Jasarat News:
2025-10-04@20:28:38 GMT

اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آج فلسطین کے اندر یہودیوں نے ظلم و درندگی کے پہاڑ توڑ دیے ہیں اور اس پر وہ بالکل بھی نادم نہیں ہیں۔ اگر یہودیت کے مذہبی عقاید کو دیکھا جائے تو وہ یہ خواب سجائے بیٹھے ہیں کہ دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا علاقہ یہودیت کی میراث ہے۔ اپنے اس بیانیے کا وہ علی الاعلان پرچار اسرائیل کے پرچم میں کندہ دو نیلی لکیروں سے اظہار کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ نیلا رنگ پانی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اُن میں دریائے نیل تک مصر، پورا اردن، پورا شام، پورا لبنان، عراق کا بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ بقول ان کے مذہبی پیشوائوں کے ان کی مقدس کتابوں میں مذکور ہے کہ اس وجہ سے اس دن خداوند نے ایک وعدہ کر کے ابرام سے ایک معاہدہ کر لیا۔ اور خداوند نے اس سے کہا کہ میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا۔ میں انکو دریائے مصر سے دریائے فرات تک کے علاقے کو دوں گا۔
ایک طرف تو اسرائیل میں متشدد یہودی گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف ہندوتوا کے پرچار کرنے والے انڈیا میں موجود نئی پارلیمنٹ کے اندر ایک تصویر سجائے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے اندر بھی گریٹر اسرائیل کا نقشہ یہودیوں نے سجایا ہوا ہے اور انڈیا کی نئی پارلیمنٹ بھی اسی طرح کے ایک نئے ذہنی فطور میں مبتلا ہے۔ اکھنڈ بھارت میں ہمارا شریر ہمسایہ ایک دیوانے کا خواب ذہن کے دریچوں میں سجائے ہوئے ہے۔ انڈین پارلیمنٹ کی عمارت میں دیوار پر لگا نقشہ جس میں پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا اور نیپال کو انڈیا میں ضم کر کے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح انڈیا کو مغرب میں افغانستان، مالدیپ اور بھوٹان سمیت قریبی ممالک میں پھیلا دکھایا گیا ہے۔ ایک طرف گریٹر اسرائیل تو دوسری طرف گریٹر انڈیا۔ نریندر مودی جسے گجرات کا قصاب بھی کہا جاتا ہے اس کی قیادت میں 9.

7 ارب انڈین روپوں کی لاگت سے تیار کی گئی اسعمارت میں ان لوگوں کے لیے ایک سوالیہ نشان موجود ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اب ہمیں امن کی آشا کو فروغ دینا ہو گا ہمیں پڑوسیوں کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ رہنا ہو گا اس میں ہماری بقا ہے۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب اسرائیل کے وزیر اعظم نفتالی بینینٹ یہ کہتا ہے کہ ہم انڈیا سے پیار کرتے ہیں اور انڈیا ہمارا سب سے بڑا دوست ہے۔ آپ یہودو مشرکین کا گٹھ جوڑ دیکھیے اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل نے پناہ گزین کیمپس کے اوپر جو بمباری کی ان میں جو ہم استعمال ہوئے ان پر میڈ اِن انڈیا کی تحریر لکھی پائی گئی۔ یہ رپورٹ الجزیرہ انگلش میں ایک صحافی فیڈریکا ماری کے نام سے شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق ایک جہاز Danica Marianne انڈیا کی بندر گاہ سے 27 ٹن دھماکا خیز مواد لے کے اسرائیل کی طرف گامزن ہوا، جبکہ ایک اور جہاز جس کا مبینہ نام Borkum بتایا گیا، انڈیا سے اسرائیل کی طرف 20 من راکٹ انجن، 12.5 ٹن بارودی راکٹ 1500 کلو آتش گیر مواد اور مختلف اقسام کے بارودی مواد لے کر اسرائیل کی طرف گامزن ہوا اور یہ رپورٹ جون 2024 کو شائع کی گئی۔
اب ذرا اندازہ کیجیے کہ ہندو بنیے نے ایک فالس فلیگ پہل گام حملہ کو جواز بنا کر پاکستان میں جو ڈرون بھیجے وہ بھی میڈ اِن اسرائیل تھے۔ ان ڈرون کا نام ہاروپ اور ہیرون مارک 2 تھا۔ پاکستان نے تقریباً 80 کے قریب اسرائیلی ساختہ ڈرون گرائے جو انڈیا نے پاکستان میں بھیجے۔ گجرات کا قصاب نریندر مودی وہ پہلا ہندوستانی وزیر اعظم ہے جس نے اسرائیل کا باضابطہ دورہ کیا، انڈیا کے روابط اسرائیل سے پہلے بھی تھے لیکن 1992
