Express News:
2025-07-05@03:03:30 GMT

غزہ کے اسرائیل نواز غنڈے

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

شاید آپ کو یاد ہو کہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل غزہ شہر اور خان یونس میں اچانک حماس مخالف جلوس نکلے۔ان میں شامل چند سو افراد غزہ کے موجودہ مصائب کا ذمے دار حماس کو قرار دے رہے تھے۔ان جلوسوں میں متعدد مقامی مسلح باشندے بھی تھے۔ جب کہ اسرائیلی فوجی دستے کچھ ہی فاصلے سے یہ خلافِ معمول تماشا اطمینان سے دیکھ رہے تھے۔

اس ’’ تماشے ‘‘ کے چند روز بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں ان اخباری اطلاعات کی تصدیق کی گئی کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں حماس مخالف گروہوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔

 نیتن یاہو نے اپنے ایک وڈیو بیان میں کہا کہ ’’ ہم سیکیورٹی حکام سے مشاورت کے بعد غزہ میں حماس مخالف گروہوں کو اسلحہ دے رہے ہیں۔اس میں غلط کیا ہے ؟ بلکہ اس حکمتِ عملی سے اسرائیلی فوجیوں کی جانیں بچانے میں مدد مل رہی ہے۔مگر اس حکمتِ عملی کی منفی تشہیر کرنے والے دراصل حماس کی پروپیگنڈہ مدد کر رہے ہیں ‘‘۔

نیتن یاہو کا اشارہ سابق وزیر ِدفاع ایوگیدور لبرمین کی جانب تھا جن کا دعویٰ ہے کہ رفاہ شہر میں ’’ پاپولر فورس ملیشیا ‘‘ نامی ایک جرائم پیشہ گروہ جس کی سربراہی یاسر ابو شباب نامی ایک پینتیس سالہ شخص کر رہا ہے۔اسے اسرائیلی ادارے اسلحہ دے رہے ہیں۔اس گروہ میں سو کے لگ بھگ مسلح لوگ ہیں۔

بقول لبرمین شباب گروپ جنگ سے قبل نہ صرف سرحد پار مصر سے غزہ میں منشیات ، اسلحہ اور اشیائے خورونوش اسمگل کرتا رہا ہے بلکہ جنگ کے بعد امدادی ٹرکوں اور خوراک کے گوداموں کی لوٹ مار میں بھی ملوث ہے۔یہ کھلا راز اسرائیلی اداروں سے بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں تک ہر متعلقہ فریق کے علم میں ہے۔ اسرائیلی فوج کے کنٹرول والے علاقوں میں ابو شباب اور اس کے گروہ کی سرگرمیاں سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں۔

ایک وڈیو میں یاسر ابو شباب رفاہ کے کچھ لٹے پٹے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ ’’ آپ اپنے گھروں میں واپس آ جائیں۔ہم آپ کو تحفظ بھی دیں گے اور ادویات و خوراک بھی پہنچائیں گے ‘‘۔

ان وڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد یاسر ابو شباب کے ترابین قبیلے اور کنبے نے اس سے اعلانِ لاتعلقی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی خفیہ اداروں کے ساتھ یاسر کے تعاون کی خبریں سننے کے بعد ہمارا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔نہ ہی اس کے انجام کی پرواہ ہے۔اس کی ہلاکت کی صورت میں ہم کسی پر خوں بہا کا دعویٰ نہیں کریں گے۔

حماس نے یاسر ابو شباب کو دس دن کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ یا تو حماس کی قائم کردہ عدالت میں پیش ہو جائے ورنہ اپنی سلامتی کا خود زمہ دار ہوگا۔

مقبوضہ فلسطین میں انسانی امداد سے متعلق اقوامِ متحدہ کے رابطہ کار جوناتھن وٹھال کا کہنا ہے کہ غزہ کے جرائم پیشہ گروہ اسرائیلی فوج کے زیرِ انتظام سرحدی کراسنگ کارم شلوم سے گذرنے والے امدادی ٹرکوں کے اغوا اور لوٹ مار میں ملوث ہیں اور وہ یہ امداد غزہ کے مصیبت زدگان کو من مانی قیمت پر فراہم کرتے ہیں۔حالانکہ یہ امداد مستحقین کے لیے مفت ہے۔یہ واردات گزشتہ ایک برس سے ہو رہی ہے۔

