ایئر انڈیا کے بدقسمت طیارے AI 171 کے حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے جاری تحقیقات میں ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ایئر انڈیا کے تجربہ کار پائلٹس نے طیارے کی پرواز کے وقت موجود تکنیکی و فنی حالات کو ایک فلائٹ سمیولیٹر میں دوبارہ تخلیق کیا تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنیاد پر یہ المناک حادثہ پیش آیا۔ اس سمیولیشن میں پائلٹس نے طیارے کا لینڈنگ گیئر مسلسل نیچے رکھا اور وِنگ فلیپس کو کھولنے کے بجائے بند رکھا، جیسا کہ اصل پرواز میں مبینہ طور پر ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایئرانڈیا کی پرواز میں مسافر آپس میں لڑ پڑے، لینڈنگ کے بعد ایک کو حراست میں لے لیا گیا

تاہم سمیولیشن سے یہ واضح ہوا کہ ان دو پہلوؤں یعنی لینڈنگ گیئر کا نیچے ہونا اور وِنگ فلیپس کا بند رہنا، سے طیارے کو گرنے جیسا مہلک نتیجہ اخذ نہیں ہوتا۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ پرواز کے لیے غیر موزوں کنفیگریشنز ضرور ہیں اور طیارے کی پرواز پر اثر انداز ہوسکتی ہیں، لیکن یہ حادثے کی وجہ نہیں بن سکتی۔ یہی مشاہدہ ماہرین کو اس نتیجے تک لے گیا کہ ممکنہ طور پر کسی سنگین تکنیکی خرابی نے اس سانحے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

رپورٹ کے مطابق طیارے کی رفتار، زاویہ پرواز، اور دیگر پرواز سے متعلق تکنیکی پہلوؤں کو بھی اس سمیولیشن میں شامل کیا گیا تاکہ صورتحال کو زیادہ سے زیادہ حقیقی انداز میں جانچا جاسکے۔ فلائٹ ڈیٹا ریکارڈرز اور کاک پٹ وائس ریکارڈرز کی معلومات کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ طیارے کے سسٹمز نے ممکنہ طور پر کسی مقام پر غیر معمولی ردعمل دیا، جس سے پائلٹس کے لیے طیارے پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: احمد آباد طیارہ کریش: جہاز جس میڈیکل ہاسٹل پر گرا، وہاں کیا گزری؟

دوسری جانب، ایئر انڈیا نے ان نتائج پر کوئی باضابطہ ردعمل دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام معلومات اس وقت قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، اور جب تک تحقیقاتی ادارے اپنی رپورٹ مکمل نہیں کرتے، کمپنی کسی بھی قسم کا تبصرہ نہیں کرے گی، ایک ترجمان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا، ’یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، اور ہم اس وقت کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔‘

حادثے کی حتمی وجہ کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں، جن میں شہری ہوابازی کے ماہرین، طیارہ ساز کمپنی کے انجینئرز اور بین الاقوامی ماہرین بھی شامل ہیں۔ ابتدائی اشارے اگرچہ کسی ممکنہ فنی خرابی کی طرف جارہے ہیں، لیکن اس وقت تک کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا جب تک بلیک باکس کے تمام ڈیٹا اور دیگر تکنیکی شواہد کی مکمل جانچ نہ ہوجائے۔

یاد رہے کہ ایئر انڈیا کے 12 جون 2025 کو احمد آباد سے لندن جانے والی AI‑171 پرواز اڑان بھرتے ہی حادثے کا شکار ہوگئی تھی، جہاز میں عملے سمیت 242 افراد سوار تھے جن میں سے 241 مسافر لقمہ اجل بن گئے جبکہ ایک مسافر زندہ بچ گیا تھا، جبکہ یہ طیارہ جہاں گرا وہاں بھی متاثرہ جگہ پر 19 افراد جاں بحق ہوئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news ایئر انڈیا بھارت طیارہ حادثہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایئر انڈیا بھارت طیارہ حادثہ ایئر انڈیا انڈیا کے کے لیے

پڑھیں:

یہ امتیاز کیوں؟

قیام پاکستان کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور دس سال سے زیادہ عرصہ متحدہ پاکستان کا دارالحکومت رہا جب کہ لاہور مغربی پاکستان کا اور ڈھاکا مشرقی پاکستان کا دارالحکومت تھا جب کہ دونوں صوبوں کے درمیان تقریباً ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا جو ہوائی جہاز یا بحری جہازوں کے ذریعے دونوں صوبوں کو ملائے ہوئے تھا۔

 لیاقت علی خان کے بعد کسی سیاسی وزیر اعظم کا اقتدار برداشت نہیں کیا گیا اور آئے دن وزیر اعظم بدلتے رہتے تھے، جنرل ایوب اسکندر مرزا کو ہٹا کر اور مارشل لا لگا کر آمر کے طور پر پہلے حکمران بنے تھے جن کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔بعدازاں ملک کا دارالحکومت کراچی سے منتقل کر کے راولپنڈی کے قریب ایک نیا شہر اسلام آباد بنایا گیا۔

اس وقت کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر تھا جہاں قائد اعظم، شہید ملت لیاقت علی خان اور گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر جیسے رہنما دفن تھے اور تینوں کا قیام پاکستان میں سب سے اہم کردار تھا اور اس وقت بھی کراچی صنعتی شہر اور ملک کی بندرگاہ تھا جس کے ٹیکسوں سے سسٹم کو قوت ملی اور آج 78 سال بعد بھی کراچی کی آمدنی سے صوبہ سندھ چل رہا ہے مگر سندھ کا کوئی حکمران کراچی کا نہیں رہا اور سب اندرون سندھ سے تعلق رکھتے آ رہے ہیں۔