میں یہ مزید مضبوط ہونا شروع ہو گئے۔ اس سے پہلے ہندو بنیے پر عرب ممالک کا ایک پریشر تھا کہ ہندوستانیوں کی ایک کثیر تعداد عرب ممالک میں نوکریوں سے وابستہ تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ ڈر ختم ہونا شروع ہو گیا۔ گزشتہ دنوں جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے کھل کر انڈیا کی حمایت کی۔ اندازہ لگائیں کہ پہل گام میں 22 اپریل کو ہونے والے فالس فلیگ حملے کے 2 دن بعد نیتن یاہو گجرات کے قصاب کو فون کر کے کہتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنے چاہیے۔ بعض مبصرین کے مطابق انڈیا کا پاکستان پر حملہ بین الاقوامی برادری کی توجہ فلسطین سے ہٹانے کے لیے کیا گیا اور یہ اسرائیل اور انڈیا کی مشترکہ منصوبہ بندی تھی۔ کیونکہ عالمی سطح پر اسرائیل کی سفاکیت اور درندگی کے خلاف آوازیں شدت اختیار کر چکی تھیں۔ اور اسرائیل کے اندر سے بھی نیتن یاہو کے خلاف شدید قسم کا رد عمل ظاہر کیا جارہا تھا اور اسرائیل کی منصوبہ بندی میں یہ چیز شامل تھی کہ جب دو ایٹمی ریاستیں آپس میں ٹکرائیں گی تو دُنیا اُدھر متوجہ ہو جائے گی اور اسرائیل پہلے سے زیادہ شد و دمد کے ساتھ غزہ کے معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسپتالوں پہ بمباری کر کے اپنے ناجائز ریاست کی راہیں ہموار کر لے گا۔ لیکن مشیت ایزدی میں شاید کچھ اور ہی لکھا تھا۔ انڈیا کا یہ حملہ پاکستان کی بہادر افواج نے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھے جانا والا آپریشن بنیان مرصوص کر کے دشمن کے چھکے چھڑا دیے اور ایک عظیم فتح حاصل کی جو انڈیا کی نسلیں تک یاد رکھیں گی۔
آج 26 سے 36 ہزار ہندوستانی اسرائیل میں جاری جنگ کے باوجود اسرائیل میں موجود ہیں۔ مالی سال 2022 سے 23 میں انڈیا اور اسرائیل کی تجارت کا حجم 8.45 ارب امریکی ڈالر تھا۔ اسی طرح 2023 اور 24 میں تجارت کا یہ حجم 63.53 ارب امریکی ڈالر رہا جس میں دفاعی ساز و سامان شامل نہیں ہے۔
اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے کہا تھا کہ عالمی صہیونی تنظیم کو پاکستان جیسے خطر ناک ملک کو کسی صورت بھولنا نہیں چاہیے۔ پاکستان یہودیوں کا پہلا نشانہ ہونا چاہے کیونکہ یہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور عربوں سے محبت۔ اور ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کے دلوں میں پاکستانیوں کے لیے شدید نفرت بھری ہے۔ لہٰذا ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور پاکستان جیسے ملک کو ختم کرنے کے لیے ہندوستان کو بیس یعنی بنیاد بنانا چاہیے۔ (جیوش کرونیکل (1967)
قارئین یہود و مشرکین کی اسلام دشمنی اور موجودہ دور میں پاکستان دشمنی پر صفحات بھرے جاسکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک واحد نیوکلیئر پاور ہے جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کی افواج کا دُنیائے عالم میں ڈنکا بجتا ہے۔ آج دشمنان اسلام و دشمنان پاکستان بالخصوص پاکستان پر بری نظریں جمائیں ہوئے ہیں۔ اس کی واضح جھلک پہل گام کا ڈراما رچا کر پاکستان پر حملہ کرنا تھا اور جب تک دشمن کو ہم نے جواب نہیں دیا اور دشمن ہم پر حملہ کر تا رہا تو ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم نوا فرماتے رہے کہ ہم اس معاملہ میں مداخلت نہیں کریں گے یہ دونوں ممالک کا اندرونی مسئلہ ہے۔ لیکن جو نہی پاکستان نے کاری ضرب لگائی تو انہیں ہوش آیا کہ جنگ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ ازل سے ہی مسلمان عددی لحاظ سے اور جنگی ساز و سامان کے لحاظ سے غیر مسلموں کے مقابلے میں کمتر رہے۔ لیکن بارہا ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے ایک قلیل تعداد کثیر تعداد پہ بھاری رہی کیونکہ جب بات مادر وطن کے دفاع پہ آتی ہو تو بچہ، بوڑھا اور جو ان ایک ہی صف میں کھڑے ملتے ہیں۔ اور چاہے مشرک ہوں یا یہودی ان کے خلاف صف آرا و کمر بستہ رہتے ہیں۔
بقول علامہ اقبال