اسرائیل حماس مخالف گروہوں کی کیوں مدد کر رہا ہے ؟ کچھ اسرائیلی عسکری ماہرین کے بقول حکمتِ عملی یہ ہے کہ یا تو اسرائیل پورے غزہ کو براہِ راست اپنے فوجی انتظام میں رکھے یا پھر حماس کو ختم کر کے مشترکہ انتظام مصر اور معاہدہِ براہیمی میں شامل متحدہ عرب امارات کو سونپ دے یا پھر بتدریج محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دے اور اتھارٹی اسرائیل نواز مقامی گروہوں کی مدد سے نظام چلائے ۔کیونکہ اسرائیل کو براہ راست طویل المیعاد فوجی قبضہ عسکری اور سفارتی اعتبار سے مہنگا پڑ سکتا ہے۔

 فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کے عام لوگوں کی اکثریت ناپسند کرتی ہے لہٰذا اسرائیل کی کوشش ہے کہ متوازی مقامی گروہوں کو اتنا منظم و مسلح کردیا جائے کہ وہ حماس کو بھی غزہ سے دور رکھیں اور اسرائیلی کی مٹھی میں بھی رہیں۔

ان مبصرین کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے بیشتر علاقے سے حماس کا انتظامی کنٹرول ختم کر دیا ہے۔اس خلا کو جرائم پیشہ گروہ پر کر رہے ہیں۔ ماضی میں حماس ان گروہوں سے سختی سے نمٹتی رہی ہے اور بہت سے مخبروں کو ہلاک بھی کیا گیا ہے۔ تاہم اب ان گروہوں کو خود کو نمایاں اور موثر ہونے کا موقع نظر آ رہا ہے۔

حماس مخالف گروہوں میں رفاہ کے ترابین قبیلے اور ابو رشا خاندان کے علاوہ غزہ شہر اور آس پاس دغماش خاندان نمایاں ہے۔دغماش خاندان کے سربراہ کو اسرائیل سے روابط کے الزام میں گزشتہ برس ہلاک کر دیا گیا۔غزہ شہر میں الکشق خاندان کی بھی حماس سے لگتی ہے اور اسرائیلیوں سے بھی اس کے جزوقتی روابط بتائے جاتے ہیں۔خان یونس کے علاقے میں ابو طیر برادری کی وجہ شہرت اسمگلنگ ہے۔وہاں کا شاوش خاندان بھی دیگر گروہوں کے ساتھ مل کے دھندہ کرتا ہے۔جب کہ غزہ شہر کے مضافات میں برکا خاندان کا شمار فلسطینی اتھارٹی کے حامیوں میں ہوتا ہے لہٰذا حماس سے اس کی بھی نہیں بنتی۔

اسرائیل کی طویل المیعاد غزہ حکمتِ عملی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے سبب ( جس کی اسے کبھی بھی پرواہ نہیں رہی ) غزہ سے فوجی قبضہ ڈھیلا کرنا بھی پڑ جائے اور حماس دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کی کوشش کرے تو خانہ جنگی کی کیفیت برقرار رہے۔اسرائیل کی یہ حکمتِ عملی نئی نہیں ہے۔

جب پینتیس برس پہلے تک اسے یاسرعرفات کی تنظیم الفتح سب سے بڑی دھشت گرد تنظیم نظر آتی تھی تو اس نے غزہ میں حماس کے قدم جمنے سے کوئی تعرض نہیں کیا تاکہ فلسطینی آپس میں ہی نظریاتی اعتبار سے گتھم گتھا رہیں۔جب اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کی شرط پر انیس سو چورانوے میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور اتھارٹی کو عارضی طور پر دو ریاستی حل کا لالی پاپ تھما دیا گیا تو اسرائیل کو حماس کی شکل میں سب سے بڑا حریف دکھائی دیا جس نے فلسطینی اتھارٹی کے برعکس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔

اب حماس کو غزہ سے باہر رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے مقامی حریفوں کے سر پر ہاتھ رکھا جائے اور ان میں سے بھی اگر کوئی آگے چل کے ذرا سا بھی سر اٹھائے تو کچل دیا جائے۔یہ وہ مجرب خاندانی نسخہ ہے جو سامراجی حکیم صدیوں سے برتتے آ رہے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے  bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی یاسر ابو شباب گروہوں کو فلسطینی ا رہے ہیں حماس کو رہا ہے غزہ کے رہی ہے کے بعد

پڑھیں:

عرب ممالک کی مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی مطالبات کی مذمت

دوحہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جولائی ۔2025 )عرب ممالک نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبات کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے عرب نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو 14 اسرائیلی وزرا اور کنیسٹ کے اسپیکر عامر اوحانا کے دستخطوں کے ساتھ ارسال کردہ خط میں مطالبہ کیا گیا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کو فوری طور پر اسرائیل میں ضم کر دیا جائے.

