمران خان کے ہاتھ میں آ کر ٹھہرتے تھے۔

بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس پوری ناکامی کا بوجھ کسی ایک کردار پر ڈال دیا جائے، مگر تصویر واضح ہے:

نہ کوئی یکسر معصوم تھا نہ کوئی یکسر ناتجربہ کار۔ یہ ایک مشترکہ بندوبست تھا جس میں ہر کردار اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ غیر مرئی قوتوں کا ذکر محض وہ پردہ تھا جو سیاسی اختیار کو لپیٹنے کے لیے اوڑھا گیا تھا۔

اکانومسٹ کی رپورٹ نے جو نقشہ کھینچا ہے، وہ صرف ایک شخص یا ایک کردار کی کہانی نہیں۔ یہ پوری حکومتی سوچ، پورے سیاسی انداز، اور پورے ریاستی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ اور اس نقشے کے وسط میں فیصلہ ساز وہی تھا جس کے دستخط ہر کاغذ پر موجود تھے: عمران خان۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب میں جانی نقصانات سے بچاؤ ہماری سیاست کا محور ہونا چاہیے: مصدق ملک
  • ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا خصوصی دورہ
  • عدالت کے حکم کے باوجود مجھے عمرے پر نہیں جانے دیا گیا‘ شیخ رشید
  • عدالت کے حکم کے باوجود مجھے عمرے پر نہیں جانے دیا گیا: شیخ رشید
  • سندھ کی تقسیم مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،سندھ حکومت
  • جسٹس ثاقب نثار پی ٹی آئی اور عمران خان کے پیروکار تھے،شرجیل میمن
  • سندھ کی تقسیم مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، شرجیل میمن
  • افسوس ہوا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے استعفی دیا، شرجیل میمن
  • جنات، سیاست اور ریاست
  • ملکی استحکام کے لئے مزید ترامیم کرنا پڑیں تو بھی کریں گے، طلال چوہدری