ایئرانڈیا کے طیارے کو حادثہ کیوں پیش آیا؟ تحقیقات میں اہم پیشرفت
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
ایئر انڈیا کے بدقسمت طیارے AI 171 کے حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے جاری تحقیقات میں ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ایئر انڈیا کے تجربہ کار پائلٹس نے طیارے کی پرواز کے وقت موجود تکنیکی و فنی حالات کو ایک فلائٹ سمیولیٹر میں دوبارہ تخلیق کیا تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنیاد پر یہ المناک حادثہ پیش آیا۔ اس سمیولیشن میں پائلٹس نے طیارے کا لینڈنگ گیئر مسلسل نیچے رکھا اور وِنگ فلیپس کو کھولنے کے بجائے بند رکھا، جیسا کہ اصل پرواز میں مبینہ طور پر ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایئرانڈیا کی پرواز میں مسافر آپس میں لڑ پڑے، لینڈنگ کے بعد ایک کو حراست میں لے لیا گیا
تاہم سمیولیشن سے یہ واضح ہوا کہ ان دو پہلوؤں یعنی لینڈنگ گیئر کا نیچے ہونا اور وِنگ فلیپس کا بند رہنا، سے طیارے کو گرنے جیسا مہلک نتیجہ اخذ نہیں ہوتا۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ پرواز کے لیے غیر موزوں کنفیگریشنز ضرور ہیں اور طیارے کی پرواز پر اثر انداز ہوسکتی ہیں، لیکن یہ حادثے کی وجہ نہیں بن سکتی۔ یہی مشاہدہ ماہرین کو اس نتیجے تک لے گیا کہ ممکنہ طور پر کسی سنگین تکنیکی خرابی نے اس سانحے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
رپورٹ کے مطابق طیارے کی رفتار، زاویہ پرواز، اور دیگر پرواز سے متعلق تکنیکی پہلوؤں کو بھی اس سمیولیشن میں شامل کیا گیا تاکہ صورتحال کو زیادہ سے زیادہ حقیقی انداز میں جانچا جاسکے۔ فلائٹ ڈیٹا ریکارڈرز اور کاک پٹ وائس ریکارڈرز کی معلومات کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ طیارے کے سسٹمز نے ممکنہ طور پر کسی مقام پر غیر معمولی ردعمل دیا، جس سے پائلٹس کے لیے طیارے پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: احمد آباد طیارہ کریش: جہاز جس میڈیکل ہاسٹل پر گرا، وہاں کیا گزری؟
دوسری جانب، ایئر انڈیا نے ان نتائج پر کوئی باضابطہ ردعمل دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام معلومات اس وقت قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، اور جب تک تحقیقاتی ادارے اپنی رپورٹ مکمل نہیں کرتے، کمپنی کسی بھی قسم کا تبصرہ نہیں کرے گی، ایک ترجمان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا، ’یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، اور ہم اس وقت کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔‘
حادثے کی حتمی وجہ کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں، جن میں شہری ہوابازی کے ماہرین، طیارہ ساز کمپنی کے انجینئرز اور بین الاقوامی ماہرین بھی شامل ہیں۔ ابتدائی اشارے اگرچہ کسی ممکنہ فنی خرابی کی طرف جارہے ہیں، لیکن اس وقت تک کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا جب تک بلیک باکس کے تمام ڈیٹا اور دیگر تکنیکی شواہد کی مکمل جانچ نہ ہوجائے۔
یاد رہے کہ ایئر انڈیا کے 12 جون 2025 کو احمد آباد سے لندن جانے والی AI‑171 پرواز اڑان بھرتے ہی حادثے کا شکار ہوگئی تھی، جہاز میں عملے سمیت 242 افراد سوار تھے جن میں سے 241 مسافر لقمہ اجل بن گئے جبکہ ایک مسافر زندہ بچ گیا تھا، جبکہ یہ طیارہ جہاں گرا وہاں بھی متاثرہ جگہ پر 19 افراد جاں بحق ہوئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ایئر انڈیا بھارت طیارہ حادثہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایئر انڈیا بھارت طیارہ حادثہ ایئر انڈیا انڈیا کے کے لیے
پڑھیں:
سمجھ کیوں نہیں آتی کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے
اسلام ٹائمز: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیول ٹینکرز کی یہ غیر معمولی نقل و حرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی بڑی فضائی کارروائی یا طویل فوجی آپریشن زیرِ غور ہے۔ ان ٹینکروں کی موجودگی لڑاکا طیاروں کو زیادہ وقت تک فضا میں رہنے اور دور دراز اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں ہم پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ کچھ خدشات یہ بھی ہیں کہ اہل غزہ کو سینا منتقل کرنے کی تیاری ہے، جس کے خلاف کسی بھی ردعمل کو روکنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے خلاف اقدامات کے بارے میں بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جنگ بندی محض لولی پاپ تھا، اصل منصوبہ آٹھ ممالک کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ تمہیں مذاکرات پر لگا کر مزید کشت و خون کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