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گریٹر اسرائیل اور اسرائیل اسرائیل کے اسرائیل کی پاکستان پر انڈیا کی کے اندر پر حملہ اور اس کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مودی کی ہٹ دھرمی اور انا نے خطہ میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے ۔جنگ میں شکست فاش ہوئی جو کہ مودی نے مسلط کی تھی۔اگر جنگ زیادہ طویل ہوتی تو بہت زیادہ تباہی اور انسانی ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔اس وقت جنگ بندی میں ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا۔بھارت نے خود جنگ بندی پر سکون کا سانس لیا کیونکہ بہت بری طرح بھارت کی فضائیہ رافیل طیارے پاکستان ائیر فورس نے تباہ کر دیے ۔پاکستانی افواج مسلسل بھارت کی حدود میں پیشرفت کر رہی تھی۔مودی کے ہتھیار ڈالنے پر بھارت کی اپوزیشن اور عوام نے اظہار برہمی اور ناراضی کا اظہار کیا۔
ٹرمپ اور مودی کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ بظاہر پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والا بحران بنا۔ مئی میں کشمیر میں ہونے والے حملوں اور جھڑپوں نے خطے کو ایک بار پھر خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر خود کو ثالث ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اعلان کیا کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ۔ یہ وہ اعلان تھا جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا اور کئی حلقوں نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق قرار دیا۔ مگر یہی معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مودی حکومت نے اس پر سخت ردعمل دیا اور دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں تناؤ کی پہلی بڑی دراڑ یہیں سے پیدا ہوئی۔پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا سفیر قرار دینے اور نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی مہم نے مودی کو مزید مشتعل کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ صورت حال اس وجہ سے زیادہ پریشان کن تھی کہ عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن بہتر دکھائی دینے لگی تھی، جبکہ بھارت یہ تاثر دینے میں ناکام رہا کہ وہ ہی خطے کا بڑا اور فیصلہ کن کردار ہے ۔ ٹرمپ نے اس دوران پاکستان کے ساتھ توانائی، کرپٹو کرنسی اور معدنیات کے شعبوں میں بڑے معاہدے کیے ۔ یہ معاہدے نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی لحاظ سے اہم تھے بلکہ بھارت کے لیے یہ ایک واضح پیغام بھی تھے کہ امریکا اب خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ نئے باب کا آغاز کر رہا ہے ۔
اسی پس منظر میں ٹرمپ نے مودی سے اپنی نوبیل امن انعام کی مہم میں حمایت طلب کی۔ مگر مودی نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار صرف انکار نہیں تھا بلکہ ٹرمپ کی انا کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ ٹرمپ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر دیے ۔ اگست میں امریکی صدر نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، جس نے بھارتی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اقدام واضح کرتا تھا کہ ٹرمپ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے عالمی تجارتی نظام کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
مودی نے اس صورتحال کا جواب عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دیا۔ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر سات سال بعد بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی رابطہ کیا۔ یہ سفارتی سرگرمیاں دراصل امریکا کو یہ پیغام دینے کے لیے تھیں کہ بھارت کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرے گا اور اپنی خارجہ پالیسی کو کثیر جہتی رکھے گا۔ تاہم اس سب کے باوجود مودی نے چین کے فوجی پریڈ میں شریک نہ ہو کر یہ باور کرا دیا کہ بھارت اور چین کے تعلقات میں بنیادی بداعتمادی بدستور موجود ہے اور یہ قریبی تعلقات کسی بھی وقت محدود ہو سکتے ہیں۔ٹائم میگزین کے کالم نگار کے مطابق ٹرمپ اور مودی کے درمیان اصل تنازع روس نہیں بلکہ کشمیر میں ہونے والی جھڑپیں تھیں۔ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش اور اعلان کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ، بھارت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ پاکستان نے ٹرمپ کے اس کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں نوبیل امن انعام کے لیے مستحق قرار دینے کی فضا بھی بنائی۔ یہ وہ نکتہ تھا جس نے مودی کو سب سے زیادہ ناراض کیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ معاہدے اور مودی سے نوبیل مہم کی حمایت کی فرمائش نے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔
امریکا کے 50فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ گیا۔ ایک طرف مقامی صنعت کار اور تاجر برادری پریشان تھی، تو دوسری طرف بھارت کی عالمی سطح پر کمزور ہوتی پوزیشن نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ نئی راہیں تلاش کریں۔ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش اسی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ لیکن بھارت کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ مکمل طور پر امریکا سے تعلقات توڑ لے ، کیونکہ دفاعی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدان میں امریکا اب بھی ایک بڑی طاقت ہے ۔یہ ساری صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ اور مودی کی لڑائی ذاتی انا اور عالمی سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے ثالثی کا کریڈٹ لے کر خود کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کی، پاکستان نے اس کردار کو تسلیم کر کے ان کے نوبیل انعام کے امکانات کو بڑھایا، لیکن بھارت نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ پھر معاہدے ، نوبیل مہم کی حمایت کا انکار، بھاری ٹیرف اور چین و روس کی طرف مودی کا جھکاؤ، یہ سب عوامل ایک دوسرے سے جڑ کر امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ایسی دراڑ لے آئے جس نے عالمی سیاست کو متاثر کیا۔
اب جبکہ کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا اور بھارت تعلقات میں دراڑ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات دوبارہ اعتماد کی سطح پر بحال ہو سکیں گے ؟ خطے کے امن کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاک بھارت تعلقات میں کوئی بہتری آ سکتی ہے ؟ کیونکہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، ٹرمپ یا کوئی اور رہنما ثالثی کے دعوے کرتے رہیں، امن محض ایک خواب رہے گا۔ امریکا، چین اور روس اپنی اپنی بساط پر کھیلتے رہیں گے ، مگر اصل بوجھ پاکستان اور بھارت پر ہے کہ وہ اپنے عوام کے مستقبل کو جنگ کی نذر کرتے ہیں یا امن کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائیں اور اپنی توانائیاں جنگ کی تیاری کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کو بھی چاہیے کہ وہ ثالثی کو ذاتی مفاد کے بجائے حقیقی امن کے لیے استعمال کرے ۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ٹرمپ اور مودی جیسے رہنماؤں کی سیاست خطے پر منفی اثر ڈالنے سے رُک سکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل اور امریکہ گریٹر اسرائیل کے لئے عراق میں انتشار چاہتے ہیں، امام جمعہ بغداد
  • اگر بھارت نے نئی جارحیت کی کوشش کی تو پاکستان کا جواب سخت ہوگا، آئی ایس پی آر
  • امریکی ٹیرف: انڈیا واٹس ایپ اور مائیکروسافٹ کے متبادل دیسی ایپس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • پاک سعودی معاہدے میں وسعت کا مطالبہ
  • اسرائیل میں صیہونیت اور بھارت میں آر ایس ایس دونوں جڑواں بھائی ہیں، پنارائی وجین
  • فلسطین کو محدود اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ قبول نہیں کیا جا سکتا، ا فضل الرحمن
  • مسلمان حکمرانوں کو امریکی چنگل سے نکل کر عملی اقدامات سے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو بزور قوت روکنا ہوگا، جے یو آئی 
  • ایس 400