قائد اعظم اور ملک کے پہلے وزیر اعظم کا تعلق کراچی سے تھا جس کے بعد کراچی سے کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہوا، صرف 1999 میں اقتدار میں آنے والے مضبوط حکمران جنرل پرویز مشرف تھے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ کراچی میں دفن ہیں ، انھوں نے کراچی کا بہت خیال رکھا۔

سیاسی حکومتوں میں اب تک جو صدور یا صوبائی گورنر مقرر ہوئے وہ نمائشی اور بے اختیار تھے اور 2008 میں صدر منتخب ہونے والے آصف زرداری کہنے کا تعلق نوابشاہ سے ہے جب کہ 1988 میں منتخب ہونے والی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے تمام بچے بھی کراچی میں پیدا ہوئے ، وہ اپنا شہر لاڑکانہ کو قرار دیتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور نواسے اور پی پی کے چیئرمین لاڑکانہ سے منتخب ہوتے رہے اور صدر آصف زرداری کا حلقہ انتخاب نواب شاہ ہے اور اب صدر منتخب ہو کر اپنی صاحبزادی کو انھوں نے نوابشاہ سے بلا مقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا تھا۔

بے نظیر بھٹو جب دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں انھوں نے اسلام آباد کو ترجیح دی اور ان کی حکمرانی میں کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر لیاری کو ضرور اہمیت ملی جو پی پی کا گڑھ ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی پی پی کی ہر حکومت میں ترجیح سے محروم رہا کیونکہ بھٹو دور سے آج تک کراچی پی پی کا کبھی گڑھ نہیں رہا اور کراچی کے ملیر، گڈاپ جیسے مضافاتی علاقے پی پی کی ترجیح ہیں جہاں پی پی کا بڑا ووٹ ہے، جب کہ آج کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہے۔

ہر کوئی مانتا ہے کہ کراچی سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے پاکستان اور سندھ کو معاشی فوائد حاصل ہو رہے ہیں جس کی کراچی بندرگاہ قومی خزانے کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے مگر اس اہمیت کے باوجود ملک کی تینوں بڑی پارٹیوں نے اپنی حکومتوں میں کراچی کو اس کا حق نہیں دیا اور نظر انداز کیا جب کہ کماؤ پوت ہر گھر کا تارہ ہوتا ہے۔

اسے اہمیت دی جاتی ہے اس کی مانی جاتی ہے ناراض نہیں ہونے دیا جاتا۔ ملک کا کماؤ پوت کراچی آج وفاقی اور سندھ حکومتوں سے ناراض ہے دونوں حکومتوں نے نئے بجٹ میں کراچی کو پھر نظرانداز کیا۔ کراچی کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے جیسے فنڈز رکھے گئے کسی نے بھی کراچی کو کوئی بڑا میگا منصوبہ نہیں دیا۔ وفاقی حکومت کی ترجیح اسلام آباد اور سندھ حکومت کی ترجیح اندرون سندھ ہے۔ اسلام آباد ملک کا خوبصورت ترین شہر ہے جب کہ کراچی کے حالات اچھے نہیں، عالمی سروے اس کا واضح ثبوت ہے۔ اسلام آباد میں ہر طرح ترقیاتی کام جاری، سڑکوں کی تعمیر اوور ہیڈ برجز اور انڈر پاس بن رہے ہیں بلکہ ایک نیا اوور ہیڈ برج مقرر مدت سے بھی کم وقت میں مکمل کیے جانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔

کراچی شہر کی اکثر سڑکیں تباہی کا شکار، ہر طرف نکاسی آب کا مسئلہ، گٹر ابلنا عام، تاریکی کا راج، فراہمی آب و بجلی کے لیے روزانہ احتجاج معمول بنا ہوا ہے۔

کراچی میں جدید بسوں کے لیے سالوں سے ٹریک بننے میں نہیں آ رہے بہ مشکل گرومندر نمائش کا منصوبہ مکمل ہوا مگر یونیورسٹی روڈ پر جاری کاموں سے شہری سخت پریشان ہیں۔ چند اہم شاہراہوں کے علاوہ باقی ہر بڑی چھوٹی سڑک گڑہوں سے بھری پڑی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، ٹرانسپورٹ کی سہولتیں برائے نام رہ گئی ہیں جس پر احتجاج ہوئے مگر کوئی سننے والا نہیں کیونکہ کراچی اب لاوارث شہر ہے جسے کوئی اون نہیں کر رہا باقی مسائل اور معاملات الگ ہیں اور کرپشن کا مال کمانے کے لیے کراچی دبئی مگر دبئی جیسی کوئی سہولت یہاں موجود نہیں ہے۔

کراچی کو بھرپور توجہ ملنی چاہیے اور کسی قسم کا امتیازی سلوک ختم کیا جانا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • میرے بیٹے عباس آفریدی کی موت حادثہ نہیں قتل ہے، سابق سینیٹر شمیم آفریدی
  • میرے بیٹے سابق وفاقی وزیر عباس آفریدی کی موت حادثہ نہیں قتل ہے، شمیم آفریدی
  • ائیرانڈیا کے طیارے موت کی مشینیں بن گئیں
  • یہ امتیاز کیوں؟
  • دمے کا مرض ختم کیوں نہیں ہوتا؟
  • کراچی ائیرپورٹ: ایک ہی دن میں 3 غیر ملکی طیاروں کے حادثات، ائیرپورٹ حکام پریشان، تحقیقات کا حکم
  • کراچی ایئر پورٹ پر حادثات کا شکار 3 غیر ملکی طیارے تاحال گراونڈ
  • کراچی سے روانہ ہونیوالی متعدد پروازیں منسوخ  
  • ایئرانڈیا حادثہ اور 274 مسافروں کی ہلاکت بھارتی ایوی ایشن نظام کی بدترین ناکامی