اقوام متحدہ میں سربراہان مملکت کی ہر سال حاضری ہوتی ہے، کافی مدت سے میں اسے بین الاقوامی رہنماوں کے وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں اقوام متحدہ بین الاقوامی مسائل میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ یوکرین سے لے کر کشمیر تک اور فلسطین سے لے کر شام تک کسی مسئلے میں اس کا کوئی مثبت بلکہ منفی کردار بھی نہیں رہا۔ امریکہ پہلے اقوام متحدہ کا نقاب اوڑھ کر ممالک کا استحصال کرتا تھا۔ اب اس نے تمام نقاب اتار پھینکے ہیں اور پوری بربریت کے ساتھ سامنے آگیا ہے۔ بعض فیصلے ممالک کی فکر کے عکاس ہوتے ہیں، مثلاً اب امریکہ نے منسٹری آف ڈیفنس کا نام تبدیل کرکے منسٹری آف وار، یعنی وزارت جنگ رکھ دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک اکثر ممالک میں وزارت جنگ ہوتی تھی، دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے وزارت دفاع کر دیا گیا تھا۔ اب امریکہ دوبارہ اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی معیشت جنگی معیشت ہے، یہ جنگ چاہتی ہے۔ اگر کچھ عرصے کے لیے جنگ رک جائے تو یہ امریکی معیشت کے لیے موت ہوگی۔ اسی لیے دیکھیے امریکہ دنیا میں جنگ ختم نہیں ہونے دیتا۔ ایک ختم ہوتی ہے تو دوسری شروع کرا دیتا ہے۔ پاکستان اور چند دوسرے ممالک کو لگنے لگا ہے کہ شائد امریکہ تبدیل ہوچکا ہے اور اب اس پر اعتماد کرتے ہوئے غزہ کے حوالے سے کوئی بہتر فیصلہ کرایا جا سکتا ہے۔ اسی نیت سے پاکستان اور دیگر ممالک نے امریکی صدر سے ملاقاتیں کیں اور ہمارے وزیراعظم نے تو بغیر دیکھے امریکی صدر کے پیس پلان کا خیر مقدم کر دیا۔ یہ اصطلاحات کا دھوکہ ہے، یہ پیس پلان نہیں، غزہ پر مکمل قبضہ ہے، جس کی تصدیق بھی اہل غزہ سے لینی ہے کہ جو قبضہ کیا گیا ہے، وہ درست ہے۔ آپ نے حمایت کا اعلان کر دیا، اب پتہ چل رہا ہے کہ یہ تو وہ نکات ہی نہیں، جن پر اتفاق رائے ہوا تھا، ویسے حماقت کی حد ہے۔
وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آج کل میڈیا پر فلسطین کے موضوع پر بہت بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے وادیلا کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور جبری بے دخلی کے خاتمے جیسے اہم نکات شامل نہیں ہیں، اس لیے پاکستان اس کی تائید نہیں کرتا اور واضح کیا کہ یہ ہماری دستاویز نہیں ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران منصوبے میں ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کی واپسی مخصوص شرائط سے مشروط کر دی گئی اور بعد ازاں ایک حفاظتی زون کی تجویز بھی شامل کی گئی۔ ڈار صاحب کے بقول ان تبدیلیوں کے باعث وہ تمام ترامیم شامل نہیں ہوسکیں، جو پاکستان نے سات دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر پیش کی تھیں اور جن پر صدر ٹرمپ نے قابلِ عمل حل دینے کا وعدہ کیا تھا۔
ڈار صاحب امریکی صدر اتنا ہی قابل اعتبار ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے پوچھا کہ ڈار صاحب نیتن یاہو کی ضمانت کون دے گا۔؟ کیا آپ ٹرمپ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی پاسداری کرائیں گے۔؟ ڈار صاحب نے کہا کہ گارنٹی کون دے سکتا ہے۔؟ اسی وجہ سے ہم نے اسرائیل سے براہِ راست رابطہ نہیں کیا، یورپی کوششیں ناکام رہیں۔ اب چوائس یہ ہے کہ مزید فلسطینیوں کی جانیں خطرے میں ڈالیں یا فوری طور پر بچاؤ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کے ذریعے بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جی وہی صدر ٹرمپ جس نے آپ کو کوئی اور معاہدہ دکھا کر حمایت وصول کر لی اور اب وہ معاہدہ ہی تبدیل کر ڈالا۔ امریکہ کا ماضی یہی بتاتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں تھا، جب ایران پر براہ راست حملہ کر دیا۔
اسرائیل کی بربریت جاری ہے۔ بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے لیے کسی بھی حالت میں خوراک نہ دینے کا اعلان کیا۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کے بحری جہازوں کو کسی بھی حالت میں غزہ پہنچنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ابھی ابھی اطلاعات آرہی ہیں کہ فوٹیلا پر حملہ ہوگیا ہے اور اسرائیلی فورسز نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بین الاقوامی ایڈ ورکرز کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ عمل بتا رہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کسی بھی قانون ضابطے کی روشنی میں قابل اعتبار نہیں ہیں۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ امریکی فضائیہ کے درجنوں فیول ٹینکر طیارے (KC-135 اور KC-46) اس وقت مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں میں سرگرم ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک غیر معمولی فضائی سرگرمی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ یہ طیارے بڑی تعداد میں خطے کی جانب روانہ ہوچکے ہیں اور ان میں سے کئی قطر میں "العدید ایئر بیس" پر اتر بھی چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیول ٹینکرز کی یہ غیر معمولی نقل و حرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی بڑی فضائی کارروائی یا طویل فوجی آپریشن زیرِ غور ہے۔ ان ٹینکروں کی موجودگی لڑاکا طیاروں کو زیادہ وقت تک فضا میں رہنے اور دور دراز اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں ہم پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ کچھ خدشات یہ بھی ہیں کہ اہل غزہ کو سینا منتقل کرنے کی تیاری ہے، جس کے خلاف کسی بھی ردعمل کو روکنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے خلاف اقدامات کے بارے میں بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جنگ بندی محض لولی پاپ تھا، اصل منصوبہ آٹھ ممالک کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ تمہیں مذاکرات پر لگا کر مزید کشت و خون کا انتظام کیا جا رہا ہے۔