(جاری ہے)

اسرائیلی وزیر انصاف یاریو لیوین نے بھی اسی مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی خودمختاری نافذ کریںفلسطینی اتھارٹی نے ایک بیان میں ان مطالبات کو خطے کے استحکام کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے اردن کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حکومت کے اراکین کی جانب سے دیے گئے ان بیانات کو انتہائی خطرناک اور شدید قابل مذمت قرار دیا.

سعودی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر جاری بیان میں فلسطین کے مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبے کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا سعودی وزارت خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی حکام کو عالمی فیصلوں کے مطابق جواب دہ بنایا جانا چاہیے.

مصری وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی اور فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے کو مضبوط کرنے کی کوشش قرار دیا دوسری جانب امریکی جریدے”نیویارک ٹائمز“نے ذرائع کے حوالے سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے ممکنہ معاہدے کی تفصیلات شائع کی ہیں اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع اور حماس سے قریبی تعلق رکھنے والے فلسطینی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس معاہدے میں دس اسرائیلی زندہ یرغمالیوں کی رہائی اور اٹھارہ زخمیوں کی منتقلی شامل ہے جن کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا.

ان یرغمالیوں کی رہائی اور لاشوں کی منتقلی پانچ مراحل میں مکمل کی جائے گی جو ساٹھ دن کی مجوزہ جنگ بندی کے دوران انجام پائے گی اسرائیلی ذریعے کے مطابق اس منصوبے کے تحت حماس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اس بار یرغمالیوں کی رہائی کے وقت پہلے کی طرح کسی قسم کی ”رہائی کی تقاریب“ منعقد نہ کرے جیسا کہ اس سال کے اوائل میں ایک عارضی جنگ بندی کے دوران ہوا تھا حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اسے جنگ بندی سے متعلق نئی تجاویز موصول ہوئی ہیں جو ثالثوں کے ذریعے پیش کی گئی ہیں اور اس کا مقصد ایسا معاہدہ حاصل کرنا ہے جو اس تصادم کو ختم کرے اور اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کی ضمانت دے.

حماس نے اپنے سرکاری ٹیلیگرام صفحے پر جاری ایک بیان میں کہاکہ ثالث تمام فریقوں کے درمیان خلا کو پاٹنے اور ایک فریم ورک معاہدہ حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کے آغاز کی خاطر بھرپور کوششیں کر رہے ہیں بیان میں کہا گیاکہ ہم اس معاملے کو اعلیٰ درجے کی ذمہ داری کے ساتھ لے رہے ہیں اور قومی مشاورت کر رہے ہیں تاکہ ثالثوں کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز پر غور کیا جا سکے اور ایسا معاہدہ حاصل کیا جا سکے جو جارحیت کے خاتمے، انخلا کی تکمیل، اور ہمارے عوام کے لیے فوری امداد کی ضمانت دے، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں.

اسی سلسلے میں امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ میں عارضی جنگ بندی کے لیے آمادہ نظر آ رہے ہیںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات نے کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کی شرائط سے اتفاق کر لیا ہے، غزہ کی پٹی میں امیدیں دوبارہ زندہ کر دی ہیں. قبل ازیں سوشل میڈیا پر جاری ایک پیغام میںصدر ٹرمپ نے کہا کہ میرے نمائندوں نے آج اسرائیلیوں کے ساتھ غزہ کے حوالے سے ایک طویل اور تعمیری ملاقات کی ہے انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کے لیے ضروری شرائط سے اتفاق کر لیا ہے اور اس مدت کے دوران ہم تمام فریقوں کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے کے لیے کام کریں گے.

انہوں نے کہاکہ قطری اور مصری، جنھوں نے امن کے لیے سخت محنت کی ہے اس حتمی تجویز کو پیش کریں گے ٹرمپ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ میں مشرقِ وسطیٰ کے مفاد میں یہ امید کرتا ہوں کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گی کیونکہ صورت حال بہتر ہونے والی نہیں بلکہ مزید خراب ہو جائے گی.

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں جنگ بندی پر حماس کا جواب 24 گھنٹے میں آجائے گا؛ ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیلی میڈیا نے جنگ بندی معاہدے کی مزید تفصیلات جاری کر دیں
  • حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے کس بات کی ضمانت مانگ رہی ہے؟
  • عرب ممالک کی مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی مطالبات کی مذمت
  • صدر ٹرمپ کی پیش کی گئی آخری جنگ بندی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں، حماس
  • اسرائیل 60 دن کی جنگ بندی کی شرائط ماننے پر آمادہ ہو گیا
  • امریکہ کا حماس سے جنگ بندی منصوبہ تسلیم کرنے پر زور
  • غزہ میں جنگ بندی کی راہ ہموار، اسرائیل جنگ بندی کیلئے مان گیا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی پر آمادہ، حماس معاہدہ قبول کرے: ٹرمپ